کیا اس خبر سے ہمیں کوئی فرق پڑے گا کہ بھارت نے موبائل ایپس ڈائون لوڈ نگ کے میدان میں امریکہ کو بھی چت کر دیا ہے۔ بھارت میں موبائل فون کی ایپس ڈائون لوڈنگ میں گزشتہ سال کی نسبت ستر فیصد اضافہ ہوا ہے۔یہ ساڑھے تین ارب سے چھ ارب سالانہ تک پہنچ گئی ہیں۔ اِدھرہماری کوئی واضح خارجہ پالیسی ہے نہ داخلہ‘ کسی کو پاکستان میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کے حال یا مستقبل سے کیوں کوئی سروکار ہو گا۔ جب ہم بھارت کی مثال دیتے ہیں تو لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ بھارت کی آبادی کہیں زیادہ ہے۔ موازنا ہمیشہ پالیسی کی نوعیت اور سمت کے تعین کے اعتبار سے کیا جاتا ہے۔ بعض اوقات بڑی آبادی یا رقبے والا ملک وہ کام نہیں کر سکتا جو ایک چھوٹا سا محدود ملک کر لیتا ہے۔ آپ دبئی کی مثال لے لیں۔ آج سے پندرہ بیس برس قبل دبئی کیا تھا ۔ آج ہر عالمی ادارے کی خواہش ہے اس کا مرکزی دفتر دبئی میں کھلے۔ آئی پی ایل جسے پاکستان میں منعقد ہونا چاہیے تھا وہ دبئی میں ہو رہا ہے۔وہاں کھلاڑی اور کھلاڑیوں پر پیسہ لگانے والے خود کو محفوظ سمجھتے ہیں۔یہ دنیا کا مرکز نگاہ ہے۔ ماضی میں ہم نے دہشت گرد پالے جنہوں نے ملک کو برباد اور تنہا کر دیا۔ سری لنکن ٹیم پر فائرنگ کے بعد بین الاقوامی کرکٹ نے پاکستان سے منہ موڑ لیا۔ سرمایہ کار بھارت‘ بنگلہ دیش‘چین ‘ سنگاپور اور دبئی چلے گئے۔ یہ تو بھلا ہو جنرل راحیل شریف کاورنہ ہم تو ڈوب چلے تھے۔بات انفارمیشن ٹیکنالوجی سے شروع ہوئی تھی۔ اس کی وفاقی وزیرانوشہ رحمان مسلسل پاناما پر حکمرانوں کا دفاع کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ اسی جوش و جذبے کو وہ ملک میں آئی ٹی کی ایکسپورٹ کو بڑھانے اور ان ہزاروں لاکھوں گریجوایٹس کو اس میدان میں قابل استعمال بنانے کیلئے لگا لیں تو ہمارا بھی کچھ بھلا ہو جائے۔
پاکستان میں انٹرنیٹ کا نوے فیصد استعمال غیر ترقیاتی ہے ۔ لوگ دو تین ہزار ماہانہ کا انٹرنیٹ کنکشن تو لے لیتے ہیں لیکن اس سے خاطرخواہ فائدہ نہیں اٹھا پاتے۔ فیس بک پر گھنٹوں ضائع کرتے ہیں‘ واٹس ایپ اور یوٹیوب پر تصاویر اور ویڈیوز دیکھتے رہتے ہیں اور محض وقت گزاری کرتے ہیں۔ جو نوجوان آئی ٹی کی تھوڑی بہت تعلیم حاصل کرتے ہیں انہیں گائیڈ کرنے والے ایسے ادارے ہی موجود نہیں جن سے وہ انٹرنیٹ پر کمائی کے طور طریقے جان سکیں۔جدید ممالک میں مگر ایسا نہیں ہوتا۔ جس کے پاس دو گھنٹے بھی فالتو ہوتے ہیں وہ انہیں استعمال کر کے اضافی جیب خرچ بنا لیتا ہے۔ انٹرنیٹ سے پیسے کمانے کا سب سے معروف طریقہ بلاگنگ یعنی مضمون لکھنا ہے۔ہزاروں ایسی فری ویب سائٹس ہیں جہاں بلاگ شروع کیا جا سکتا ہے۔ بلاگ کسی بھی موضوع پر ہو سکتا ہے۔ مثلاً دو مختلف کمپنیاں اگر ملتے جلتے موبائل فونز لانچ کرتی ہیں تو آپ ان کی مثبت اور منفی خصوصیات پر لکھ سکتے ہیں۔ آپ کچن گارڈننگ پر لکھ سکتے ہیں کہ کیسے محدود جگہ پر سبزیاں وغیرہ اگائی جا سکتی ہیں‘آپ ٹرمپ کی جارحانہ پالیسی پر لکھ سکتے ہیں جس پر آج کل بہت زیادہ ڈسکس کیا جا رہا ہے۔الغرض ایسے ہزاروں موضوعات ہیں جن پر لوگ پڑھنا اور جاننا چاہتے ہیں۔ فرض کریں آپ کے بلاگ پر روزانہ ایک سو لوگ آتے ہیں اور آپ اس پر گوگل ‘ یاہو یا ورڈ پریس سے اشتہار لگا لیتے ہیںتو جیسے جیسے آپ کے قارئین بڑھیں گے‘ وہ اشتہار پر کلک کریں گے اور آپ کے اکائونٹ میں رقم بڑھتی جائے گی۔ایک اوسط بلاگر جس کے بلاگ پر روزانہ ایک ہزار لوگ آئیں وہ ایک ڈالر سے تیس ڈالر روزانہ کما لیتا ہے۔ امریکہ‘ کینیڈا اور برطانوی بلاگرز ماہانہ لاکھوں ڈالر کما رہے ہیں ۔ جیسے جیسے آپ کی تحریر پختہ ہو گی‘تجربہ بڑھے گا‘ آپ کی تحریر سرچ انجنوں میں نظر آنے لگے گی اور آمدنی بڑھ جائے گی۔ گوگل ایڈ سینس پروگرام کے ذریعے بہت سے بلاگرزیومیہ دس ہزار سے پچاس ہزار روپے بھی کما رہے ہیں۔یہ سرچ انجن آپٹمائزیشن میں مہارت حاصل کرتے ہیں تاکہ جو لوگ گوگل میں کوئی چیز تلاش کریں تو وہ جو الفاظ لکھیں اس سے سرچ انجن کا پہلا پیج کھلنے پر ان کی ویب سائٹس یا بلاگ کے لنک پہلے چھ نمبروں میں آ جائیں۔ عام طور پر لوگ گوگل کی تلاش والے پہلے صفحے پر ہی موجود لنکس کو ترجیح دیتے ہیں اور شاذ و نادر ہی دوسرے یا تیسرے
صفحے پر جاتے ہیں۔اسی طرح ویب سائٹ ‘بلاگزیا فیس بک صفحات کی تھیم ڈیزائن کرنے سے بھی آمدنی ہوتی ہے۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ آپ کیلئے جاب مارکیٹ اب صرف آپ کا گائوں‘شہر یا ملک نہیں بلکہ پوری دنیا ہے۔ آپ لاہور میں بیٹھ کر آسٹریلیا کی کسی پیزا کمپنی کی ویب سائٹ تھیم یا ڈیزائن بناسکتے ہیں اور اپنی مرضی سے کام کا وقت منتخب کر سکتے ہیں۔ایک تھیم دس ڈالر سے سو ڈالر میں فروخت ہوتی ہے۔اسی طرح موبائل فون کے وال پیپر اور تھیم ڈیزائن کرنے سے آپ موبائل مارکیٹ کا شیئر بھی حاصل کرسکتے ہیں۔تدریس کے شعبہ سے جن کا تعلق ہے وہ آن لائن ٹیچنگ کے ذریعے کمائی کر سکتے ہیں۔سکلز شیئرویب سائٹ اس سلسلے میں آپ کو مکمل معلومات دے سکتی ہے۔اگر آپ اچھے مضمون نگار ہیں تو آپ ای بکس لکھ سکتے ہیں جنہیں لوگ پی ڈی ایف میں ڈائون لوڈ کر کے کمپیوٹر‘ ٹیبلٹ یا موبائل فون میں پڑھ سکتے ہیں۔ایمیزون آن لائن اور ای بکس کا سب سے بڑا سٹور ہے۔ روزانہ پوری دنیا سے لوگ کروڑوں ڈالر کی بکس ڈائون لوڈ کرتے ہیں۔یہ تو پڑھے لکھے خواندہ لوگوں کے کام تھے۔ کم پڑھے لوگ بھی آئی ٹی کے ذریعے روزگار چلا سکتے ہیں۔ مثلاً وہ او ایل ایکس پر سامان کی خریدو فروخت کر سکتے ہیں۔ عام کاروبار میں انہیں ریڑھی لگانے کے لئے بھی دس بیس ہزار روپے چاہیے ہوتے ہیں لیکن اس کے لئے محض ایک آٹھ دس ہزار والا فون ہی کافی ہے۔ وہ چلتے پھرتے پیسے کما سکتے ہیں۔ کاروبار کا زیادہ تعلق پیسے کی بجائے دماغ ‘ خیال اور تکنیک سے ہوتا ہے۔کے ایف سی کے بانی نے یکدم پوری دنیا میں برانچیں نہیں کھول لیں‘ اس نے بھی سب سے پہلے ایک ذائقہ متعارف کرایا اور سینکڑوں دکانوں اور ہزاروں لوگوں کو چکھایا جس کے بعد ہی یہ کلک ہو سکا۔
یوٹیوب سے جتنے پیسے کمائے جا سکتے ہیں ہمیں اندازہ ہی نہیں۔ خدا خدا کر کے ہمارے ہاں یوٹیوب تو کھل گئی لیکن ہماری قوم کا مزاج نہ بدل سکا۔ کچھ لوگ زیادہ سے زیادہ یوزرز کو لانے کے لئے غیر شائستہ ویڈیوز بنا کر پیسے کما رہے ہیں۔ چترال سے آنے والے طیارے کے تباہ ہونے کے اگلے روز ہی ایک ویڈیو آ گئی جس کی پہلی تصویر میں لکھا تھا جنید جمشید کے جہاز کے اندر کی گفتگو منظر عام پر آگئی۔ یہ ویڈیو اور آڈیو کسی غیر ملکی جہاز کی تھی جسے یہاں استعمال کیا گیا۔ بندہ پوچھے کہ بلیک باکس تو کئی مہینوں بعد جا کر کاک پٹ کی گفتگو منظر عام پر لاتا ہے تو ان کے پاس کون سا جن تھا جس نے انہیں تباہ شدہ جہاز کے ملبے سے یہ ویڈیو لا کر دے دی۔ حکمرانوں کی طرح ہم پاکستانی بھی جھوٹ بولنے اور جھوٹ بیچنے میں ماہر ہیں۔یوٹیوب پر ہر اہم خبر یا سیاسی‘ مذہبی یا فلمی شخصیت کے بارے میں جھٹ سے ویڈیوز اور خبریں آ جاتی ہیں اور یہ کام بہت سی معروف پاکستانی ویب سائٹ کر رہی ہیں۔خبر کے اندر اس مواد کا ذکر تک نہیں ہوتا جیسی اس کی سرخی بنائی جاتی ہے۔ جدید ممالک کے لوگ مثبت اور تعمیری سرگرمیوں پر کام کرتے ہیں ‘ پیسے بھی کماتے ہیں اور عزت بھی۔ ہم پیسہ تو چاہتے ہیں ‘عزت سے ہمیں کوئی سروکار نہیں۔ دبئی پی ایس ایل میں ہمارے دو کھلاڑی جواریوں کے ہاتھ چڑھے تو انہیں بھی ملک کی عزت کا خیال نہ آیا اور نہ ہی انہیں آئے گا جو کہتے ہیں کھلاڑی سزاسے نہیں بچیں گے۔ وہ بھی گونگلوئوں سے مٹی جھاڑنے میں لگے ہیں۔ پوری قوم کا جب یہی وتیرہ ہے تو پھر گلہ کس سے؟ یہاں تو سب ایک ہی تھالی کے چٹے بٹے ہیں!