پاناما پر عدالتی فیصلہ تاریخی تھا یا نہیں‘ یہ ہم تاریخ پر چھوڑتے ہیں لیکن یہ سچ ہے‘ یہ بہت بڑا عدالتی دھماکہ تھا‘ اگرچہ اس دھماکے سے اڑنے والی گرد آہستہ آہستہ بیٹھ رہی ہے لیکن اس گرد سے کئی نئے سوالات بھی سر اٹھا رہے ہیں۔
مثلاً یہ کہ ماضی کی درجنوں جے آئی ٹیز اگر وزیراعظم نواز شریف سے کہیں کم بااثر افراد کا کچھ نہیں بگاڑ سکیں تو سپریم کورٹ کی تجویز کردہ جے آئی ٹی تین مرتبہ وزیراعظم رہنے والے نواز شریف اور ان کے بچوں کا احتساب کیسے کرسکے گی؟ڈاکٹر عاصم حسین پر دہشت گردوں کا علاج کرنے جیسا سنگین الزام تھا لیکن وہ ضمانت پر رہا ہو گئے‘ وزیراعظم نواز شریف پر تو صرف مالی بے ضابطگیوں کے الزامات ہیں تو کیا بیسویں گریڈ کے ارکان پر مشتمل جے آئی ٹی ان کے خلاف آزادانہ تحقیقات کر پائے گی؟ سانحہ ماڈل ٹائون کی جسٹس باقر نجفی کی رپورٹ کی زد میں مبینہ طو رپر وزیراعلیٰ اور صوبائی وزیرقانون آ رہے تھے لیکن یہ رپورٹ منظر عام پر نہیں آ ئی تو کیا اسی وزیراعلیٰ کے بڑے بھائی جو اس ملک کے وزیراعظم ہیں‘ کیا ان کے خلاف ایسی کوئی تفتیشی رپورٹ منظر عام پر آ سکے گی اور اہم ترین سوال یہ کہ ایک عام غریب ریڑھی بان اگر سڑک کنارے سودا بیچتا ہے تو اس کی ریڑھی الٹ کر اسے پہلے گرفتار کیا جاتا ہے پھر اس سے تفتیش کی جاتی ہے لیکن اربوں روپے لُوٹ کر بیرون ملک اثاثے کھڑے کرنے والوں کو اتنی رعایت ...چہ معنی دارد؟
اس فیصلے کے بعد دو آرا سامنے آ رہی ہیں۔ وزیراعظم کے حامی کہتے ہیں وزیراعظم کو عدالت نے باعزت بری کر دیا ہے اور مخالفین کو شکست ہوئی ہے‘ دوسرا موقف یہ ہے وزیراعظم اور ان کے خاندان کو چند ہفتوں کی نئی زندگی ملی ہے اور اگر وہ استعفیٰ دے دیں تو شفاف تحقیقات کے نتیجے میں ان کیلئے سنگین مشکلات کھڑی ہو سکتی ہیں۔ہم دوسری آپشن پر پہلے بات کر لیتے ہیں۔عمران خان کو یقین ہے وزیراعظم اور ان کا خاندان شکنجے میں آ جائیں گے ا س کی چند وجوہات ہیں‘ پہلی‘ یہ جے آئی ٹی ماڈل ٹائون سانحے یاڈاکٹر عاصم والی جے آئی ٹیز سے قطعی مختلف ہے کیونکہ ماضی کی جے آئی ٹیز میں فوج اور حساس اداروں کا نمائندہ موجود نہ ہوتا تھا‘ ڈان لیکس کمیٹی میں اگرچہ آئی بی‘ ایم آئی اور آئی ایس آئی کا ایک رکن موجود ہے لیکن یہ کمیٹی وزارت داخلہ کو جوابدہ ہے جبکہ موجودہ جے آئی ٹی میں نہ صرف آئی ایس آئی اور ایم آئی کے سینئر ممبر موجود ہوں گے بلکہ یہ براہ راست چیف جسٹس یا ان کے قائم کردہ عدالتی عملدرآمد بینچ کے نیچے کام کرے گی۔ سپریم کورٹ کی ہدایت کے مطابق سات دن میں جے آئی ٹی کی تشکیل کے بعد سپریم کورٹ کا ایک عمل درآمد بینچ بنے گا جو دو یا تین سینئر ججوں پر مشتمل ہو گا‘ ممکن ہے اس کی سربراہی خود چیف جسٹس ثاقب نثار سنبھال لیں لیکن اس کا چانس بہت کم ہے کیونکہ وہ پاناما کیس کے پانچ رکنی کمیشن کی سربراہی سے بھی دستبردار ہو گئے تھے ‘البتہ امکان ہے کہ سابق بینچ کے پانچ میں سے دو فاضل جج اس کا حصہ بنائے جا سکتے ہیں‘ جو بھی ہو‘ا دو تین روز میں سامنے آ جائے گا لیکن یہ واضح ہے کہ اس طرح کا عمل درآمد کمیشن اور جے آئی ٹی پہلے کبھی نہیں بنی۔ عمران خان کی مٹھائی کھانے کی دوسری وجہ یہ ہے کہ سپریم کورٹ نے تحقیقات اور فیصلہ کے درمیان مدت کا تعین کر دیا ہے اور ان دو ماہ کو تاخیری حربوں سے طویل نہیں کیا جا سکے گا کیونکہ میڈیا ‘سیاسی جماعتوں اور عوام کا دبائو بھی ہو گا اور اہم افسران کی جے آئی ٹی میں موجودگی کی وجہ سے ملک کے اہم ترین اداروں کی ساکھ بھی دائو پر لگی ہو گی اور فوج اور ایجنسیاں یہ کبھی نہیں چاہیں گی کہ ان پر حرف آئے چنانچہ وہ غیر جانبدارانہ تحقیقات ہی کریں گی۔ عمران خان کے نہال ہونے کی تیسری وجہ یہ ہے کہ مستقبل کے دو چیف جسٹس صاحبان نے وزیراعظم نواز شریف کو صادق اور امین قرار نہیں دیا جو واقعتاً مسلم لیگ ن کیلئے خطرے کی گھنٹی ہے۔ اس مرتبہ اگر شریف خاندان بچ بھی گیا لیکن اگر مستقبل میں ان دو میں سے کسی ایک چیف جسٹس کے سامنے حکمران خاندان یا ان سے متعلقہ کوئی مقدمہ آیا تو تب ان کے ساتھ کیا ہو گا‘ اس کا اندازہ مشکل نہیں۔ عدلیہ کا اپنا نظام اور شفاف طریقہ کار ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ جس طرح جنرل مشرف کو میاں نواز شریف نے دیگر جرنیلوں سے اوپر لا کر آرمی چیف لگا دیا تھا وہ جسٹس آصف کھوسہ اور جسٹس گلزار احمد کی جگہ کسی اور جج کو چیف جسٹس بنا دیں۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد آئین کے آرٹیکل 175میں ترمیم کے بعد اب صرف سینیارٹی کی بنیاد پر ہی چیف جسٹس کی تعیناتی ممکن ہو سکے گی۔ سابق چیف جسٹس افتخار چودھری نے جسٹس شوکت صدیقی کے سینیارٹی مقدمے میں بعض ججوں کو سینئر اور بعض کو جونیئر کر دیا تھا لیکن بالآخر فیصلہ یہی آیا کہ سینیارٹی ڈیٹ آف کنفرمیشن نہیں بلکہ ڈیٹ آف اپائنٹمینٹ کی بنیاد پر ہو گی چنانچہ انصاف کی یہ دو تلواریں حکمران خاندان پر اگلے پانچ برس بدستور لٹکتی رہیں گی۔ خان صاحب کی خوشی کی پانچویں وجہ یہ ہے کہ جے آئی ٹی سپریم کورٹ کے دئیے گئے سوالات وزیراعظم اور ان کے بچوں کے سامنے رکھے گی‘ کسی کو آئیں بائیں شائیں کا موقع نہیں دیا جائے گا اور ماضی کے برعکس اس مرتبہ وزیراعظم نواز شریف کو جے آئی ٹی کے روبرو لازماً پیش ہونا پڑے گا وگرنہ توہین عدالت کا کیس چلے گا اور وزیراعظم نواز شریف کی نااہلی کیساتھ ساتھ ان کیخلاف مقدمات اور ٹرائل کا بھی آغاز ہو جائے گا ۔
وزیراعظم اور ان کے ساتھی فیصلے کے بعد ایک دوسرے سے گلے کیوں ملے‘ اس کی بھی تین بڑی وجوہات ہیں اور یہ تین وجوہات ججوں کی تین معاملات پر رولنگز پر مشتمل ہیں۔ پہلی وزیراعظم کی نااہلیت سے متعلق ہے‘ مثلاً یہ کہ آرٹیکل 62 اور 63 کے تحت وزیر ِاعظم نواز شریف کو نااہل قرار دینے کی درخواست کے متعلق فیصلہ کہتاہے کہ بینچ یہ معاملہ سپیکر یا الیکشن کمیشن آف پاکستان کے پاس بھیج دیتا ،لیکن اس کے خیال میں وزیر ِاعظم نے ایسی کسی حرکت کا ارتکاب نہیں کیا جس کی بنیاد پر اُنہیں نااہل قرار دیا جائے ، چاہے نامزدگی کے وقت اپنے اور اپنے زیر ِ کفالت بچوں کے اثاثے ظاہر کرنے میں ناکام رہنے کا الزام کیوں نہ ہو۔ حکمران خاندان کی خوشی کی دوسری وجہ وزیر ِاعظم کی تقاریر میں مبینہ تضاد پر تین ججوں کی رولنگ ہے جوکہتی ہے کہ وزیر ِاعظم کی تقریر اور حسن اور حسین نوازکے بیانات میں تضاد سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ ان کی تقاریر جھوٹی یا غلط تھیں تاوقتیکہ دونوں سے پوچھ گچھ کی جائے کہ کیا اُن کے بیانات درست تھے یا غلط۔ اگریہ طے نہیں کیا جاتا کہ حسن نواز اور حسین نواز کے بیانات درست ہیں ، نواز شریف کی تقاریر کو غلط قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اگر وزیر ِاعظم کی تقاریر کو جواز بنا کر اُنہیں مجرم قرار دینا اور کہنا ہے کہ وہ صادق اور امین نہیں رہے تو پھر پہلے اُن کی بات سننی ہوگی ۔ جب حسن اور حسین نواز کے بیانات کو سچ ثابت کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی ، نہ ہی وزیر ِاعظم کی بات سنی گئی تو ان تقاریر کو ان کے خلاف ثبوت کے طور پر پیش کرنا قانون کے اصولوں کے منافی ہوگا اور رائل فیملی کی خوشی کی تیسری وجہ مریم نواز کے زیر ِ کفالت والے معاملے اور فوائد اٹھانے کے حوالے سے عدالتی رولنگ ہے۔مریم صاحبہ کو نہ تو عدالتی کمیشن نے نواز شریف کی زیر ِ کفالت اولاد کہا اور نہ ہی کہا کہ اُن کے مے فیئر جائیداد میں مالکانہ حقوق ہیں۔ مزید یہ کہ مریم نواز کے شوہر، کیپٹن (ر) صفدر اور فنانس منسٹر ، اسحاق ڈار کوبھی سپریم کورٹ نے سمندر پارکمپنیاں رکھنے کے الزام سے بری کردیا ، چنانچہ اُنہیں بھی نااہل ہونے کا کوئی خطرہ نہیں۔ جہاں تک مدعاعلیہا نمبر 6، مریم صاحبہ پر اپنے والد، میاں محمد نواز شریف کے زیر ِ کفالت ہونے کے الزام کا تعلق ہے تو عدالت کے سامنے پیش کردہ مواد سے پتہ چلتا ہے کہ مدعاعلیہا نمبر 6 ایک شادی شدہ خاتون ہیں، اور ان کے بچے بھی ہیں۔ وہ ایک جوائنٹ فیملی کا حصہ تھیں ،جو ایک ہی احاطے میں واقع مختلف مکانات میں قیام پذیر تھیں ۔ چنانچہ مشترکہ خاندان میں رہتے ہوئے وہ بھی اخراجات کی مد میں کچھ رقم ادا کرتی تھیں۔ اُنہوںنے اپنے ٹیکس گوشوارے جمع کرائے اور وہ اپنے وسائل پر زندگی بسر کرنے کے قابل ہیں ۔ چنانچہ اُنہیں صرف اس بنا پر اپنے والد کی زیر ِ کفالت اولاد قرار نہیں دیا جاسکتا کہ وہ گاہے گاہے اپنے والداور بھائیوں سے تحائف وصول کرتی تھیں ۔ فیصلہ مزید کہتا ہے‘ہمیں یہ طے کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں کہ کسی ثبوت کے بغیر عدالت اس مسئلے پر آئین کے آرٹیکل 184(3) کے تحت فیصلہ نہیں کرسکتی ۔ جہاں تک مریم نواز کے ایون فیلڈ فلیٹس اور سمندر پار کمپنیوں کی ملکیت کا تعلق ہے تو فیصلہ کہتا ہے ۔۔۔ہمارے راستے میں دورکاوٹیں ہیں۔ پہلی یہ کہ ہم اس مرحلے پرپیش کردہ مواد کی بنیاد پر قائل نہیں ہوئے کہ مریم نواز اپنے والد محمد نواز شریف کی زیر ِ کفالت اولاد ہے ۔ نیز پیش کردہ مواد کی بنا پر یہ بھی ثابت نہیں ہوتا کہ وہ مے فیئر جائیداد سے فائدہ اٹھانے والی مالکن ہیں۔ آرٹیکل 62(1) (f) کو لاگو کرنے سے پہلے ان دونوں الزامات کا حتمی ثبوت درکار ہوگا۔
میں نے فریقین کی مٹھائیاں کھانے اور معانقے کرنے کی چند وجوہات آپ کے سامنے رکھ دی ہیں‘ اب کس فریق کا ان مٹھائیوں سے پیٹ خراب ہوتا ہے اور کس کے معانقے دلاسوں، آہوں اور سسکیوں میں تبدیل ہوتے ہیں‘ اس کے لئے آپ کو بس آئندہ ساٹھ روز مزید انتظار کرنا ہو گا...!!