کیا الطاف حسین یا اس کا کوئی پیرو کار کسی ایسی بس میں سوار ہونا چاہے گا جس کا ڈرائیور نشے میں دھت ہو‘ جو ساری رات سویا نہ ہو اور جسے ہذیان بکنے کی عادت ہو؟ فاروق ستار جو مرضی کہیں‘الطاف حسین ایم کیو ایم کی روح ہے اور ایم کیو ایم کو سیدھے راستے پر لانے کے دو ہی طریقے ہیں:یا تو الطاف حسین میں سے اس کی روح نکال لی جائے یا پھر اس روح کو حقیقتاً ایم کیو ایم سے نکال باہر کیا جائے۔
یہ صرف پاکستان کے خلاف نعرے نہیں تھے‘ یہ ایم کیو ایم اور الطاف حسین کے چہرے پر آخری پردہ تھا جو ہٹ گیا۔ غداری اور وطن فروشی کی ساری حدیں الطاف حسین نے پار کر ڈالیں۔ یہاں کہلوایا آئندہ بھائی ایسا نہیں کریں گے اور خود اگلے ہی روز امریکہ میں ایک اور زہریلی تقریر کر ڈالی۔ اس کے جو چمچے اسے ذہنی مریض قرار دے کر بچانا چاہتے ہیں وہ بتائیں ذہنی مریض کا ٹھکانہ پاگل خانہ ہوتا ہے یا لیڈرشپ؟ایسے مریض کو لیڈر نہیں بنایا جاتا‘ گھنٹوں گھنٹوں خطاب نہیں سنے جاتے اور اس کی تقریروں پر مرمٹنے کا عزم نہیں کیا جاتا۔ کسی ذہنی مریض کو کسی پارٹی کا قائد تسلیم کرنا تو دُور کی بات کسی معمولی ادارے کے شعبے کا سربراہ بھی نہیں بنایا جا سکتا۔ ایسا ہو گا تو اس شعبے کے سارے افراد ذہنی مریض بن جائیں گے اور وہ شعبہ کچھ ہی عرصے میں تباہ و برباد ہو جائے گا۔ الطاف حسین کو پاکستان سے کیا نسبت؟ برطانوی شہرت کے علاوہ بھارت اور اسرائیل کی پشت پناہی اسے حاصل ہے۔ کیا را کے ایجنٹوں کے پکڑے جانے کے بعد
بھی ثبوت درکار ہیں؟اسرائیل سے مدد مانگ کر اس نے ثابت کر دیا کہ پاکستان توڑنے اور اس میں تباہی پھیلانے کا واحد ٹاسک اسے ملا ہے۔ کراچی جلتا رہے‘ اسی میں اس کا مفاد ہے۔ فاروق ستار کچھ بھی کہیں‘ الطاف کی تقریر اتنا سادہ معاملہ نہیں ہے۔ کون نہیں جانتا مکاری اور چالاکی سے وقت گزارنے کی کوشش کی جا رہی۔ کشمیر سے توجہ ہٹانے کی تو یہ سازش تھی ہی لیکن اس سازش کا مرکزی کردار اب فاروق ستار بن چکے۔ ہر ٹی وی چینل پر وہ براجمان ہیں۔ اگر وہ پیر کے روز والے مجمع میں موجود تھے جس میں پاکستان کے خلاف نعرے لگے تو ان کو گرفتاری کے بعد رہا کیوں کر دیا گیا؟ رات گئے تک انہوں نے کسی ٹی وی چینل کو فون پر ہی بیان دے دیا ہوتا کہ وہ ان نعروں کی مذمت کرتے ہیں۔ وہ مگر کیوں کرتے؟ سارا دن تو وہ لندن سے فون سننے اور اگلی پلاننگ میں مصروف تھے۔ رات گئے پریس کانفرنس کے لئے نکلے تو رینجرز کے ہتھے چڑھ گئے۔ سمجھ نہیں آتی رینجرز نے انہیں رہا کیوں کر دیا؟ الطاف حسین کا پاکستان دشمنی کا کھلم کھلا اظہار پاکستان پر حملہ تھا۔ کیا پاکستان پر حملہ کرنے والوں کو عوام اور فوج معاف کر دے گی؟ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ فوری طور پر ایم کیو ایم کے تمام لیڈروں پر پابندی عائد کر کے انہیں گرفتار کیا جاتا اور ان کے ٹی وی انٹرویوز پر بھی پابندی عائد کی جاتی لیکن حیرت ہے
اگلے ہی روز یہ لوگ پھر سے ٹاک شوز میں بیٹھے تھے۔ کیا ان کا موقف لینا بہت ضروری تھا؟ کیا کچھ دن صبر نہیں کیا جا سکتا تھا؟ رینجرز کو ان کی مرمت کا بھرپور موقع تو دیا جاتا۔ اُدھر واسع جلیل اور وسیم اختر الطاف حسین کو قائد منوانے پر تلے تھے جبکہ فاروق ستار لیپاپوتی کے ذریعے اینکرز کو مطمئن کرنے کی ناکام کوشش کر رہے تھے۔ ہر سیاسی جماعت اور ہر بندہ یہی کہہ رہا ہے کہ یہ سب ڈرامہ ہے۔ آپریشن سے بچنے کے لئے یہ قائد کو خود سے الگ کر رہے ہیں اور جیسے ہی انہیں موقع ملا یہ پلٹ کر پہلے سے گہرا گھائو لگائیں گے۔ افسوس تو ان سیاسی اور مذہبی جماعتوں پر بھی ہے جو بات بات پر سڑکوںپر آ جاتے ہیں لیکن کوئی ان کی سرزمین ‘ ان کی ماں کو برا بھلا کہہ دے‘ یہ جلوس نکالتے ہیں نہ جلسے کرتے ہیں۔ جو احتجاج ہوا وہ بھی کراچی کی حد تک۔ کیا کراچی ہی پاکستان کا حصہ ہے؟سوال یہ ہے جب کراچی میں الطاف حسین کی تصاویر ہٹا دی گئیں اور ان کا کوئی ایک بھی پیروکار احتجاج کے لئے نکلا نہ ہی دکانیں بند ہوئیں تو پھر باقی ملک کے لوگوں کو کس چیز کا خوف ہے؟کیوں یہ باہر نہیں آتے؟ کیوں دنیا کو یہ باور نہیں کراتے کہ ہم محب وطن ہیں‘ ہم وطن کے خلاف بکواس برداشت نہیں کر سکتے؟ اگر یہی واقعہ لندن میں ہوا ہوتا تو وطن کی حرمت کیلئے لاکھوں لوگ سڑکوں پر آ جاتے۔ حیرت ہے ہماری قوم صرف چودہ اگست کے دن پرچم لہرانے او رجھنڈیاں لگانے کو ہی سب کچھ سمجھتی ہے۔ درحقیقت‘ جب تک وطن کے خلاف ہرزہ سرائی کرنے والوں کی زبان نہیں کھینچ لی جاتی‘ وطن سے محبت کا حق ادا نہیں ہو سکتا۔پاک وطن کو گالیاں میڈیا ہائوسز پر حملے سے کہیں زیادہ بڑا جرم تھا‘ اس پر حکمرانوں کی خاموشی کا مطلب؟
کسی نے پوچھا اگر ایم کیو ایم دہشت گردی جماعت ہے تو اسے ووٹ بھی مل گئے ہیں‘ مئیر بھی ان کا منتخب ہو گیا ہے۔ میں نے کہا ووٹ کیسے ملتے ہیں وہ بھی سن لو۔ کسی ایک محلے میں اگر بیس گھر آنے آباد ہیں تو ان گھرانوں کی مکمل معلومات ایم کیو ایم کو ہوتی ہے۔ اگر ان میں دس ایم کیو ایم کے پکے ووٹر ہیں تو الیکشن سے قبل یہ باقی دس گھروں میں ایک ایک پرچی بھجوادیتے ہیں۔ انہیں بتاتے ہیں ‘ اس گھر میں اتنے لوگ رہتے ہیں،فلاں وقت فلاں بندہ نکل کر فلاں جگہ جاتا ہے اور فلاں وقت واپس آتا ہے۔ ہمیں معلوم ہے کون پیپلزپارٹی اور کون تحریک انصاف کو ووٹ دیتا ہے ۔ اگر اس مرتبہ ایم کیو ایم کا اس حلقے سے ووٹ نہ بڑھا تو پھر ایسے ہر گھر سے ایک ایک فرد ہمیشہ کے لئے کم ہو جائے گا۔ لوگ جان بچانے کے لئے ووٹ ڈالتے ہیں اور یوں ایم کیو ایم کی سیاست کو زندگی مل جاتی ہے۔بھتے وغیرہ کے معاملے میں ایم کیو ایم خاصی کمزور ہو چکی ۔اسی لئے رینجرز آپریشن کے بعد ان کا سارا فوکس انتخابی سیاست پر ہو گیا۔ عوام کے ووٹ ان کے لئے آکسیجن ہیں‘ انہیں وہ کسی صورت گنوا نہیں سکتے۔ایم کیو ایم اپنا عسکری ونگ ختم کرے‘ بھارت‘ اسرائیل اور الطاف حسین کی سرپرستی سے باہر آ جائے اور وطن فروش سیاستدانوں سے خود کو پاک کر لے‘ تو یہ اس ملک کے لئے قابل قبول ہو سکتی ہے۔ البتہ جو گناہ یہ کر چکی‘ جو نقصان یہ کر چکی‘ اس کا خمیازہ اسے بھگتنا ہو گا۔ فاروق ستار بھی سن لیں‘اداکاری سے اب کام نہیں چلے گا کہ برداشت کی تمام حدیں ختم ہو چکیں۔
پسِ تحریر: تحریک انصاف جس ایم کیو ایم کے خلاف تھی‘ آج اسی سے مدد مانگنے لگی۔ کراچی ضلع غربی میں چیئرمین شپ کے لئے تحریک انصاف کی طرف سے ایم کیو ایم کو 4 ووٹ دیئے گئے جس کے جواب میں ایم کیو ایم کی جانب سے ان کے امیدوار کو 21 ووٹ دیئے گئے ۔ کہا گیا کہ پی ٹی آئی نے قرآن پر ہاتھ رکھ کر کہا تھا کہ وہ ایم کیو ایم کے امیدواروں کو ووٹ نہیں دیں گے۔ تحریک انصاف کو اس مسئلے پر اپنا موقف واضح کرنا چاہیے کہ یہ اس کی ساکھ کا سوال ہے۔ ایک معمولی عہدے کے لئے ایک ایسی جماعت کے ساتھ ساز باز قطعاًقابل قبول نہیں ‘ جس کا ذہنی بیمار قائد وطن کے خلاف شرانگیزی اور ہرزہ سرائی کرتا ہے اور جس کی جماعت بھارت اور اسرائیل کی آلہ کار بن چکی۔