بعض لوگوں کا خیال ہے ‘ عمران خان کو چاہیے وہ سیاست چھوڑے اور رفاہی کاموں کی طرف توجہ دے کیونکہ وہ اس میں کامیاب بھی رہا ہے اور سیاست میں چونکہ اسے نہ تو کوئی بڑی کامیابی ملی ہے اور نہ ہی وہ انتخابات میں بڑی سیاسی جماعتوں کو شکست دے سکا ہے لہٰذا مزید وقت ضائع کرنے سے بہتر ہے کہ وہ رفاہی اور خیراتی کاموں کی طرف توجہ دے۔ میں اس رائے سے متفق نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سیاست میں اس کا سامنا ملک کی ان سیاسی جماعتوں سے ہے جو عشروں سے ملک کو جونک کی طرح چمٹی ہوئی ہیں‘ جن کی بیوروکریسی سے لے کر بڑے بڑے اداروں تک رسائی ہے اور جنہوں نے اس ملک پر جبری قبضہ کر رکھا ہے۔ سٹیٹس کو کی جن قوتوں کے خلاف عمران خان جدوجہد کر رہا ہے‘انہیں شکست دینا مشکل تو ہے لیکن ناممکن نہیں۔ اس میں تاخیر تو ہو سکتی ہے لیکن یہ نہیں کہا جا سکتا کہ گلا سڑا نظام ہمیشہ یونہی چلتا رہے گا اور تبدیلی نہیں آئے گی۔ یہ درست ہے کہ تحریک انصاف میں کچھ خامیاں ہو سکتی ہیں‘ اس کے اندر بھی کرپٹ مافیا ہو سکتا ہے لیکن اس سے مخالف فریق اگر گنہگار ہے تو فرشتہ ثابت نہیں ہو جاتا۔ ہر ایک کو اپنے اپنے کئے کا خود جواب دینا ہے۔ حشر کا دن یونہی نہیں بنا۔ بہت سے حکمران ہماری آنکھوں کے سامنے جاہ وجلال سے حکومت کرتے نظر آئے ۔ آج وہ کہاں ہیں؟ صدام حسین‘ معمر قذافی‘ضیا الحق! کس کس کانام لوں۔ کسی کو دو گز قبر نصیب نہ ہوئی‘ کسی کی لاش کے ٹکڑے ہی مکمل نہ ہو سکے اور کسی کو کندھا دینے کے لئے چار لوگ بھی نظر نہ آئے۔ ان سب کے فلیٹس‘ محلات‘ بینک اکائونٹس آج کوئی اور استعمال کر رہا ہے اور وہ منوں مٹی تلے حشر کے دن کا انتظار کر رہے ہیں۔ تحریک انصاف میں بہت سی انتظامی خامیاں ہیں‘ اس کی ٹاپ لیڈر شپ میں فوری
تبدیلیاں درکار ہیں‘ نظم و نسق کی تو اس جماعت میں شدید کمی ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ایک جماعت کو حقیقی اپوزیشن کا کردار ادا کرنے سے روک کر اپوزیشن کو دوبارہ پیپلزپارٹی جیسی جماعت کے حوالے کر دیا جائے جو پہلے ہی حکمران جماعت کے ساتھ مل کر کھیل رہی ہے۔ عمران خان کی یہ بات سو فیصد درست ہے کہ جب کرپشن کے خلاف کوئی بولنے والا نہ ہو گا تو لوگ انہیں یاد کریں گے ۔ فی الوقت عوام کو دال روٹی کے چکر میں اس قدر الجھا دیا گیاہے کہ وہ اس بیان کی روح تک نہیں پہنچ سکے۔انسان اشرف المخلوقات اس لئے کہلاتا ہے کہ وہ جانوروں کے برعکس اپنے اچھے اور برے کی تمیز کرسکتا ہے۔عمران خان کی اصل کامیابی اقتدار حاصل کرنا نہیں بلکہ لوگوں میں شعور پیدا کرنا ہے۔ آپ خود دیکھیں آج سے پانچ چھ برس قبل تک لوگوں کو یہ معلوم ہی نہ تھا کہ حکمران اگر قومی پیسے کا ضیاع کر رہے ہیں‘ انہیں کرپشن میں کھپا رہے ہیں یا اپنی عیاشی یا کاہلی کی نظر کر رہے ہیں تو یہ وہ پیسہ ہے جو عوام کے ٹیکسوں سے حاصل ہوتا ہے۔ جب ایک غریب موٹرسائیکل سوار سو روپے کا پٹرول ڈلواتا ہے‘ یا سو روپے کا موبائل کارڈ لیتا ہے تو اس میں سے تیس چالیس روپے نکل کر قومی خزانے میں چلے جاتے ہیں اور یہی پیسے حکمران اپنے غیر ملکی دوروں میں استعمال کرتے ہیں‘ اسی سے اپنے خاندان اور عزیزوں کو پروٹوکول فراہم کرتے ہیں اور اسی پیسے کو ترقیاتی کاموں میں لگا کر اس سے کک بیکس لیتے ہیں اور یہ پیسہ غیرقانونی طور پر بیرون ملک منتقل کر کے بیش قیمت محلات اور فلیٹس خریدتے ہیں۔کیا آج سے پانچ
چھ سال قبل یہ بات اس شد و مد سے اٹھائی گئی کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں آج جو بچہ پیدا ہو رہا ہے وہ ایک لاکھ کا مقروض پیدا ہو رہاہے۔ ستم یہیں پر ختم نہیں ہوتا‘ اس بچے کو ڈبے کا یا کھلا دودھ ملتا ہے تو وہ بھی کیمیکلز اور زہر سے بھرا ہوتا ہے۔ دودھ میں ایسے کیمیکلز ملے ہوتے ہیں جنہیں فرش صاف کرنے اور زنگ دور کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ اسی طرح بلیچنگ اور بال صفا پائوڈر اور دودھ کا رنگ سفید کرنے کے لئے سرف کا استعمال بھی کیا جاتا ہے۔ صرف دودھ ہی نہیں یہ ریاست نومولود بچے کو پانی بھی دیتی ہے تو اس قدر غلیظ کہ وہ جوانی کی عمر تک پہنچے سے قبل ہی ہیپاٹائٹس جیسے موذی امراض میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ ایسی نسل نے کسی ملک کی ترقی میں کیا کردار ادا کرنا ہے جسے پیدائش کے دن سے ہی طرح طرح کی آزمائشوں میں ڈال دیا جائے‘ جسے اس کے حقوق سے محروم کر کے ایک درندہ صفت معاشرے میں پھینک دیا جائے۔ یہی بچہ سرکاری سکول جاتا ہے تو وہاں پر گدھے گھوڑے بندھے ہوتے ہیں‘ پرائیویٹ میں جاتا ہے تو اس کی فیسیں افورڈ نہیں کر پاتا۔جیسے تیسے کر کے اگر تعلیم مکمل کر بھی لیتا ہے تو روزگار کا مگرمچھ
اسے ڈرانے کے لئے منہ کھولے کھڑا ہوتا ہے۔ دراصل سٹیٹس کو کی قوتیں عمران خان سے خوفزدہ ہیں تو انہی وجوہات کی بنا پر کہ وہ عوام کو جگانے کی کوشش کیوں کر رہا ہے۔انہیں معلوم ہے عوام اگر خواب غفلت سے بیدار ہو گئے‘ انہوں نے اپنے حقوق مانگا شروع کر دئیے تو پھر ان کی دال کیسے گلے گی‘ یہ کرپشن کیسے کریں گے‘ کیسے اندرون و بیرون ملک بیش قیمت اثاثے خریدیں گے۔جہاں تک بات ہے خیراتی اور رفاہی کاموں کی تو شاید اس کا صلہ ہی عمران خان کو مل رہا ہے کہ وہ تیزی سے مقبولیت کی بلندیوں کو پہنچ رہا ہے۔شوکت خانم کینسر ہسپتال اب لاہور کے علاوہ پشاور اور کراچی میں بھی بن رہا ہے۔ سیاست کے ساتھ عوامی خدمت کا یہ سفر کامیابی سے جاری ہے۔عمران خان کو معلوم ہے اگر اس نے سیاست کا میدان کھلا چھوڑ دیا تو سٹیٹس کو کی یہ قوتیں ملک کے وسائل کو نوچ کر کھا جائیں گی۔ممکن ہے عمران خان سیاسی طور پر یہ جنگ ہار جائیں لیکن اخلاقی طور پر جیت انہی کی ہو گی۔ اس کے ساتھ مگر انہیں اپنی جماعت کے انتظامی معاملات کو بھی درست کرنا ہو گا۔ لوگ سیاسی میدان میں بھی انہیں اسی طرح کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں جس طرح انہوں نے رفاہی میدان میں جھنڈے گاڑے۔ آئندہ الیکشن میں ایک سال سے کچھ زیادہ کا عرصہ باقی ہے۔پاناما اور لندن فلیٹس کی حقیقت جو ہے اس سے عوام اچھی طرح واقف ہیں۔آئندہ الیکشن میں مسلم لیگ ن کو اس کا شدید نقصان ہو گا‘ اس لئے تحریک انصاف کو اس پر گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ اسے بس اپنا قبلہ ‘ اپنی سمت کو درست رکھنا ہے۔ اپنی پرواز میں کوتاہی اس کے لئے نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔عوام کی امیدوں اور توقعات کو اس قدر انتہا پر لے جا کر مایوس کرنا بھی عوام کے ساتھ زیادتی ہو گی۔ خیبرپختونخوا میں جو کچھ ایک سال میں ہو سکتا ہے وہ کر گزرنا چاہیے۔ تحریک انصاف میں سے گندے انڈوں کو فوری فارغ کر کے ایک ایسی ٹیم تشکیل دی جائے جو آئندہ انتخابات میں کامیابی کے لئے زمینی حقائق سے پوری طرح ہم آہنگ ہو۔ انسان کا کام کوشش کرنا ہے کامیابی یا ناکامی اللہ کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔
عمران خان نے کینسر ہسپتال بنا کر ہزاروں لاکھوں لوگوں کی دعائیں سمیٹی ہیں۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ یہ دعائیں رائے گاں چلی جائیں۔سورۃ السجدہ میں اللہ نے ایسے لوگوں کیلئے انعام کا وعدہ کیا ہے جواپنا مال راہِ خدا میں خرچ کرتے ہیں۔ اس ملک میں عمران خان جیسے لاکھوں دولتمند ہوں گے لیکن انہوںنے اپنی دولت پر ایسے سانپ بٹھارکھے ہیں جو سائل کو قریب بھی پھٹکنے نہیں دیتے۔ آج ہم میں سے کتنے لوگ ہیں جوفاقہ کشوںکے پیٹ کی آگ بجھاتے ہیں‘ جواپنی جائیداد غریبوں کے نام کر دیتے ہیں‘ جو سائل کو دھتکارتے نہیں اور جن کا دروازہ ضرورت مندوں کیلئے ہر وقت کھلا رہتا ہے۔ شاید ہم میں سے کوئی بھی ایسا نہیں۔ میں کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ اگر اللہ اس ملک کے ایک ہزار بڑے امیروں‘جاگیرداروں اورحکومت کے بڑے عہدیداروں کوصلہ رحمی اور رفاہ عامہ کی توفیق دے دے تو اس ملک کا حلیہ‘ اس کا نقشہ ہی بدل جائے۔ عمران خان یا کوئی اور اگر رفاہی کام کرتا ہے تو اس کا اجر اسے مل کر رہنا ہے‘ اور جہاں تک سیاست کی بات ہے اگر وہ اس میں غیرمعمولی کامیابی نہ بھی حاصل کر پائے لیکن ان کی جدوجہد سے لوگوں میں اچھے اور برے کی تمیز آگئی‘ وہ اپنے حقوق بارے جان گئے اور کرپٹ اور بدنام لوگوں کی جگہ ایماندار‘قابل اور سچ بولنے والوں کو پہچاننا سیکھ گئے تو یہ عمران خان کی بہت بڑی کامیابی ہو گی اور مخالفین عمران خان کے اسی طرز سیاست سے خوفزدہ ہیں!