اس وقت مقبوضہ کشمیر اور پاک بھارت تنائو اہم مسئلہ ہے یا پاناما پیپرز؟ تحریک انصاف کے چیئرمین اس بارے میںشدید الجھائو کا شکار ہیں۔ سرحدی کشیدگی کی وجہ سے دونوں ممالک پر جنگ کے بادل چھائے ہیں لیکن تحریک انصاف ڈیڑھ انچ کی مسجد الگ بنا رہی ہے۔ اس بار تو حد ہو گئی۔ نہ عمران خان خود آل پارٹیز کانفرنس میں گئے اور نہ ہی پارلیمنٹ جانے کو درخوراعتنا سمجھا۔ اگر مسلسل جدوجہد سے صلہ نہ ملے تو کیا بائیکاٹ ہی واحد حل ہے؟ کشمیری عوام اگر ستر برس سے جدوجہد کر رہے ہیں تو کیا انہیں مایوس ہوجانا چاہئے؟۔ خان صاحب کی اس پالیسی پر مگر افسوس ہوتا ہے کہ اگر پارلیمنٹ کے اجلاس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلنا اور اس میں کوئی نئی بات نہیں ہونی تو اس کا بائیکاٹ کر دینا چاہیے۔ اس میں کشمیریوں کا مگر کیا قصور؟پارلیمنٹ میں اگر آپ آتے‘ آواز اٹھاتے تو اس کا فائدہ نون لیگ کو نہیں کچھ نہ کچھ ہی سہی ان کشمیریوں کوپہنچتا‘ جو عشروں سے بھارتی جبر کا شکار ہیں۔
یہ بھی درست ہے کہ ملک بے شمار مسائل کا شکار ہے‘ اسے بے روزگاری اور مہنگائی نے ڈس رکھا ہے‘ یہ کرپشن اور لوڈشیڈنگ کے عفریت سے خوفزدہ ہے اور یہ قوم غربت اور ناانصافی کا زہر بھی پی رہی ہے‘ مگر یہ پریشانی حقیقی سے زیادہ نفسیاتی ہے‘ ہماری قوم اور اس کے سیاستدان یہ سمجھ رہے ہیں اسے جو زخم لگے ہیںصلاحیت ہونے کے باوجود وہ ان کا مقابلہ نہیںکر سکتے۔ قوم یہ سمجھتی ہے پاکستان ہمیشہ پاکستان رہے گا‘ یہ اسی طرح اندھیروں میں ڈوبا رہے گا‘ دہشت گردی بھی یونہی جاری رہے گی اور لوگ پچاس سال بعد بھی پارلیمنٹ کے سامنے خودکشیاں کر رہے ہوں گے ۔ کچھ
عرصہ تک بیشتر لوگ یہ سمجھتے تھے کہ ان حالات میں اگر کوئی سیاستدان تبدیلی لا سکتا ہے تو وہ عمران خان ہے کیونکہ اس جماعت اور اس تحریک کا فوکس نوجوان ہیں جو اس ملک کا ساٹھ سے پینسٹھ فیصد ہیں‘ دوسرے معنوں میں اگر یہ سارے نوجوان تحریک انصاف کے ساتھ مل جائیں اور ان کے ساتھ بوڑھے‘ عورتیں اور بچے بھی شریک ہو جائیں اور یہ جماعت ایک واضح اور قابل عمل لائحہ عمل پیش کرے اور یہ لائحہ عمل واقعی کرشمے دکھانا شروع کر دے تو اس ملک کی قسمت اس کی تقدیر تک بدل جائے گی۔ مینار پاکستان پر شاندار جلسہ عمران خان کی سیاست کا ٹرننگ پوائنٹ تھا اور اگر ہماری قوم اس ٹرننگ پوائنٹ کو ہی مثال بنا لیتی‘ یہ ہر طرح کے خوف سے نکل آتی تو ممکن ہے اس کا خوف بھی دور ہو جاتا اور یہ ملک اپنے ٹریک پر بھی آ جاتا لیکن اس کہانی کا دوسرا پہلو انتہائی خوفناک تھا اور وہ یہ تھا کہ اگر عمران بھی ناکام ہو گیا‘ یہ اپنے منشور پر عمل نہ کر سکا‘ یہ اپنا ایجنڈا نافذ نہ کرسکا‘ یہ ماضی کی غلطیاں دہراتا رہا‘ اگر اس نے بائیکاٹ کی پالیسی جاری رکھی ‘ اگر اس نے ''ون مین پارٹی‘‘ کا امیج نہ بدلا‘ اگر اس کی پارٹی میں کالی بھیڑیں گھس گئیں‘ اگر اس نے بھی مجرموں‘ بے ایمانوں اور ڈاکوئوں کو ٹکٹ دینا شروع کر دئیے‘ اگر یہ اقتدار میں آ کر عوام کو بھول گیا اور اگر یہ مخلص ساتھیوں کی بجائے سازشی مشورہ نویسوں کے ٹریپ میں آتا گیا
اور اگر یہ مشورہ نویس اپنے ایجنڈے میں کامیاب ہو گئے‘ اگر ان لوگوں نے عمران کا رُخ مشرق سے مغرب کی طرف موڑ دیاا ور اگر یہ عمران کو تحریک استقلال کا اصغر خان بنانے میں کامیاب ہو گئے تو یقین کیجئے عمران کی ساکھ مٹی میں ملنے میں ذرا دیر نہیں لگے گی‘ یہ بھی تاریخ کی سیاہیوں میں گم ہو جائے گا اور لوگ اسے بھی سیریس نہیں لیں گے ۔مجھے یقین تھا عمران ایسا نہیں کرے گا‘ نوجوان اسے ٹوٹ کر چاہتے ہیں اور یہ نوجوانوں کا دل نہیں توڑے گا لیکن گزشتہ روز پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں عمران خان نے شرکت نہ کر کے یہ ثابت کر دیا کہ وہ مثبت سیاست سے نہ صرف کوسوں دور ہیں بلکہ ماضی کی غلطیاں دہرانے پر بھی انہیں کوئی افسوس نہیں۔ دو روز قبل بھی آل پارٹیز کانفرنس میں جب ساری جماعتیں کشمیر پر اکٹھی تھیں‘ وہ نتھیا گلی میں اپنے دوستوں کے ساتھ محفل جمانے میں مگن تھے۔عمران خان کا کہنا ہے کہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں کوئی نئی بات نہیں ہو گی اس لئے اس میں شرکت کا کوئی فائدہ نہیں اور وہ اپنے فیصلے پر قائم ہیں۔کیا یہ جھوٹ ہے عمران خان صرف پاناما ایشو کو ہی ملک کا اول و آخر مسئلہ سمجھتے ہیں اور اگر پارلیمنٹ میں کوئی اور ایشو زیربحث ہو تو وہ پارلیمنٹ آنا مناسب ہی نہیں سمجھتے۔کیا مظلوم کشمیریوں کا اُن پر کوئی حق نہیں؟
عمران خان کے اس فیصلے سے دنیا کو دو پیغام ملتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ تمام قومی جماعتیں کشمیر جیسے نازک مسئلے پر بھی اکٹھی نہیں۔ اس وقت جب بھارت سرحد پر جنگ کے شعلے بھڑکا رہا ہے‘ تحریک انصاف کو تمام اختلافات بھلا کر کم از کم کشمیر اور کشمیریوں کے لئے اس اجلاس میں شرکت کرنی چاہیے تھی۔ دوسرا یہ کہ اجلاس میں شرکت نہ کرنے سے کشمیریوں کو بھی تحریک انصاف کی طرف سے اچھا پیغام نہیں ملے گا۔ ایک طرف عمران خان چاہتے ہیں کہ کشمیریوں کو ان کا حق ملے‘ بھارت اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل کرے اور مقبوضہ کشمیر میں ظلم و ستم سے باز آ جائے‘ دوسری طرف وہ ایسی کسی کوشش کا حصہ بننے کو تیار نہیں جس سے عالمی برادری پر کسی قسم کا دبائو بڑھایا جا سکے۔ خان صاحب وزیراعظم نوازشریف کو تو کہتے ہیں کہ وہ پارلیمنٹ کم آتے ہیں لیکن خود وہ پارلیمنٹ میں حسب منشا ہی جاتے ہیں ۔ سوائے فوج کے وہ کسی ادارے پر اعتماد کرنے کو تیار نہیں ۔ حالانکہ انہی اداروں سے جب انہیں ریلیف ملتا ہے تو وہ اس کا کریڈٹ لیتے ہیں اور جب فیصلہ ان کے خلاف آ جائے تو وہ سب کو مجرم گرداننے لگتے ہیں۔
رائے ونڈ جلسے میں اسلام آباد کو بند کرنے کی دھمکی انہوں نے دی تو خود تحریک انصاف کے لوگوں کو سخت مایوسی ہوئی۔ ان کا خیال تھا کہ خان صاحب کوئی ٹھوس لائحہ عمل بتائیں گے لیکن انہوں نے غالباً شیخ رشید کے مشورے پر عمل کرنا زیادہ مناسب سمجھا ۔ تحریک انصاف کے کئی شیدائیوں نے ای میل میں کہا کہ آپ ہر کالم میں خان صاحب کو شیخ رشید سے بچنے کی تلقین ضرور کریں کیونکہ ہمیں خود اس پر بہت تحفظات ہیں۔ میرا خیال ہے انصافینز کو براہ راست یہ بات خان صاحب تک پہنچانی چاہیے۔ وہ خان صاحب کو سمجھائیں کہ خان صاحب کو شیخ رشید جیسوں کا ساتھ نقصان پہنچا رہا ہے اور لوگ ان سے بددل ہو رہے ہیں۔ رائے ونڈ جلسے میں شیخ رشید نے خواتین کی موجودگی میں مخالفین کے لئے جو زبان استعمال کی‘ اسے دہرایا بھی نہیں جا سکتا۔سیاست میں مر جائو یا مار دو اور آر یا پار والی صورتحال پیدا کرنا مناسب نہیں۔ اس کا فائدہ تیسری قوت اٹھاتی ہے۔ فی الوقت یہی اطلاعات ہیں کہ پی ٹی آئی کا اسلام آباد پر کریک ڈائون بڑے سانحے کا سبب بن سکتا ہے جس کا نقصان مخالف جماعت کو نہیں‘ ملک کو ہو گا۔ یہ ایسا ہی حملہ ہو گا جیساخود کش حملہ الطاف حسین نے بائیس اگست کو اپنی جماعت پر کیا تھا۔ آج ایم کیو ایم کس حال میں ہے؟ خان صاحب کو کوئی سمجھائے کہ داخلی انتشار پاناما مسئلہ کا حل نہیں ‘ اس وقت اہم ترین ایشو مسئلہ کشمیر اور پاک بھارت کشیدگی ہے اور جو سیاستدان آج کشمیریوں کے ساتھ کھڑا نہیںہوتا وہ اپنی سیاسی اور اخلاقی موت کا ذمہ دار خود ہو گا۔