کچھ عرصہ قبل مصری عالم دین شیخ عبدالحامد نے فتویٰ دیا''فیس بک استعمال کرنے والے مسلمان گناہ کے مرتکب ہو رہے ہیں‘ اس سے طلاق کی شرح میں اضافہ ہوا ہے اور خاندانی نظام تباہ ہو رہے ہیں‘‘ فیس بک کیا ہے اور شیخ عبدالحامد کو یہ فتویٰ کیوں جاری کرنا پڑا اس بارے میں جاننا بہت ضروری ہے۔ فیس بک انٹرنیٹ پر ایسا پلیٹ فارم ہے جہاں لوگ اکٹھے ہوتے ہیں‘ اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں‘ معلومات شیئر کرتے ہیں‘ دوستوں کو فہرست میں شامل کر تے ہیں‘ انہیں پیغامات بھیجتے ہیں اور اپنی پروفائل کو اپ ڈیٹ کرتے ہیں۔ فیس بُک کا بانی مارک زکربرگ ایک کالج کاطالبعلم تھا۔ شروع میںفیس بک کی ممبر شپ ہارورڈ کے طالبعلموں تک محدود تھی جبکہ 4فروری2004ء کو اسے پوری دنیا کے لئے کھول دیا گیا۔ اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ یہ 71زبانوں میں موجود ہے‘ اس کے ملازمین کی تعداد سترہ ہزار ہے‘ یہ دنیا کی تیسری سب سے زیادہ دیکھی جانی والی ویب سائٹ ہے‘ اس کے صارفین کی تعداد ایک ارب چھیاسی کروڑ اور اس کی سالانہ آمدنی دس ارب ڈالر سے زائد ہے۔ فیس بک استعمال کرنے کے بہت سے فائدے ہیں مثلاً یہ کہ آپ دوستوں کے ساتھ رابطے میں رہتے ہیں‘ مختلف موضوعات پر ڈسکشن کر سکتے ہیں اور ایونٹس کے بارے میں آگاہ رہ سکتے ہیں۔ اسی طرح فیس بک پر بہت سے لوگوں کی مدد بھی کی جا سکتی ہے مثلاً اگر آپ کسی ایسے طالبعلم کو جانتے ہیں جو بہت ذہین ہے لیکن مالی وسائل کی وجہ سے آگے نہیں پڑھ سکتا تو آپ ایک فورم شروع کر سکتے ہیں جہاں لوگ اس بچے کی مالی مدد کر سکتے ہیں۔ اسی طرح آپ فیس بک کو لوگوں کی فکر اور سوچ میں تبدیلی لانے کیلئے بھی استعمال کر سکتے ہیں‘ مثلاً آپ کئی موضوعات پر ڈسکشن شروع کر سکتے ہیں‘ ہمارے ملک میں تعلیمی نظام کیسا ہونا چاہیے‘ ہم اضافی بجلی کیسے پیدا کر سکتے ہیں‘ وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب فیس بک کے چند ایک فوائد ہیں تاہم فیس بک کے چند نقصانات بھی ہیں جن کے بارے میں مصری عالمی نے اشارہ کیا ہے تاہم میں مصری عالم دین سے اس لئے اتفاق نہیں کرتا کیونکہ اگر فیس بک غلط ہے تو پھر انٹرنیٹ کیسے درست ہو سکتا ہے کیونکہ انٹرنیٹ پر دکان سے ٹافی چرانے سے لیکر بم بنانے تک کے طریقے موجود ہیں اور یہ فحش تصاویر ‘ فلموں اور اخلاق باختہ مواد سے بھرا پڑا ہے اور اگر انٹرنیٹ غلط ہے تو پھر ٹیلی وژن چینل کیسے درست ہے کیونکہ ٹی وی چینلز پر جرائم اور مار دھاڑ بھی دکھائی جاتی ہے چنانچہ انہیں دیکھنے والے بھی اپنی زندگی میں ایسا ہی کرنے لگتے ہیں چنانچہ اگر فیس بک غلط اور اس کا استعمال حرام ہے تو پھر انٹرنیٹ‘ ای میل‘ ٹی وی اور موبائل فون کو بھی ممنوع قرار دینا پڑے گا۔ ایسا ہی نقطہ نظر لیکر ایران‘ چین ‘شام اور ویت نام نے فیس بک کو بین کیا ہوا ہے اور اس کی واحد وجہ وہ معلومات اور تبصرے ہیں جو فیس بک میں کئے جاتے تھے اور جنہیں سر عام یا میڈیا میں کرنے کی اجازت نہیں ہوتی چنانچہ ان ممالک کی حکومتوں کو اس پر پابندی لگانی پڑی ۔
اب آپ گزشتہ روز گوجرانوالہ میں ایک دلہن کی خود کشی کا واقعہ بھی ملاحظہ کیجئے۔ گوجرانوالہ میں ایک خاتون کی چند ماہ قبل شادی ہوئی۔ روایت کے مطابق سسرال والوں کی بہو کے ساتھ نوک جھونک چلنے لگی۔ چند روز قبل خاتون کی فیس بک وال پر ایک تصویر شیئر کی گئی جس میں یہ خاتون اپنے شوہر کے بجائے کسی غیر مرد کے ساتھ کھڑی تھی۔ یہ تصویر اور اس کے نیچے کمنٹس دیکھ کر خاتون کی برداشت جواب دے گئی اور اس نے زہریلی گولیاں کھا لیں۔ تحقیقات پر معلوم ہوا سسرال والے خاتون سے راضی نہ تھے چنانچہ انہوں نے
اس کے ساتھ انتہائی بھونڈا مذاق کیاجو خاتون کی جان لینے کا باعث بنا۔ اس مقصد کے لئے خاتون کے موبائل فون سے خاتون کی کچھ تصاویر لی گئیں‘ انہیں فوٹو شاپ میں کسی غیر مرد کے ساتھ جوڑا گیا اور یہ تصاویر فیس بک پر جاری کر دی گئیں۔خاتون کے رشتہ دار ‘حلقہ احباب اور سسرال نے خاتون پر سوالات اور الزامات کی بوچھاڑ کر دی۔ کوئی بھی مشرقی خاتون اس قسم کی بے عزتی برداشت نہیں کر سکتی۔ چنانچہ اس نو بیاہی خاتون نے دنیا سے رخصتی میں ہی عافیت سمجھی اور زہر پی کر اپنا خاتمہ کر لیا۔ یہ کوئی ایک واقعہ نہیں ہے۔اس طرح کے درجنوں واقعات آئے روز رپورٹ ہوتے ہیں۔ فیس بک چونکہ زیادہ تر پڑھا لکھا طبقہ استعمال کرتا ہے چنانچہ دہشت گردوں نے نوجوان نسل کو ورغلانے کے لئے فیس بک کا سہارا لے لیا ہے۔چند روز قبل حیدر آباد کی نورین لغاری جو داعش کے چنگل سے بمشکل جان بچا کر نکلی‘ وہ بھی سوشل میڈیا کے ذریعے دہشت گردوں کے ہاتھ چڑھی تھی۔وہ کوئی عام لڑکی نہ تھی بلکہ میڈیکل کالج میں سیکنڈایئر کی طالبہ تھی۔مشال خان بھی فیس بک کا نشانہ بنا۔ فیس بک سے قبل ایسا کوئی خاص فورم نہ تھا جہاں آزادانہ بحث و مباحثے کئے جا سکیں ‘ ہم نے اس فورم کو بھی ایک دوسرے کی ذاتیات اور فرقوں پر گولہ باری کے لئے مخصوص کر دیا۔ معاملہ اس وقت خراب ہوا جب لوگ کسی دوسرے کا پیج اس کے نام سے بنا کر اس پر من چاہی پوسٹ کرنے لگے۔ یہاں تک کہ فیس بک کو اہم ترین ہستیوں کی توہین اور تکذیب کے لئے استعمال کیا جانے لگا اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔عدالتیں حکومت کو آئے روز ایسے مواد کی فلٹریشن کا حکم دیتی ہے لیکن یہ مواد اس قدر بکھرا ہوا ہے اور آئے روز اپ لوڈ ہو رہا ہے کہ اس سے چھٹکارا پانا ممکن نہیں رہا۔فیس بک کا ایک بھونڈا استعمال اپنا سٹیٹس اپ ڈیٹ کرنے کا ہے۔ سوائے غسل کرنے کے ہر دوسرا شخص اپنی ہر موقع کی تصویر اپ لوڈ کرنا ضروری سمجھتا ہے۔ ہسپتال میں پڑا ہو‘ ہوٹل میں کھانا کھا رہا ہو‘ نئے جوتے لایا ہو‘ ہر تصویر بیوقوفوں کی طرح فیس بک پر ڈال دی جاتی ہے اور جواب میں ویری گڈ کے پیغامات دیکھ کر یوں خوشی محسوس کی جاتی ہے جیسے جنت کا ٹکٹ مل گیا ہو۔
بھارت میں گزشتہ ماہ ایک قانون پاس ہوا ہے جس کے تحت میٹرک سے قبل بچوں کو موبائل فون دینے پر پابندی لگائی گئی ہے۔ ہمارے ہاں ایسی پابندی حکومت کی بجائے اگر والدین خود لگائیں تو زیادہ بہتر ہو گا۔ پابندی سے زیادہ بچوں کی مانیٹرنگ ‘کونسلنگ اور انہیں اچھے اور برے کا فرق بتانا ضروری ہے۔ مگر یہاں میاں بیوی ایک ہی
کمرے میں اپنے اپنے موبائل پر گھنٹہ گھنٹہ فیس بک پر ویڈیوز اور پوسٹ دیکھتے رہتے ہیںوہ بچوں کی کیا خاک کونسلنگ کریں گے۔ کئی والدین نے کم عمر بچوں کو موبائل اس شرط پر دے رکھا ہے کہ اس میں سم نہیں ڈالی جائے گی۔ ایسے بھولے والدین کو یہ پتہ نہیں کہ سم سے تو وہ کسی کو فون ہی کرسکتا ہے لیکن موبائل میں وائی فائی انٹرنیٹ سے وہ پوری دنیا سے منسلک ہو جائے گا‘ سوشل میڈیا اور ویب سائٹس کے ذریعے ہر انجان کے ساتھ اس کے روابط استوار ہو جائیں گے اور وہ ہر قسم کا مواد دیکھنے کے لئے آزاد ہو گا اور والدین کے فرشتوں کو بھی خبر نہ ہو گی کہ موصوف کیا گل کھلا رہے ہیں۔ماہرین کے مطابق فیس بک پر موجود لامتناہی پرکشش مواد اور ویڈیوز اگر مسلسل تیس چالیس منٹ تک روزانہ دیکھی جائیں تو گردن کے مہرے ایک ہی زاویہ میں رہنے کی وجہ سے شدید دبائو کا شکار ہوجاتے ہیں ‘ان میں مستقل درد رہنے لگتا ہے اور ایسا شخص پانچ سے دس برس کے بعد گردن دائیں بائیں ہلانے کے قابل بھی نہیں رہتا۔
فیس بک کے غلط استعمال سے ملک میں جرائم‘ دہشت گردی اور تشدد کے بڑھتے واقعات دیکھ کر مجھے مصری عالم دین کا فتویٰ درست دکھائی دینے لگا ہے مگر اس کی ذمہ دار فیس بک نہیں‘ہم خود ہیں۔ ہم چاہیں تو چھری سے پھل کاٹ لیں اور چاہیں تو اپنی یا کسی کی جان لے لیں۔ ہم نے مگر اپنی اور دوسروں کی زندگیاں عذاب بنانے کا تہیہ کیا ہوا ہے اور رہی سہی کسر والدین اور نئی نسل کی لا پروائی نے نکال دی ہے چنانچہ مجھے نہیں لگتا کہ فیس بک اور سوشل میڈیا اس ملک میں زیادہ عرصہ نکال پائے گا اور اگر ایسا ہوا تو ہم آزادی اظہار کا نعرہ لگا کر سڑکوں پر آ جائیں گے مگر اپنے گریبان میں جھانکنے کی زحمت تک نہیں کریں گے۔ کیا ہماری عقلوں پر ماتم نہیں ہونا چاہیے؟