گزشتہ دنوں انجینئراقبال چیمہ سے ملاقات ہوئی جن کی ابتدائی زندگی تو فوج میں گزری لیکن بعد ازاں انہوں نے فوج سے کیپٹن کے عہدے سے ریٹائرمنٹ لے لی اور برطانیہ چلے گئے۔ یونیورسٹی آف ویلز سے میکینکل انجینئرنگ کی ڈگری مکمل کی۔ پھریونیورسٹی آف سروے سے انرجی انجینئرنگ میں ماسٹرز کیا۔ منسٹری آف اوورسیز ڈویلپمنٹ میں بھی رہے۔ چیف انجینئر کے طور پر بھی اپنی خدمات سے نوازا۔ عمر بیاسی برس مگر ساٹھ باسٹھ سے زیادہ نہیں لگتے۔ کوٹ ٹائی میں ملبوس اور چاق و چوبند نظر آتے ہیں۔ ہاتھ میں البتہ چھڑی ضرور رکھتے ہیں تاکہ توازن بگڑنے نہ پائے۔ برطانیہ سمیت دیگر ممالک میں پانی اور بجلی کے منصوبوں پر کام کیا۔ بھارت کس طرح پاکستان کا پانی روک رہا ہے اور اسے صحرا میں تبدیل کرنے کا پلان بنائے بیٹھا ہے‘ اس راز سے انہوں نے اپنی نئی کتاب The Pakistan Energy Resources & Policies with particular reference to current Energy Crisis.میں پردہ اٹھایاہے۔ اس میں انہوں نے بڑی تفصیل سے ملک کو پانی کی دستیابی‘ ضرورت اور کمی کا جائز ہ لیا ہے۔ کالاباغ‘ بھاشا اور اکوڑی ڈیم کا صراحت سے ذکر کیا ہے۔پاکستان اس وقت انرجی کے جس بحران کا شکار ہے ‘اس کے پاس کون کون سے وسائل ہیں‘ ان سے کیسے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے ‘ اس پر سیر حاصل بحث کی ہے۔ اقبال چیمہ میاں شریف مرحوم اور شریف برادران کے ساتھ بھی کام کرتے رہے۔ جنرل (ر) حمید گل کے وہ بڑے مداح ہیں اور کئی رفاہی کاموں میں ان کے معاون رہے۔بیرون ممالک تنہا سفر کرتے ہیں‘ کئی کئی ہفتے قیام کرتے ہیں اور بڑھاپے کی بیماریوں سے بھی بچے ہوئے ہیں۔ ان کی صحت کا راز یقینا فوجی ٹریننگ میں پنہاں ہے جس میں ہر جوان سب سے پہلے زندگی کو منظم کرنا سیکھتا ہے۔ مستقل رہائش لندن میں ہے لیکن دل پاکستان میں ۔
کالا باغ ڈیم کی افادیت پر ان کا استدلال ہے کہ اس سے سندھ اور خیبرپختونخوا کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا بلکہ اس کا فائدہ پورے ملک کو ہو گا۔ جب پوچھا کہ آج آپ کالا باغ ڈیم جیسے منصوبوں کو پاکستان کے لئے سونے کی کان قرار دے رہے ہیں توکیا وجہ ہے کہ ہر تجربہ کار شخص زندگی گزار کر ریٹائرمنٹ کے بعد ہی ایسے خواب دیکھتا ہے اور ایسی کتابیں لکھتا ہے ۔ اس سے مگر وہ متفق نہ تھے۔ ان کے خیال میں اسی کی دہائی کے اختتام پر جب کالاباغ ڈیم کی فیزیبیلٹی بنی‘ تب سے اب تک انجینئرز نے ہمیشہ اس منصوبے کی حقائق کی بنیادپرطرف داری کی ہے لیکن کیا کریں کہ ہمارے کچھ اپنے ہی بیرونی قوتوں کی شہ پر رکاوٹ بن جاتے ہیں۔ وہ اس بات سے متفق نہیں تھے کہ سابق چیئرمین واپڈا ظفر محمود کو اس وجہ سے عہدے سے ہٹایا گیا کہ انہوں نے کالا باغ ڈیم کے حق میں اخبارات میں کالم لکھے تھے۔ ان کے خیال میں وجہ اور تھی۔ ایک گراف کے ذریعے انہوں نے بتایا کہ چھ برس قبل پاکستان کی آبادی کو آئیڈیل اور مطلوبہ پانی میسر تھا لیکن جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے‘ پانی کی شدید کمی ہو رہی ہے۔ آبادی تو بڑھ ہی رہی ہے لیکن کوئی بھی حکمران دور اندیشی اختیار نہیں کر رہا اور آئندہ عشروں میں پانی کے بحرانوں سے نمٹنے کے لئے تیار نہیں۔انہوں نے کہا کہ بھارت نے 1948ء میں پاکستان کوپانی اپنی شرائط پر دینے کا معاہدہ کر لیا اور پاکستان کو پانی خریدنے کی پیش کش کی۔ پاکستان کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ بھی نہ تھا۔لیکن بھارت کی مکاریاں دیکھیں کہ ہر سال وہ عجیب چال یہ چلتا ہے کہ جب پاکستان کو پانی کی ضرورت ہوتی ہے‘ وہ پانی روک لیتاہے اور جب اس کے پاس پانی ضرورت سے زائد ہو جاتا ہے‘ اسے وہ پاکستان کی طرف چھوڑ دیتا ہے۔نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ پانی کی کمی سے تو جو نقصان ہوتا ہے سو ہوتا ہے‘ لیکن اضافی پانی سے یہاں سیلاب آ جاتا ہے۔ کھڑی فصلیں تباہ ہو جاتی ہیں‘ مال مویشیوں کو نقصان الگ پہنچتا ہے۔ عشروں سے یہ سلسلہ جاری ہے ‘مگر اس پر سنجیدگی سے کوئی بھی سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کرتا۔ جب ان سے پوچھا کہ حکومت کے اس دعوے میں کتنی صداقت ہے کہ اگلے برس سسٹم میں پوری بجلی آ جائے گی اور لوڈشیڈنگ کا خاتمہ ہو جائے گا تو انہوں نے کہا کہ تمام منصوبے اپنی پوری رفتار سے تکمیل کی جانب رواں دواں ہیں۔مثال کے طور رپر تیرہ سو بیس میگاواٹ کا ساہیوال کول پاور پلانٹ اسی برس مئی میں مکمل ہو جائے گا‘ ایل این جی‘ سولر اور دیگر منصوبے بھی اگلے برس جون سے قبل ہی مکمل ہو جائیں گے لہٰذا یہاں تک تو حکمرانوں کی بات میں سو فیصد صداقت ہے کہ وہ بجلی کی کمی کو پورا کرنے میں
کامیاب ہو جائیں گے لیکن ایک خدشے کا اظہار بہر حال انہوں نے کیا کہ بجلی تو سسٹم میںآ جائے گی لیکن بجلی کی ترسیل کا موجودہ نظام اس کا بوجھ برداشت نہیں کر پائے گا۔ یہ اتنا آسان اور جلد مکمل ہونے والا کام نہیں ہے لیکن اگر ساتھ ہی ساتھ موجودہ سسٹم کو اضافی بجلی کا بوجھ اٹھانے کے قابل بنانے کا آغاز کر دیا گیاتب بھی یہ موجودہ حکومت کی بڑی کامیابی ہو گی۔ عمران خان کے بارے میں وہ زیادہ پر امیددکھائی نہ دئیے۔ان کے خیال میں عمران اپنا وقت ضائع کر رہا ہے اورایک ایشو کے پیچھے اپنی تمام تر توانائیاں لگا کر زیادہ سے زیادہ سیاسی پوائنٹ سکورنگ کرنا چاہتا ہے جبکہ لوگ اس قسم کی سیاست سے بیزار ہو چکے ہیں۔ اگر اس کے پاس کرنے کو کچھ نیا ہے تو وہ اپنے صوبے خیبرپختونخوا میں سامنے لائے‘ لوگ خود ہی اس کے پیچھے آ جائیں گے۔
اقبال چیمہ جیسے لوگ پاکستان کے لئے دردِ دل رکھتے ہیں لیکن جب تک حکمران اور سیاستدان اپنی نیت تبدیل نہیں کریں گے‘ تبدیلی نہیں آئے گی۔ عمران خان بھی ویسے تو بہت پاپولر سیاست کرتے ہیں لیکن بات جب کالا باغ ڈیم کی آئے تو وہ بھی خیبرپختونخوا میں ایک موقف اپناتے ہیں اور سندھ میں جا کر دوسرا۔جنرل مشرف نے بھی کالاباغ ڈیم بنانے کے لئے دس برس قبل بڑے دلیرانہ بیانات دئیے تھے لیکن کیا ہوا؟ وہ طاقت ‘ عہدہ اور اختیار رکھنے کے باوجود بھی کچھ نہ کر سکے۔سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے جس طرح لوڈشیڈنگ ختم ہونے کی تاریخ پر تاریخ دی‘ اس نے سیاستدانوں کی رہی سہی ساکھ کا خاتمہ کر دیا۔ انجینئر اقبال چیمہ کی باتوں کو جھٹلانا اس لئے ممکن نہیں کہ انہوں نے پچاس برس سے زائد اس شعبے میں گزارے ہیں اور وہ ہر بات اعداد و شمار اور زمینی حقائق کی روشنی میں کرتے ہیں۔ان کے مطابق حکومت تندہی سے اپنے دعوے کی تکمیل میں لگی ہوئی ہے اور اگلے برس ملک سے لوڈشیڈنگ کا خاتمہ کر لے گی اور اگر واقعتاً اس نے سسٹم کو اضافی بجلی برداشت کرنے کے قابل بھی بنا دیا تو سی پیک اور دیگر منصوبوں کو تو ایک طرف رکھیں‘ صرف لوڈشیڈنگ کا خاتمہ ہی حکومت کو آئندہ الیکشن جتواسکتا ہے۔تحریک انصاف والوںکے پاس اس کے مقابلے میں کیا ہے‘ اس پر انہیں ابھی سے غوروفکر کر لینا چاہیے۔