دو خبریں ہیں ‘دونوں ہی حیرت انگیز۔
پہلی خبر پاکستان کے بارے میں ہے۔
پاکستانی عوام کو مبارک ہو۔ ہمارے طلبا نے بو علی سینا‘ ابن الہیثم‘ البیرونی اورجابر بن حیان کی یاد تازہ کر دی ہے۔اب ہماری یونیورسٹیاں اور ہمارے طالب علم اسی طرح آب و تاب سے چمکیں گے جیسے ہزار برس تک مسلمان سائنسدان تاریخ کے آسمان پر دمکتے رہے۔
ہمارے طلبا نے ایسی تہلکہ خیز ایجاد کر ڈالی ہے جس سے امریکہ اور برطانیہ جیسے جدید ممالک کے ہوش تک اُڑ گئے ہیں۔ آپ حیران ہوں گے کہ یہ ایجاد لاہور کے وسط میں نہر کنارے واقعہ اس سو سال پرانی ''سرکاری یونیورسٹی‘‘ کے ''عظیم طلبا‘‘ نے کی ہے جہاں سے آئے روز دنگا فساد کی خبریں آیا کرتی تھیں۔
صد شکر‘ ہم نے علم و تحقیق کے میدان میں تیر مار ہی لیا۔ ہمارے کہنہ مشق طالب علموں نے ٹیکنالوجی کے میدان میں وہ کام کر ڈالا‘ جو اربوں کھربوں کا بجٹ رکھنے والی غیر ملکی یونیورسٹیاں اور تحقیقی ادارے بھی نہ کر سکے۔ مجھے یقین ہے ہماری یہ کامیابی نہ صرف پاکستانیوں بلکہ تمام مسلم دنیا کے خلاف نفرتوں اور حقارتوں کو محبتوں میں بدل ڈالے گی۔
جی ہاں!ہمارے ان ذہین طالب علموں نے انٹرنیٹ کے نظام وائی فائی کا تیز ترین متبادل دریافت کر لیا ہے۔وائی فائی کے ذریعے ہم اپنے کمپیوٹرز اور موبائل فون میں انٹرنیٹ استعمال کرتے تھے‘ اس کے ذریعے ہم ہر وقت دنیا بھر سے جڑے رہتے تھے؛ تاہم ہمارے طلبا نے پوری دنیا کے تحقیقی ماہرین کو پچھاڑ کر رکھ دیا ہے ۔ انہوں نے وائی فائی کی جگہ لائی فائی ایجاد کا کامیاب تجربہ کر لیا ہے جس کے ذریعے چالیس گیگابٹس فی سیکنڈ کی رفتار سے ڈیٹا ٹرانسفر ہو سکے گا جو دنیا کے تیز ترین وائی فائی سے بھی ایک سو گنا تیز رفتار ہے ۔
اس کامیابی پر یہاں کی ایک طلبا تنظیم کو بہت زیادہ سراہا جا رہا ہے کیونکہ اس کامیابی میں اس کا بہت ہاتھ تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ لائی فائی کا کامیاب تجربہ جن چار طلبا نے کیا‘ ان میں دو طالب علم اس طلبا تنظیم سے تعلق رکھتے تھے اور دوسرے دو خیبرپختونخوا کے پشتون طلبا تھے۔ زیادہ خوشی کی بات یہ ہے کہ اس ٹیم کو ہمہ وقت جامعہ کے وائس چانسلر اور انتظامیہ کی بھرپور معاونت حاصل رہی۔ان مشترکہ کاوشوں کا یہ نتیجہ نکلا کہ آج پوری دنیا پاکستان کو سلام کر رہی ہے۔
دنیا بھر میں یہ خبریں بریکنگ نیوز کے طور پر چل رہی ہیں کہ لاہور کی سرکاری جامعہ کے طلبا نے تجربات کے دوران انفراریڈ لائی فائی سگنلز کو 8.2 فٹ کی دوری تک 42.8 گیگابٹس فی سیکنڈ کی غیرمعمولی رفتار سے نشر کرنے میں کامیابی حاصل کرلی۔ یہ مقصد حاصل کرنے کے لیے خاص طرح کے ''لائٹ انٹینا‘‘ تیار کیے گئے جو انفراریڈ شعاعوں کی شکل میں وائرلیس سگنلز کو بڑی تیزی سے نشر اور وصول کرنے کے قابل ہیں۔
پاکستانی چینلز بار بار یہ خبر نشر کر رہے ہیں کہ لائی فائی کی ایجاد سے وائی فائی ٹیکنالوجی اب عنقریب ماضی کا قصہ ہو جائے گی۔ وائی فائی میں رابطے کے لیے 2.4 گیگا ہرٹز سے 5 گیگا ہرٹز تک کی ریڈیو لہریں استعمال کی جاتی تھیںجو تقریباً ویسی ہی ہوتی ہیں جیسی موبائل فون استعمال کرتے ہیں۔ اس کے برعکس لائی فائی یعنی روشنی پر منحصر وائی فائی رابطوں میں خاص طرح کی روشنی خارج کرنے والی ایل ای ڈیز استعمال ہوتی ہیں۔
اس خبر کے بعد بالخصوص امریکہ اور بھارت سر جوڑ کر بیٹھ گئے ہیں کیونکہ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک سے ایسی خبر آنا ان کیلئے باعث تشویش بھی ہے اور باعث تحقیر بھی۔ یہاں کی پہچان تو خود کش حملے‘بم دھماکے‘ ٹارگٹ کلنگ اور فرقہ واریت تھی۔ یکا یک اتنی تبدیلی کیسے آ گئی؟یہ انگلیاں منہ میں دبائے سوچ رہے ہیں پاکستان کی یہ یونیورسٹی تو دنیا کی پہلی پانچ سو جامعات میں بھی نہیں آتی تو پھر اس کے طلبا نے اتنا بڑا کارنامہ کیسے سر انجام دے ڈالا؟
اس خبر کے بعد مائیکروسافٹ کمپنی کے مالک بل گیٹس‘ فیس بک کے بانی مارک زکربرگ اور دنیا کی بڑی موبائل کمپنیوں کے سی ای اوز نے اپنے مرکزی ریجنل دفاتر بھارت سے اٹھا کر لاہور منتقل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ بھارت اس پر سٹپٹا اٹھا ہے۔ اس نے امریکہ سے باقاعدہ احتجاج کیا ہے لیکن امریکہ نے اسے گھاس تک نہیں ڈالی۔ امریکی وزارت خارجہ نے خصوصی پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ لاہور کی اس جامعہ کے طالب علموں کی ایجاد نے چونکہ دنیا میں ٹیکنالوجی کا رخ ہی تبدیل کر دیا ہے اس لئے وہ لاہور کو اپنا مرکز بنانے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ امریکہ نے پاکستان پر سے ہر قسم کی سفری پابندیاں اٹھانے اور امریکی ایئرپورٹس پر پاکستانیوں سے غیرضروری گچھ اور تلاشی بھی ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ امریکی اور یورپی ممالک کی یونیورسٹیوں نے لاہور کی اس جامعہ کے ساتھ الحاق کی درخواستیں دے دی ہیں اور اپنے طلبا اور خصوصی وفود کو تحقیق سے مستفید ہونے کے لئے پاکستان بھیجنے کی خواہش ظاہر کی ہے۔
ذرا سوچیں وہ کیا منظر ہو گا جب بل گیٹس اور مارک زکربرگ نہر کنارے فطری مناظر کی خوبصورتی، روشن آسمان اور روپہلی دھوپ سے لطف اٹھاتے ہوئے جامعہ کے طلبا سے گپ شپ لگا رہے ہوں گے اور پوری دنیا کا میڈیا ان کی تصاویر اور ویڈیوز کو اپنے چینلز اور اخبارات میں نشر کر رہا ہو گا۔ لاہور کی وہ خوبصورت کینال روڈ جو اکثر احتجاج کی وجہ سے بند رہتی تھی‘ اب اس کے ایک طرف یونیورسٹی اور دوسری طرف عالمی کمپنیوں کے بلند قامت مرکزی دفاتر تعمیر ہوں گے تو پاکستان دنیا کا مرکز نگاہ بن جائے گا۔
پاکستانیوں کو پھر سے مبارک ہو‘ اس ایک واقعے نے پاکستان کا امیج کہاں سے کہاں پہنچا دیا۔
دوسری خبر یورپ کے لئے باعث تشویش ہے۔
ہالینڈ کی اینڈہوون یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی میں دو طلبا تنظیموں کے درمیان جھگڑا ہوا ہے۔ دونوں طرف سے طلبا مدمقابل تھے۔ طلبا نے ایک دوسرے پر ڈنڈے برسائے‘ شیشے کی بوتلیں چلائیں اور خواتین طالبات کے ساتھ بھی بدتمیزی کی۔پولیس کو فساد روکنے کے لئے آنسو گیس کی شیلنگ کرنا پڑی ورنہ حالات قابو سے باہر ہو جاتے۔واقعے کے مطابق ایک تنظیم کو اعتراض تھا کہ دوسری نے اس جگہ کے عین سامنے تقریب کا انعقاد کیوں کیا جہاں پہلی تنظیم کی تقریب جاری تھی۔ اسے اتفاق کہیے یا سازش کہ دونوں تقاریب کا انعقاد بھی ایک ہی روز اور ایک ہی وقت میں کیا گیا۔ پہلی تنظیم کے مطابق ایمسٹرڈم کی سرکاری انتظامیہ اس یونیورسٹی کے وائس چانسلر کے پیچھے کھڑی ہے اور جان بوجھ کر طلبا تنظیم کو دیوار کے ساتھ لگایا جا رہا ہے۔اس نے الزام لگایا ہے کہ ہارلم سے سات سو طلبا کو جان بوجھ کر ایمسٹرڈم کی اس جامعہ میں لا کر داخل کرایا گیا تاکہ عشروں سے موجود طلبا تنظیم کا مکو ٹھپا جا سکے۔ جبکہ دوسری تنظیم کا کہنا ہے کہ وہ تو اپنے علاقے کا مقامی ڈانس کر رہے تھے اور پہلا وار اسی تنظیم نے کیا جو برسوں سے یہاں قابض ہے۔ ہالینڈ کے میڈیا کے مطابق جامعہ میں نسلی‘ لسانی اور علاقائی تعصبات کو فروغ دینے کے لئے بعض قوتیں سرگرم ہیں اور حالیہ ٹکرائو اسی کا نتیجہ ہے۔ اس واقعے پر یورپ ‘ امریکہ اور خلیجی ممالک نے شدید ترین احتجاج کیا ہے کیونکہ اس واقعہ میں ان کے بھی کئی طالب علم زخمی ہوئے۔ ان ممالک نے اپنے طالب علم ہالینڈ سے واپس بلانے کا اعلان کیا ہے جبکہ عالمی کمپنیوں نے شفاف تحقیقات تک ہالینڈ سے تجارت روکنے کا فیصلہ کیا ہے۔
مذکورہ بالا دونوں خبریں اپنی اپنی جگہ سو فیصد درست ہیں۔ میں نے دونوں خبروں کے صرف مقامات اور یونیورسٹیوں کے نام آپس میں تبدیل کئے ہیں۔ اس سے دونوں خبریں انتہائی مضحکہ خیز دکھائی دے رہی ہیں تاہم ان میں موجود حقائق نہ تو تبدیل کئے جا سکتے ہیں نہ ہی ان سے کسی کو اختلاف ہو سکتا ہے۔
سوال مگر یہ ہے کہ وہ یونیورسٹی جہاں سے علم و تحقیق کے سوتے پھوٹنے چاہیے تھے‘ جہاں سے نت نئی ایجادات کی بریکنگ نیوز آنی چاہیے تھی اور جہاں مسلمان سائنسدانوں اور محققین کے فلسفے کو زندہ کیا جانا تھا آج وہاں لسانی وعلاقائی عصبیت کی باتیں چہ معنی دارد؟
میں اس واقعے پر جمعیت کوقصور وار سمجھتا ہوں‘ نہ پشتون طلبا کو اور نہ ہی یونیورسٹی انتظامیہ کو۔ اس ابتری کے ذمہ دار وہ ہیں جن کے ہاتھ میں ان تینوں کی ڈور ہے۔ یہ ڈور کہاں سے اور کیوں ہلائی جا رہی ہے‘ یہ راز اب طشت از بام ہو جانا چاہیے۔ جمعیت کو کس نے بنایا‘ کس لئے بنایا‘ اس سے کیا فوائد اٹھائے اور اب وہی طاقت اس کو دیوار سے کیوں لگانا چاہتی ہے‘ یہ میرا مسئلہ اور میرا موضوع نہیں۔ میرا سوال تو یہ ہے کہ سانڈوں کی اس لڑائی میں اس غریب طالبعلم کا کیا قصور ہے جس کا غریب باپ اپنا پیٹ کاٹ کر تعلیم کے پیسے اکٹھے کر تا ہے اور اسے یہاں پڑھنے بھیجتا ہے ‘ سوال یہ بھی ہے کہ کب‘ آخر کب یہاں سے وہ خبریں آئیں گی جو ہالینڈ کی اینڈہوون ‘ امریکہ کی ہارورڈ یا برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی سے آتی ہیں‘آخر کب ہماری یہ یونیورسٹیاں دنیا کی پہلی ایک سو یونیورسٹیوں کی رینکنگ میں آجائیں گی اور کیا وہ دن آئے گا جب ہمارے طلبا سر پھاڑنے ‘ٹانگیں توڑنے اور کیمپ اکھاڑنے کے اسباق کی بجائے صداقت‘ شجاعت اور عدالت کا سبق پڑھنے پر آمادہ ہوں گے؟