بھارتی انتہا پسند طبقہ اپنی حکومت پر زور دے رہا ہے کہ وہ پاکستان سے اڑی حملے کا بدلہ لینے کے لئے جنگ کی آگ میں کود پڑے ،اس کا خیال ہے کہ اگر پاکستان ایٹمی طاقت ہے تو بھارت کے پاس اس سے بھی زیادہ تعداد میں ایٹم بم ہیں جنہیں فوری طور پر پاکستان پر گرا دینا چاہیے۔ یہ بھارتی تیس مار خان معلوم نہیں کس دنیا کی مخلوق ہیں‘ جنہیں یہ معلوم نہیں کہ ایٹم بم کس چڑیا کا نام ہے اور اس کی تباہی کی نوعیت اور دائرہ کار کیا ہوتا ہے۔ جب یہ کہیں پھٹتاہے تو یہ نہیں دیکھتا کہ اس نے عام شہری کو نشانہ بنانا ہے یا فوجیوں کو۔اس میں اتنی طاقت ہوتی ہے کہ وہ انسانوں کے ساتھ ساتھ چرند پرند حتیٰ کہ زندگی کی تمام اشیا کو سیکنڈز میں بھسم کر سکتا ہے۔ جہاں ایٹم بم گر جائے وہاں سے برسوں عشروں تک تابکاری کے اثرات ختم نہیں ہوپاتے‘کوئی فصل نہیں اگتی‘ کوئی کاروبارِ زندگی نہیں ہوتا۔ جنگ پر اُکسانے والے یہ بھول رہے ہیں کہ بھارت کے ساتھ پاکستانی سرحد اس قدر طویل ہے کہ پاکستان میں ہونے والا کوئی بھی ایسا حادثہ بھارت کے وسیع علاقے کو بھی اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے۔جہاں تک ایٹم بموں کی تعداد کی بات ہے تو ہیروشیما اور ناگا ساکی پر تربوز کی جسامت کا صرف ایک ایک ایٹم بم گرایا گیا جس نے دونوں شہروں کو ملیامیٹ کر کے رکھ دیا تھا۔ صرف ناگاساکی میں چوہتر ہزار افراد پل بھر میں بھسم ہو گئے تھے۔ خدانخواستہ ایٹمی جنگ چھڑی تو یہ نہیں ہو گا کہ جس کے پاس ایٹم بم زیادہ ہوں گے وہ فاتح ہو گا بلکہ دونوں ممالک اس آگ میںیکساں جھلس جائیں گے۔ بھارت کے ان جنگی جنونیوں کو چاہیے کہ وہ کبھی جاپان جا کر دو شہروں کا دورہ کریں‘
ان لوگوں سے ملیں جو تابکاری کا شکار ہوئے ‘ ان جگہوں کا معائنہ کریں جہاں ایٹم بم گرائے گئے اوراس کے بعد ایسی کوئی درفنطنیاں چھوڑیں۔ جاپان کے پاس اس وقت اگر ایٹم بم ہوتا تو امریکہ ایسا حملہ کرنے سے پہلے ایک ہزار مرتبہ سوچتا۔ پاکستان اور بھارت کا معاملہ اور ہے۔ جنگ کی روایتی طاقت کی بات کریں تو بھارت بظاہر حاوی نظر آتا ہے لیکن یہی معاملہ پینسٹھ اور اکہتر کی جنگوں میں تھا تب بھی مگر بھارت کو ہی منہ کی کھانا پڑی تھی۔ اگر دونوں ممالک ایٹمی ہتھیار استعمال نہیں بھی کرتے تب بھی ماہرین کے مطابق دونوں ممالک یہ جنگ پندرہ بیس روز سے زیادہ جاری نہیں رکھ سکتے او ر اس میں کہیں زیادہ نقصان بھارت کا ہو گا۔بھارت خطے میں بڑی معاشی طاقت بننے کا خواہاں ہے۔ جنگ کی صورت میں یہ عشروں پیچھے چلا جائے گا۔ پاکستان پہلے ہی کمزور معیشت رکھتا ہے البتہ اسے حربی میدان میں اس لئے فوقیت حاصل ہے کیونکہ گزشتہ دس بارہ برس سے اس کی فوج عملی طور پر دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑ رہی ہے اور ایسے علاقوں کو دہشت گردوں سے آزاد کرایا ہے جہاں امریکی فورسز بھی ناکام رہتیں۔ چنانچہ ہماری فورسز کا مورال بہت زیادہ اونچا ہے جبکہ بھارتی افواج غیرفعال اور جنگ لڑنے کے فطری جذبے سے عاری دکھائی دیتی ہیں۔
گزشتہ چند دنوں سے ہرطرف پاک بھارت جنگ کی چہ میگوئیاں جاری ہیں۔ حتیٰ کہ بچے بھی سکول سے آنے کے بعد یہی پوچھتے ہیں کہ ایٹم بم کیا ہوتا ہے اور اس سے کیسے بچا جا سکتا ہے۔ ایٹمی حملہ جنگ میں ہمیشہ آخری آپشن ہوتا ہے لیکن بھارت کے سر پر جنگ کا جو بھوت سوار ہے اس نے خطے کو غیر ضروری طور پر بے وجہ خطرات سے دوچار کر دیا ہے۔ اس کی وجہ ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا بھارتی وزیراعظم ہے جو طاقت کے نشے میں سب کچھ تباہ و برباد کردینے پر تُلا ہوا ہے۔سوشل میڈیا پر پاک بھارت جنگ عملی طور پر شروع ہو چکی ہے۔ اسی طرح ایٹمی حملوں کی صورت میں پیشگی تدابیر بھی شیئر کی جا رہی ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ آپ ایٹمی حملے اور اس کے اثرات سے صرف اس صورت میں ہی بچ سکتے ہیں اگر آپ کے پاس ایک مضبوط اور محفوظ پناہ گاہ موجود ہو اور یہ پناہ گاہ زمین سے کم از کم دس فٹ نیچے تہہ خانے کی صورت میں ہونی چاہیے۔ آپ کے پاس تین چار ہفتوں کا راشن پانی اور ادویات وغیرہ کا ذخیرہ اگر ہو گا تو آپ اس جنگ سے محفوظ رہ سکیں گے۔
سوال یہ ہے کہ کیا اس سے بچائو عملی طور پر بھی ممکن ہے؟جس ملک میں اسی فیصد لوگوں کے پاس زمین سے دس فٹ اوپر اپنا گھر موجود نہیں‘ وہ دس فٹ نیچے کنکریٹ والے تہہ خانے کہاں سے بنائیں گے۔ ویسے بھی ایسے حملے بتا کر نہیں کئے جاتے اور نہ ہی اس وقت تہہ خانوں میں جانے کا وقت ہوتا ہے‘ تو پھر ایسی چیزیں شیئر کر کے بلاوجہ خوف کیوں پھیلایا جا رہا ہے۔ بھارت میں ایک محدود اور مخصوص طبقہ ہمیشہ سے ہی انتہاپسند سوچ کا مالک رہا ہے۔ اس کے اپنے عزائم اور اپنے منصوبے ہیں جنہیں پورا کرنے کے لئے ایسی گیدڑ بھبکیوں کا سہارا لیا جاتا ہے۔ نریندر مودی اگرچہ گجرات میں دو ہزار مسلمانوں کا قاتل ہے لیکن اسی گجرات کو اس نے بعد میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کے معاشی حب میں تبدیل کر دیا تھا اور اسی بنیاد پر بی جے پی عام انتخابات میں پورے بھارت میں حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی تھی۔ بھارت کی معیشت اس قابل نہیں کہ وہ کسی جنگی جنون کو برداشت کر سکے۔ یہ درست ہے کہ چین کے بعد عددی لحاظ سے بھارتی فوج تقریباً 26لاکھ اہلکاروں کے ساتھ دنیامیں دوسرے نمبر پر ہے‘اس کے پاس90سے 110تک ایٹمی ہتھیار موجود ہیں ‘2015ء میں اس کا دفاعی بجٹ 51ارب ڈالر سے زیادہ تھا جو اس کے جی ڈی پی کا 2.3فیصد بنتا ہے ‘ 2010ء میں یہ اسلحہ خریدنے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک تھا اور بھارت کی مقامی اسلحہ ساز کمپنیوں کا کاروبار بھی خوب چمک رہا ہے لیکن اکانومسٹ کی رپورٹ اور معروف دفاعی تجزیہ کار اجے شکلا کا بیان دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ بھارتی فوج کا یہ جنگی جنون گیدڑ سنگھی کے سوا کچھ نہیں کیونکہ اس کے زیادہ تر ہتھیار پرانے ہوچکے ہیں یا ان کی مناسب دیکھ بھال نہیں کی جارہی اور اس کی فضائیہ کا دفاعی نظام بہت ہی بری حالت میں ہے ۔بھارت کے پاس دو ہزار طیاروں پر مشتمل فضائی بیڑا ہے لیکن 2014ء میں دفاعی جریدے آئی ایچ ایس کی ایک رپورٹ کے مطابق ان میں سے صرف 60فیصد طیارے ہی اڑان کے قابل ہیں ۔اس صورت حال میں بھارت کبھی بھی پاکستان پر حملہ کرنے کی غلطی نہیں کر سکتا اور اگر کرے گا تو بہت پچھتائے گا۔
جہاں تک اڑی سیکٹر حملے کی بات ہے تو یہ ثابت ہو چکا کہ یہ حملہ پاکستان کو عالمی سطح پر تنہا کرنے کے لئے خود بھارت نے کرایا۔ خود بھارتی اخبارات میں چھپا ہے کہ سترہ میں سے تیرہ چودہ فوجی آگ میں جھلس کر ہلاک ہوئے جبکہ حملہ آوروں کی شناخت بھی ظاہر نہیں کی گئی۔ مقبوضہ کشمیر کے لئے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں وزیراعظم نواز شریف کی طرف سے پیش کیا گیا مقدمہ بھارت کے سینے پر مونگ دل رہا ہے۔بھارت کا خیال تھا کہ وزیراعظم کشمیر کا ذکر سرسری طور پر کریں گے لیکن انہوں نے جس انداز میں برہان وانی شہید کا ذکر کیا‘ اسے بالخصوص مقبوضہ کشمیر میں بہت زیادہ سراہا گیا۔ موجودہ صورتحال میں سیاسی استحکام کی جتنی زیادہ ضرورت ہے ‘تحریک انصاف جیسی جماعتیں اقتدار کی لڑائی میں اتنی ہی زیادہ مگن ہیں۔یہ وقت آپس میں لڑنے کا نہیں بلکہ دشمن کو یہ پیغام دینے کا ہے کہ پوری قوم اس وقت سیسہ پلائی دیوار کی طرح متحد ہے اور وطن کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنے والوں سے نمٹنا خوب جانتی ہے۔