بھارت کو لینے کے دینے پڑ گئے ہیں۔ پاکستانی علاقے میں سرجیکل سٹرائیک کے دعوے پر عالمی میڈیا بھی انگلیاں اٹھانے لگا ہے۔ایک جاپانی میگزین نے لکھا ہے کہ پاکستان کا ایئر ڈیفنس سسٹم بہت زیادہ جدید اور ایڈوانس ہے‘ بھارت جو دعویٰ کر رہا ہے‘ اس سسٹم کے ہوتے ہوئے اس طرح کی سرجیکل سٹرائیک ممکن نہیں۔دی ڈپلومیٹ لکھتا ہے کہ پاکستان ناقابل یقین حد تک متاثر کن فضائی دفاعی نظام کا حامل ہے اور اس طرح کی سرجیکل سٹرائیک کے لئے جس قسم کی مربوط پلاننگ اور تکنیکی مہارت درکار ہوتی ہے‘ بھارت ابھی اس حوالے سے ٹیسٹنگ اور تجربات کے مراحل سے گزر رہا ہے۔ بھارت نے تاحال اس حملے کے حوالے سے کوئی ثبوت بھی فراہم نہیں کئے ۔ بھارت کا یہ حملہ اشتعال پر مبنی تھا اور اس کا مقصد اپنے عوام کو یہ کہہ کر مطمئن کرنا تھا کہ ہم نے کشمیر میں اڑی سیکٹر حملے کا بدلہ لے لیا ہے۔ بھارت کا دوسرا مقصد عالمی برادری کو یہ باور کرانا تھا کہ پاکستان کشمیر میں دراندازی میں ملوث ہے اور پاکستانی زیرانتظام علاقے میں کارروائی بھی اسی تناظر میں کی گئی۔دی ڈپلومیٹ کے مطابق سرجیکل سٹرائیک کے لئےHowitzerسسٹم کا فعال ہونا انتہائی ضروری ہے جس کے ذریعے کوئی میزائل گلوبل پوزیشننگ سسٹم استعمال کرتے ہوئے مطلوبہ ہدف کی جانب چلایا جا سکتا ہے۔ یہ سسٹم امریکہ اپنے ڈرون طیاروں میں استعمال کر رہا ہے۔ جب بھی کسی ٹارگٹ کو نشانہ بنانا مقصود ہوتا ہے‘ اس سسٹم کے ذریعے کوئی میزائل جی پی ایس کی معلومات کو استعمال کرتے ہوئے ٹارگٹ کی طرف لانچ کر دیا جاتا ہے۔ ڈپلومیٹ کے مطابق بھارت میں اس طرح کے آرٹلری سسٹم کی ڈویلپمنٹ اور پروڈکشن 2018ء سے قبل ممکن ہی نہیں۔ اسی
طرح بھارت نے فرانس کے ساتھ رافیل لڑاکا طیاروں کی خریداری کا جو حالیہ معاہدہ کیا ہے‘ اس کے مطابق بھارت فرانس سے36 رافیل طیارے خریدے گاجس کے لئے دونوں ممالک کے درمیان 8.8 ارب ڈالر مالیت کے معاہدے پر دستخط ہو چکے ہیں۔ چین کے سرکاری میڈیا کے مطابق یہ طیارے نیوکلیئر وار ہیڈز لے جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور اس طرح بھارت اپنے علاقوں سے ان طیاروں کے ذریعے پاکستان اور چین کو نشانہ بنانے کے قابل ہو جائے گا لیکن رافیل طیارے بھی بھارت کو ملنے میں کم از کم تین سال کا عرصہ لگے گا تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بھارت پھر اس قدر جارحیت پر کیوں اتر آیا ہے۔ اکانومسٹ کی رپورٹ بھی ہماری نظر سے گزر چکی ہے جس میں خود بھارتی عسکری ماہرین اعتراف کر رہے ہیں کہ بھارت کے ساٹھ فیصد طیارے اڑان کے قابل نہیں ‘حتیٰ کہ جدید رائفل کی خریداری کا ایک معاہدہ1982ء سے التوا کا شکار ہے ‘ مغربی میڈیا کی اس طرح کی رپورٹس کے بعد بھی اگر بھارتی کسی قسم کی غلطی کا ارتکاب کرتا ہے تو اس کی وجہ بھارت کا وہ غیر ذمہ دار میڈیا ہے جو جنگ کی آگ بھڑکانے کے لئے دن رات کوشاں ہے۔ مقام شکر ہے کہ پاکستانی الیکٹرانک میڈیا نے اس مرتبہ قدرے ذمہ داری کا مظاہرہ کیا اور حکومت یا فوج کو بھارت پر چڑھ دوڑنے کے مشورے نہیں دئیے۔تاہم کچھ صحافتی عناصر پر کڑی نظر رکھنا ہو گی جو اینٹی آرمی ایجنڈے پر ہیں اور ایسا کوئی موقع ضائع نہیں جانے دیتے جس سے قومی اداروں کو سبکی پہنچ سکے۔ماضی قریب میں قومی
انٹیلی جنس ایجنسی پر الزامات کی بوچھاڑ اس کی تازہ مثال ہیں۔ یہ لوگ پاک بھارت کشیدگی کا فائدہ اٹھا کر اپنے مذموم مقاصد پورے کرنے کیلئے غلط فہمیاں پھیلانے کی تگ و دو میں ہیں اور انہیں فضا میں اپنے جنگی طیاروں کی گھن گرج ایک آنکھ نہیں بھاتی۔ اچھی بات یہ ہے کہ حکومت اور فوج کی دفاعی پالیسی بڑی متوازن اور تحمل پر مبنی تھی اور اگر ایسا نہ کیا جاتا تو اب تک دونوں ممالک بلکہ پورا خطہ جنگ کی لپیٹ میں آ چکا ہوتا۔
بھار ت کے جو انتہا پسند اپنی فوج کو جنگ پر اکسانے کیلئے دن رات ایک کر رہے ہیں انہیںپہلے اپنے گھر پر نظر ڈال لینا چاہیے تھی ۔ اڑی حملے کے بعد جب سے پاک بھارت جنگ کے آثار نمایاں ہوئے ہیں‘ چالیس ہزار بھارتی فوجیوں نے چھٹیوں کی درخواستیں دے دی ہیں۔ جنگیں اسلحے سے نہیں بلکہ جذبات‘ مورال اور جنون سے لڑی جاتی ہیں۔اگرجدید ٹیکنالوجی کافی ہوتی تو پھر امریکہ اور اتحادی فوجی عراق اور افغانستان میں کامیاب ہو چکے ہوتے۔ پینسٹھ کی جنگ میں سکواڈرن لیڈر ایم ایم عالم نے ایک منٹ سے بھی کم وقت میں بھارت کے پانچ طیارے مار گرائے تھے۔ بھارت اس سے جدید طیاروں کے ساتھ فضا میں تھا لیکن اس کے پاس شہادت کے اس جذبے کی کمی تھی جو ہمارے فوجی جوانوں کا خاصا اور اثاثہ ہے۔ اسی طرح پاکستان گزشتہ دس برس سے حالت جنگ میں ہے۔ پاکستانی افواج دنیا بھر میں امن مشن میں حصہ لیتی آ رہی ہیں۔ دو برس سے ضرب عضب آپریشن جاری ہے۔ شمالی وزیرستان سے دہشت گردوں کا صفایا کیا جا چکا ہے جس میں فضائی اور بری افواج نے شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ضرب عضب آپریشن کے نتیجے میں پورے ملک میں امن قائم ہو چکا ہے۔ مہینے دو مہینے بعد اکا دکا واقعات ہو رہے ہیں جو پہلے آئے روز ہوتے تھے۔ سب سے بڑا مسئلہ کراچی تھا‘ وہاں اب بھتے خوری‘ ٹارگٹ کلنگ وغیرہ کے واقعات ماضی کا قصہ بن چکے ہیں۔ایم کیو ایم کے الطاف حسین نے اپنی جماعت پر جو خودکش حملہ کیا تھا‘ اس سے کراچی میں امن کے قیام میں بڑی مدد ملی ہے۔ ایم کیو ایم اور را کے درمیان جو تعلق تھا‘ وہ بھی کمزور ہو چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت پوری طرح بوکھلا چکا ہے۔ بلوچستان میں اس کے ایجنٹ پکڑے جانے اور داخلی طور پر دہشت گردی میں ناکامی کے بعد اب بھارت کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا کہ وہ کنٹرول لائن پر سرجیکل سٹرائیکل کا شوشہ چھوڑتا۔ بھارت کا یہ وار بھی خالی گیا۔پاکستان کو البتہ سفارتی سطح پر بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ گزشتہ دنوں وزیراعظم نے جنرل اسمبلی میں کشمیر کا مسئلہ اٹھایا‘ اسی طرح آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے بھی جرمنی میں ایک کانفرنس سے خطاب میں بھارت کے کشمیر میں مظالم پر آواز اٹھائی۔ اس سب کے باوجود ایک باقاعدہ وزیرخارجہ کی تعیناتی ضروری ہے جو بھارت کی سازشوں اور مکاریوں سے دنیا کو آگاہ کرے۔ انتیس ستمبر کو جب پاکستانی پوسٹ پر بھارت نے فائرنگ کی تو پاکستان کو فوری طور پر بھارتی ہائی کمشنر کو بلا کر احتجاج کرنا چاہیے تھا۔ تاہم بھارت جس نے یہ سارا ڈرامہ رچایا‘ بھارت میں پاکستانی ہائی کمشنر عبدالباسط کو فوراً طلب کر کے الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے والا معاملہ کر دیا۔
پاکستان کو داخلی طور پر بھی بہت سے مسائل کا سامنا ہے۔پاک بھارتی کشیدگی پر تحریک انصاف کا رائے ونڈ مارچ اگر چند دنوں کے لئے ملتوی کر دیا جاتاتو قیامت نہ ٹوٹ پڑتی۔ بدقسمتی سے عمران خان جب بھی کوئی تحریک شروع کرنے لگتے ہیں‘ قسمت ان کا ساتھ نہیں دیتی۔ بعض اوقات وہ خود ہی غلط ٹائمنگ کا انتخاب کرتے ہیں اور کئی مرتبہ وہ غلط موقع پر تحریک شروع کرتے ہیں۔جب پاناما کا مسئلہ اٹھا تھا تو خود ابتدائی دس بیس دن تک ن لیگ کے پاس دفاع کے لئے کہنے کوکچھ نہ تھا‘ اس وقت رائے ونڈ جیسے جلسے کئے جاتے تو اس میچ کا یکطرفہ فیصلہ پی ٹی آئی کے حق میں آ جاتا۔ اب محرم شروع ہونے میں تین دن باقی ہیں۔ انہوں نے رائے ونڈ میں بڑا جلسہ کر بھی لیا تو تحریک کا مومینٹم وہ کیسے برقرار رکھ پائیں گے۔رائے ونڈ جلسے سے پہلے انہیں اپنے اردگرد موجود ان رہنمائوں کے خلاف تحریک شروع کرنی چاہیے تھی جو اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کی گائیڈ لائن پر عمل کرتے رہے اور بالآخر ٹائم گین پالیسی استعمال کرتے ہوئے پاناما ایشو کا ڈنگ نکالنے میں کامیاب ہو گئے۔جب تک خان صاحب اپنی پارٹی سے ایسے آستین کے سانپوں کا صفایا نہیں کرتے‘ وہ جتنے مرضی جلسے کر لیں‘ مطلوبہ اہداف حاصل نہیں کر سکتے!