نئے سٹی ٹریفک پولیس افسر کیپٹن مبین کو نئے سال کے آغاز میں ہی امتحان سے گزرنا پڑا۔ وہ اس میں کس قدر کامیاب ہوئے یہ آپ لاہوریوں سے پوچھ لیں۔ لاہور کے عوام امسال چار جنوری کا دن کبھی نہیں بھولیں گے۔ چند سال قبل سلمان تاثیر کو ان کے سکیورٹی گارڈ نے اسی روز قتل کیا تھا۔ اس سال سلمان تاثیر کے چاہنے والے ان کی یاد میں لبرٹی چوک میں شمعیں جلانا چاہتے تھے جبکہ سلمان تاثیر پر گولیاں برسانے والے ممتاز قادری کے لوگوں نے اعلان کر رکھا تھا کہ وہ کلمہ چوک سے لبرٹی چوک کی جانب مارچ کریں گے اور سلمان تاثیر کے فدائیوں کو شمعیں نہیں جلانے دیں گے۔ کلمہ چوک سے لبرٹی چوک کا فاصلہ دو کلومیٹر سے زیادہ نہیں۔ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ لاہور کی انتظامیہ اس ٹکرائو سے نمٹنے کے لئے کس قدر ''شاندار‘‘ انتظام کا ارادہ رکھتی ہے۔بدقسمتی سے لاکھوں شہریوں کی طرح لاہور پولیس کے ایکشن پلان کا نشانہ بننے والوں میں ‘ راقم بھی شامل تھا۔ دوپہر بارہ بجے کے بعد مین بلیوارڈ گلبرگ کی طرف جانے کو نکلا تو نہر سے آگے غیر معمولی طور پر ٹریفک پھنسی دکھائی دی۔ گاڑیاں کچھوے کی رفتار سے چند میٹر آگے سرکتیں اور اور پھر دس پندرہ منٹ کیلئے رُک جاتیں۔ میں نے ٹریفک ہیلپ لائن کو فون ملا کر صورت حال جاننا چاہی تو بتایاگیا کہ کلمہ چوک سے کوئی جلوس آ رہا ہے جس کی وجہ سے ٹریفک کا رخ موڑا گیا ہے۔ میں نے کہا ٹریفک کا رخ موڑا گیا ہوتا تو یہ کچھ نہ کچھ تو رینگتی رہتی۔ لاہور میں رہتے ہوئے ہر شخص پروٹوکول کی آڑ میں ٹریفک جام کے عذاب سے کئی مرتبہ گزر چکا ہے۔ میں نے فون آفیسر سے کہا فوارہ چوک گلبرگ سے لبرٹی چوک پانچ چھ کلومیٹر کے فاصلے پر ہے لیکن اس جانب کسی سڑک پر جانے کی اجازت کیوں نہیں دی جا رہی؟ بڑے بڑے کنٹینر رکھ کر لبرٹی کی طرف جانے اور آنے کے ہر قسم کے راستے کیوں بند کر دئیے
گئے ہیں؟ دو اڑھائی سو لوگوں کے لئے سوا کروڑ آبادی کو قید کرنا کہاں کی حکمرانی ہے؟ حیرانی کی بات یہ ہے کہ جو سکول کالج ان راستوں میں موجود تھے وہ بھی محصور ہو گئے تھے اور انہیں نہ تو گاڑیاں لینے کے لئے جا سکتی تھیں اور نہ ہی وہاں موجود گاڑیاں جو بچوں کو لے چکی تھیں وہ کنٹینروں کے اس چنگل سے باہر نکل سکتی تھیں۔ متعدد گاڑیوں کاپٹرول ختم ہو گیا‘ جس کے ساتھ لوگوں کا حوصلہ بھی ماند پڑ گیا اور غصے اور برداشت کی حد ختم ہو گئی۔ جو لوگ شاپنگ وغیرہ کے لئے آئے تھے یابدقسمتی سے اس راستے کا انتخاب کر بیٹھے تھے وہ بھی پچھتا رہے تھے۔ اس پر ستم یہ کہ کوئی انہیں بریف کرنے والا بھی نہ تھا۔ لوگ اپنی مدد آپ کے تحت ایک دوسرے کو فون کرتے رہے اور ان علاقوں میں نہ آنے کا مشورہ دیتے رہے۔ نہ تو لاہور پولیس نے اور نہ ہی ٹریفک انتظامیہ نے عوام کو سوشل میڈیا‘ اخبارات‘ ایس ایم ایس‘ ویب سائیٹس یا ٹی وی کے ذریعے خبردار کرنے کی زحمت گوارا کی۔ گلبرگ آنے اور جانے کے لئے تو راستے بند ہی تھے فیروز پور روڈ جیسی مرکزی شاہراہ بھی قصور تک جام ہو چکی تھی۔ کچھ لوگوں نے قصور سے شہر میں داخلہ نہ ملنے کے باعث چونگی امرسدھو سے پہلے رنگ روڈ پر چڑھنے کی کوشش کی تو وہاں بھی آگے کنٹینر لگے پائے۔ ایسا لگتا تھا کہ ملک میں کوئی ایمرجنسی نافذ ہو چکی ہے یا خدانخواستہ کوئی حملہ ہونے والا ہے۔ بزرگ اور بیماری شہریوں کی طبیعت گھنٹوں گاڑی میں پھنسے رہنے سے خراب ہو گئی اور وہ حکومت اور پولیس کو جی بھر کے سناتے رہے ۔ اس سے قبل میں نے اس قدر بدانتظامی سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے دور میں دیکھی تھی۔ تب بھی فیروز پور روڈ ہی جام تھی اور مسلسل پھنسے رہنے کے بعد
میں نے اپنے بیوروچیف سے وجہ پوچھی تو انہوں نے بتایا کہ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے شیخ زاید ہسپتال زخمیوں کی عیادت کیلئے جانا ہے اور ان کی شاہی سواری کچھ ہی دیر میں کلمہ چوک سے گزرنے والی ہے۔ میں بے بسی کے عالم میں ادھر اُدھر دیکھ ہی رہا تھا کہ ایک ایمبولینس کی آواز آئی۔ میں نے بیک مرر میں دیکھا۔ ایک ایمبولینس مسلسل شور مچا رہی تھی لیکن یہ شور وزیراعظم تک پہنچ رہا تھا اور نہ ہی ٹریفک وارڈنز تک۔ میں گاڑی سے باہر نکل آیا اور ایمبولینس کے قریب آ کر اندر جھانکا۔ سٹریچر پردس گیارہ سال کا بچہ لیٹا ہوا تھا۔ اس کے سر پر پٹی بندھی ہوئی تھی لیکن خون پٹی کے ایک طرف سے مسلسل رِس رہا تھا‘ بچے کی آنکھیں بند تھیں اور منہ پر آکسیجن ماسک بھی موجود تھا ۔بچے کا باپ ڈرائیور کو گاڑی چلانے کیلئے مسلسل آوازیں دے رہا تھا۔ ڈرائیور گھبرا کر کبھی پیچھے دیکھتا تو کبھی سامنے۔ جب کچھ بھی نہ کر پاتا تو ہاتھ بٹن پر رکھ دیتا اور سائرن کی آوازیں آسمان سر پر اٹھا لیتیں۔ میں نے دوبارہ بیوروچیف کو فون ملاکر بتایا کہ ایک ایمبولینس ٹریفک میں پھنسی ہوئی ہے اگر فوری طور پر ''ٹیکر‘‘ چلے تو شاید اسے نکالنا ممکن ہو جائے۔ بچے کے باپ کو جب علم ہوا کہ یہ ٹریفک وزیراعظم کی شاہی سواری کی وجہ سے جام ہے تو اس نے غصے میں اپنی قمیض پھاڑی لی‘ ایمبولینس سے سر ٹکرانے لگا اور ایسی ایسی صلواتیں سنائیں کہ اگر وزیراعظم سن لیتے تو فوراً ہیلی کاپٹر میں بیٹھتے اور وزیراعظم ہائوس پہنچ کر ہی دوسرا سانس لیتے۔ اسی دوران ایمبولینس سے ایک عورت کی چیخ سنائی دی۔ بچے کی طبیعت زیادہ بگڑ چکی تھی اور اس کی ماں اسے سینے سے لگا کر دھاڑیں مار مار کر رو رہی تھی۔ باپ نے بچے کی حالت دیکھی تو اسے کاندھے پر اُٹھایا اور ہسپتال کی طرف دوڑنے لگا۔وزیراعظم کا ہسپتال کا یہ دورہ لاکھوں لوگوں کے لئے اذیت کا باعث بنا۔ وزیراعظم کو تو ان کے مشیروں نے یہ بتایا ہو گا کہ آپ ہسپتال جائیں گے تو آپ کی بڑی واہ واہ ہو گی اور مریض آپ کو دیکھتے ہی پل بھر میںصحت یاب ہو جائیں گے۔ ہر دور میں ہر حکمرانوں کو ان کے وزیرمشیر یہی کہتے ہیں کہ آپ عوام میں جائیں‘ انہیں ہاتھ ہلائیں عوام آپ کا چہرہ دیکھنے کو بے تاب ہیں۔ اس سے مجھے اٹلی کے سابق وزیراعظم سلواو برسکونی یاد آ گئے جنہوں نے ایک مرتبہ میلان میں ایک سیاسی ریلی کی قیادت کی۔ جب انہوں نے ریلی میں موجود عوام کا سمندر دیکھا تو حیران رہ گئے۔ اُن کا ایک مشیر موقع کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے بولا‘ ''جناب! ہم نہ کہتے تھے‘ آپ عوام میں کتنے مقبول ہیں‘‘ ۔ جب ریلی اختتام پذیر ہوئی تو لوگ وزیراعظم کے قریب آکر ہاتھ ملانے اور آٹو گراف لینے کی کوشش کرنے لگے ۔ انہی لوگوں میں ایک چالیس سالہ اطالوی باشندہ موسیمو بھی تھا۔ کافی دھکم پیل کے بعد وہ وزیراعظم کے قریب پہنچ گیا اور اپنی آٹو گراف بک اُن کے سامنے کر دی ۔ وزیراعظم سائن کرنے ہی لگے تھے کہ موسیمو نے اُن کے چہرے پر ایک زور دار مکہ جڑ دیا۔ مکہ اتنا شدید تھا کہ وزیراعظم کا جبڑا اپنی جگہ سے ہل گیا‘ ان کے ہونٹ پھٹ گئے اور منہ سے خون رسنے لگا۔ پولیس نے حملہ آور کو گرفتار کر لیا جبکہ وزیراعظم ہسپتال پہنچ گئے۔ اطالوی میڈیا کے مطابق موسیمو کو اس بات کا رنج تھا کہ اس کے ملک کا وزیراعظم کرپشن اور بدعنوانیوں کے باوجود بدستور اقتدار پر کیوں موجود ہے اور سڑکوں پر آ کر عوام سے کس بات کی داد وصول کرنا چاہتا ہے۔
آج صرف حکمران ہی نہیں‘ ان کے چاچے مامے‘ تائے پھوپھیاں سبھی دو دو تین تین ہوٹر والی گاڑیاں آگے پیچھے رکھ کر چلتے ہیں اور ان محافظ گاڑیوں میں موجود نقاب پوش بندوق بردارہاتھ کے اشاروں سے لوگوں کو اپنی گاڑیاں ان کے قریب لانے یا اوورٹیک کرنے سے روکتے ہیں۔یہ زمین پر اس طرح چلتے ہیں جیسے زمین کو پھاڑ ڈالیں گے یا پھر یہ کہ اگر وہ جلد از جلد اپنی منزل پر نہ پہنچے تو زندگی کا سارا نظام جامد ہو جائے گا۔ کسی ٹریفک وارڈن کی ہمت نہیں پڑتی کہ انہیں پوچھ سکے۔ لاہور کے ٹریفک چیف بھی لاہوریوں کو قید کرنے کا پلان تو بنا سکتے ہیں لیکن شایدایسے وی آئی پیز کو قانون کے دائرے میں لانے کا استحقاق نہیں رکھتے۔ انہیں آئندہ لاہوریوں کی برداشت کا امتحان لینے کی بجائے توجہ ٹریفک کی روانی پر مرکوز رکھنی چاہیے۔ میری حکمرانوں ‘ وزیروں اور ایلیٹ کلاس سے بھی گزارش ہے کہ اگر ان کا عوام کے درمیان اپنی مقبولیت جانچنے کا ارادہ بنے تو وہ کسی پھنسی ہوئی ٹریفک کے قریب صرف دو منٹ کیلئے گاڑی روکیں اورلوگوں کے درمیان جا کر اپنی مقبولیت کے بڑھتے ہوئے گراف کی تصدیق کر لیں۔انہیں ان لوگوں میں اطالوی باشندے موسیمو جیسے کئی مداح مل جائیں گے جو اُن کا آٹو گراف تو لیں گے ہی ‘ ساتھ میں اُنہیں ان کی مقبولیت کا گراف بھی سمجھا دیں گے۔