تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کے سابق صدر آصف زرداری کو سربراہ ماننے والے حالیہ بیان پر انا للہ ہی پڑھا جا سکتا ہے۔ عمران خان نے یہ بیان دے کر کہ پاناما لیکس کے ایک نکاتی ایجنڈے پر آصف علی زرداری کی سربراہی میں اپوزیشن جماعتیں اکٹھی ہوسکتی ہیں‘ ثابت کر دیا ہے کہ نہ تو وہ ماضی کی غلطیاں دہرانے سے باز آئیں گے اور نہ ہی نئے سال میں ان سے کسی کو ایسی امید لگانی چاہیے۔ وہ جس آصف زرداری کو سربراہ ماننے کی بات کر رہے ہیں ان کے حوالے سے چھ ماہ قبل انہوں نے کیا بیان دیا تھا ذرا وہ بھی ملاحظہ کیجئے۔ عمران خان نے کہا تھا ''پیپلز پارٹی اور ن لیگ والے ملے ہوئے ہیں۔ خورشید شاہ سے زیادہ فرینڈلی اپوزیشن نہیں ہوسکتی، اعتزاز احسن وزیراعظم کا احتساب چاہتے ہیں مگر آصف زرداری نہیں چاہتے ،پیپلزپارٹی اندر سے حکومت کے ساتھ ملی ہوئی ہے ، اس کا وجود ختم ہورہاہے ، میں پیپلزپارٹی سے کہتا ہوں کہ آصف زرداری کو پارٹی سے مائنس کردیں ، میں ایسی منافقت نہیں کر سکتا، میں اتنا اچھاسیاستدان نہیں‘‘۔
کیا یہ کھلا تضاد نہیں کہ جس پیپلزپارٹی سے آصف زرداری کو مائنس کرنے کی بات وہ چند ماہ قبل کر رہے تھے اب اسی آصف زرداری کو وہ اس پاناما گیٹ پر سربراہ ماننے کو تیار ہو چکے ہیں جن کی پارٹی پر اعتبار کر کے ان کے بقول انہوں نے سات آٹھ مہینے ضائع کئے تھے ۔کیا خان صاحب بتائیں گے کہ اب صدر زرداری یکدم دودھ سے دھلے کیسے ہو گئے اور کیوں انہیں وہ کلین چٹ دے رہے ہیں‘ کیا کوئی زرداری عمران خان ڈیل ہو چکی ہے اور کیا زرداری پر ماضی میں سرے محل اور سوئس اکائونٹس کے حوالے سے انہوں نے جو تنقید کی تھی‘ کیا اس پر بھی عمران خان زبان بندی اختیار کریں گے۔گزشتہ برس ٹی او آرز پر پیپلزپارٹی کے وہ پیچھے چلتے رہے اور بالآخر مایوس ہو کر سڑکوں پر آ گئے۔ اب اسی پیپلزپارٹی کے حوالے سے وہ یہ بیان دے کر اپنے ووٹرز کا دماغ گھمائے چلے جا رہے ہیں کہ تحریک انصاف پاناما لیکس پر پیپلز پارٹی سے بات کرسکتی ہے۔کیا انہوں نے اپنے ووٹرز اور حلقہ احباب کو کنفیوز کرنے کی قسم کھا رکھی ہے۔ کون نہیں جانتا کہ انہوں نے آصف زرداری اور بلاول بھٹو کے حلقوں سے الیکشن لڑنے کا بھی جو اعلان کیا ہے وہ ایک رسمی کارروائی ہو گی کیونکہ کراچی میں چند ماہ قبل بلدیاتی انتخابات میں بھی تحریک انصاف نے پیپلزپارٹی کو سپورٹ کیا تھا۔اسی طرح میئر فیصل آباد کے انتخاب میں ان کی پارٹی نے مسلم لیگ ن کی حمایت کی تھی جس کی وجہ سے رانا ثنا اللہ گروپ کا امیدوار منتخب ہونے میں کامیاب ہوا۔ یہاں سے ظاہر ہوتا ہے کہ تحریک انصاف کو اپنی جماعت پر ہی کنٹرول نہیں اور اس نے تبدیلی اور شفافیت کا جو نعرہ لگایا تھا‘ اب اس نعرے میں وہی روایتی ملاوٹ ہو چکی ہے جو دیگر سیاسی جماعتوں کا خاصا ہے۔لوگ حیران ہیں کہ کبھی پی ٹی آئی چیئرمین فرماتے ہیں کہ آصف زرداری نواز شریف کا احتساب نہیں چاہتے ، پیپلز پارٹی انہیں مائنس کر دے اور کبھی وہ خود ہی زرداری صاحب کو اپنا قائد ماننے کو تیار ہو جاتے ہیں۔ خان صاحب پر پہلے ہی یوٹرن لینے کے اتنے الزامات ہیں‘ وہ ان میں اضافہ کر کے اپنی لٹیا کیوں ڈبونا چاہ رہے ہیں۔ پیپلزپارٹی کے حوالے سے ان کے موقف میں ایک سو اسی ڈگری کی تبدیلی کے بعد کسے شک رہ جاتا ہے کہ خان صاحب سیاست کو محض دل لگی ‘ شہرت اور کھیل کے طور پر چلا رہے ہیں۔ اگر وہ سنجیدہ ہوتے تو کم از کم اپنے اہداف کا تعین کرتے اور اس کے بعد عملی سیاست کے میدان میں اترتے۔وہ کرپشن کے خلاف جنگ کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں‘ پاناما گیٹ پر نواز شریف فیملی کو سزا دلوانا چاہتے ہیں لیکن آصف علی زرداری کے سرے محل‘ ان کے سوئس اکائونٹس اور کروڑوں ڈالرز انہیں آج یاد بھی نہیں۔ یہ کس طرح کی سیاست ہے۔ مجھے یاد ہے گزشتہ دور حکومت میں کوئی دن خالی نہ جاتا تھا جب خان صاحب کا آصف زرداری کے خلاف کوئی بیان نہ آتا ہو۔ اخبار اٹھا کر دیکھ لیں‘ وہ
یہی کہتے نظر آئے کہ زرداری کرپشن کے بادشاہ ہیں ‘ وہ ملک لوٹ کر کھا گئے ‘ دولت لوٹ کر سرے محل بنا لیا اور آج وہ یہ بیان دے رہے ہیں کہ میں پیپلزپارٹی کے خلاف زیادہ نہیں بولوں گا کیونکہ اس سے ان کی اتحادی جماعت کے ساتھ تعلقات خراب ہوتے ہیں کیونکہ ان کا اور پیپلزپارٹی کا ہدف ایک ہے۔دو نومبر کو اسلام آباد دھرنے سے قبل بھی انہوں نے پیپلزپارٹی پر الزامات کی اندھا دھند فائرنگ کی تھی‘ دھرنے میں ناکامی پر غالباًانہیں احساس ہوا کہ وہ زرداری کی مدد کے بغیر کچھ نہیں کر سکتے۔ سوال یہ ہے کہ زرداری صاحب عمران خان کی مدد کیوں کریں گے۔انہوں نے یہ کہہ کر عمران خان کو اپنے پیچھے لگا لیا ہے کہ ہم مل کر نواز شریف کو چت کر دیں گے لیکن کیا وہ یہ ساری جدوجہد اس لئے کریں گے کہ اقتدار کا تاج پلیٹ میں رکھ کر عمران خان کو پیش کر دیں۔ کون نہیں جانتا کہ زرداری یہ کھیل اس لئے کھیل رہے ہیں تاکہ حکمران جماعت پر دبائو ڈال کر ڈاکٹرعاصم اور ایان علی جیسوں کو بچایا جا سکے ۔ اگلے الیکشن میں حکمران جماعت کو ہرانا تو ان کے لئے ممکن نہیں کیونکہ جس تیزی کے ساتھ سی پیک‘ بجلی اور دیگر ترقیاتی منصوبوں پر عمل ہو رہا ہے اور جس تیزی کے ساتھ خان صاحب سیاسی میدان میں اپنی مقبولیت کھو رہے ہیں اس سے تو یہی لگتا ہے کہ آئندہ پی ٹی آئی اور پیپلزپارٹی کا مقابلہ زیادہ سے زیادہ اپوزیشن لیڈر بننے کے لئے تو ہو گا‘وفاق میں حکومت بنانے کے لئے نہیں۔ عمران خان اپنے مداحین پر رحم کریں جو خان صاحب کے اس طرح کے یوٹرنز پر سر پکڑے بیٹھے ہیں۔ تحریک انصاف میں شاہ سے زیادہ شاہ کے ایسے وفادار موجود ہیں جو اللہ کے فضل سے خان صاحب کو ڈبونے کے لئے دن رات ایک کر رہے ہیں۔خان صاحب کو ان کا پتہ بھی ہے لیکن کیا کریں کہ خوشامد کروانے اور تعریفیں سننے کی عادت پڑ جائے تو انسان کی عقل کو دیمک کی طرح چاٹ جاتی ہے۔جہاں تک عقل اور دماغ کی بات ہے تو مخدوم جاوید ہاشمی اور عمران خان میں لفظی جنگ چھڑ چکی ہے۔ ہاشمی صاحب نے عمران خان کو دماغ اور ڈوپ ٹیسٹ کرانے کا کہاہے۔ جاوید ہاشمی کا کہنا ہے کہ عمران خان پہلے کہتے تھے دھرنا پلس، اب کہتے ہیں جھوٹ پلس، وہ سوالوں کے جواب کیوں نہیں دیتے ؟ سچے ہیں تو مناظرہ کر لیں۔ انہوں نے عمران خان کو شارٹ کٹ سے اقتدار میں آنے کے منصوبے یاد کرائے جن کا وہ ہاشمی صاحب سے ذکر کرتے تھے۔ دوسری طرف عمران خان کا کہنا ہے کہ دھرنے سے متعلق جاوید ہاشمی نے جھوٹ پلس بولا ، ان کا دماغی توازن درست نہیں رہا ۔ خان صاحب کو چاہیے کہ مناظرے کا چیلنج قبول کر لیں تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو سکے۔
جاوید ہاشمی جیسے بھی ہیں بطور پارٹی لیڈر خان صاحب کو اس طرح کے الزامات سے گریز کرنا چاہیے تھا۔ اس سے کہیں بہتر ہوتا کہ وہ اپنی پارٹی منظم کرتے‘ اپنے اہداف واضح کرتے اور اپنی سیاست کی سمت متعین کرتے۔ یہ تینوں کام کئے بغیر وہ آصف زرداری جیسے ''بے داغ‘‘ لیڈر کو اپنا کپتان مان کر اور ان کی انگلی پکڑ کر حکمرانوں سے مقابلے کے خواہشمند ہیں‘ اب یہ نئے کپتان کی صوابدیدہے کہ وہ خان صاحب کو ن لیگ کی وکٹیں اڑانے کا موقع دے یا نہ دے یا پھر بارہویں کھلاڑی کے طور پر پویلین میں بٹھائے رکھے!