یہ جون 1990کی بات ہے۔کویت کے ایک بزنس مین محمد احمد نے ایک ورلڈ کلاس کار رینٹل فرم کھولنے کا فیصلہ کیا۔ وہ اسے دنیا کی اعلیٰ ترین کمپنیوں کی فہرست میں دیکھنا چاہتا تھا۔لوگوں نے اسے ڈرایا کہ وہ یہ خیال چھوڑ دے‘ اتنی بڑی کمپنیوں کی موجودگی میں اس کی دال نہیں گلے گی لیکن وہ شخص دُھن کا پکا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ ایک محنتی‘ ذہین اور منظم انسان بھی تھا۔ ایسی کوئی بات وہ سنتا تو مسکرا کر ایک ہی جواب دیتا ''اچھے اور اعلیٰ معیار کے کام کی گنجائش ہمیشہ اور ہر جگہ ہوتی ہے‘۔‘ اس نے دیگر عالمی کار رینٹل کمپنیوں کی فہرست بنائی‘ ان کے بزنس کا مطالعہ کیا‘ ان کے گاہکوں سے ملا اور ان سے مختلف قسم کی معلومات حاصل کیں۔اس نے ایک بات نوٹ کی کہ کار حاصل کرنے والوں کی یہ خواہش تھی کہ ہم سروسز کی فراہمی میں تاخیر برداشت نہیں کرتے۔ محمد احمد نے اسی بات کو بنیاد بنانے کا فیصلہ کیا۔ اس نے اپنی کمپنی کا نام سپیڈی کار رینٹل رکھ دیا۔ اس نے گاڑیوں کی اقسام‘ رجسٹریشن‘ فنانس‘ انشورنس‘ سہولیات اور دیگر معلومات اکٹھی کیں‘ ایک رپورٹ بنائی اور یہ رپورٹ اپنے انویسٹرز اور ڈائریکٹرز کے سامنے رکھ دی۔یہ اتنی جامع اور پر اثر تھی کہ کوئی بھی اس میں کیڑے نکالنے کی جرأت نہ کر سکا۔ اس نے کویت میں ایک شاندار دفتر لیا اور دس گاڑیوں سے کام کا آغاز کر دیا۔ دو ماہ گزرے تھے کہ کویت پر آفت ٹوٹ پڑی۔ 2 اگست 1990ء کی رات 2بجے عراق نے کویت پر چڑھائی کر دی اور چند ہی دنوں میں اس کا تورا بورا بنا دیا۔ کویت میں معمولات زندگی تباہ ہو کر رہ گئے اور لوگ ملک چھوڑ کر جانے لگے۔دو ماہ کے اندر آدھا کویت خالی ہو چکا تھا۔ چار لاکھ کویتی پناہ کی تلاش میں دیگر ممالک پہنچ گئے۔بھارت سمیت دیگر ممالک نے اپنے اڑھائی لاکھ شہری ایک ہفتے کے اندر اندر ایمرجنسی پروازوں کے ذریعے واپس نکال لئے۔ کویت میں اب لوٹ مار‘ تباہی اور بربادی کے سوا کچھ باقی نہ بچا تھا۔ محمد احمد کی کمپنی بھی دیوالیہ ہونے کے قریب تھی اور اس کے کئی سرمایہ دار دوست اس کا ساتھ چھوڑ گئے تھے۔مشکلات کا پہاڑ سامنے ہو انسان کو ہر کوشش مایوسی میں بدلتی دکھائی دیتی ہے اور ا س کی امیدیں‘ مقاصداور جذبات کمزور پڑ جاتے ہیں۔ اس کے دوست بھی اسے کاروبار بند کر کے بھاگنے کے مشورے دے رہے تھے لیکن اسے تھامس ایڈیسن کی وہ بات بار بار یاد آ رہی تھی کہ بہت سے لوگوں کو یہ معلوم ہی نہیں ہوتا کہ وہ کامیابی کے کتنے قریب ہیں لیکن انتہائی قریب پہنچ کر وہ دل چھوڑ کرہار مان لیتے ہیں۔ لیکن محمد احمد نے فیصلہ کیا وہ ملک چھوڑے گا اور نہ ہی اپنے مقصد سے پیچھے ہٹے گا۔ وہ ڈٹ گیا۔ اس کی کمپنی کو بینکوں کی طرف سے نوٹس موصول ہونے لگے‘ اس کے آرڈر پہلے ہی کم ہو چکے تھے لیکن اس کے عزم میں کمی نہ آئی۔ خدا کا کرنا کیا ہوا کہ کچھ عرصے بعد جنگ بند ہو گئی اور کویتی اور دیگر ممالک کے شہری وطن واپس آنا شروع ہو گئے‘ یہ لوگ جاتے وقت اپنی گاڑیاں اونے پونے داموں بیچ گئے تھے یا ساتھ لے گئے تھے۔ جبکہ بہت سی گاڑیاں استعمال کے قابل ہی نہیں رہی تھیں چنانچہ ان لاکھوں لوگوں کو ذرائع آمدورفت کیلئے کار رینٹل فرمز سے رجوع کرنا پڑا۔ اس وقت جو واحد کار رینٹل کمپنی درست حالت میں تھی وہ محمد احمد کی سپیڈی کار رینٹل کمپنی تھی۔ چند ہی دنوں میں اس کی مانگ اس تیزی سے بڑھی کہ ایک ماہ کے اندر کمپنی نے ساڑھے تین ہزار گاڑیاں خرید لیں‘ یہ دو ماہ میں دنیا کی پانچ بڑی کار رینٹل کمپنیوں میں شامل ہوگئی‘ یہ اے ویز‘ بجٹ‘ یورپ کار اور ہرٹز کمپنی کے لیول پر پہنچ گئی۔ اس کی کامیابیوں اور ساکھ کو دیکھتے ہوئے اسے جاپان کی طرف سے جاپان میں ہنڈا سے معاہدہ کرنے اور اس کا پلانٹ وزٹ کرنے کا دعوت نامہ ملا۔ یہ محمد احمد کے لئے بہت بڑی کامیابی تھی۔ جاپان کے ساتھ معاہدہ ہوتے ہی اس کی کمپنی آسمان پر پہنچ گئی‘گلف ٹائمز‘ خلیج ٹائمز ٹی ٹی جی مڈل ایسٹ سمیت دنیا بھر کے اخبارات نے سپیڈی کار رینٹل کی شاندار کامیابی کو شہ سرخیوں میں جگہ دی اور یوں محمد احمد کا خواب بھی پورا ہو گیا ۔
اگر ہم ایک منٹ کے لئے محمد احمد کو عمران خان‘کویت کو پاکستان اور اور محمد احمد کی کارکمپنی کو تحریک انصاف سمجھ لیں تو بات سمجھنا آسان ہو جائے گا۔ دنیا میں کسی کرکٹر نے اتنی مقبولیت‘ شہرت اور پیسہ نہیں کمایا جتنا کہ عمران خان نے۔ وہ دنیا کا واحد کرکٹر تھا جو دنیا کے ہر ملک میں یکساں مقبول تھا۔ وہ اپنے دور کا بہترین بائولر‘ بیٹسمین اور کپتان تھا۔ اس کی کپتانی میں پاکستان نے بانوے کا ورلڈ کپ جیتا۔ خان نے ورلڈ کپ کے بعد اپنی والدہ کی نسبت سے شوکت خانم ہسپتال قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔ لوگوں نے اپنا تن من دھن عمران پر لٹا دیا ‘یہ ہسپتال بنااور کینسر کے لاکھوں مریضوں کو پاکستان میں ہی علاج کی مفت سہولت ملنا شروع ہو گئی۔ خان آگے بڑھتا رہا۔ اس
نے تعلیم کے میدان میں قدم رکھ دیا۔ نمل یونیورسٹی کا خواب دیکھا اور پھر اسے شرمندہ تعبیر ہوتے بھی دیکھا۔ یہ ورلڈ کلاس یونیورسٹی بنی اور اس یونیورسٹی سے اعلیٰ تعلیم یافتہ طلبا کی کھیپ برآمد ہونے لگی۔ 1996ء میں عمران خان نے سیاست میں قدم رکھ دیا۔ تحریک انصاف کی بنیاد رکھی لیکن خان کا یہ قدم ماضی کے منصوبوں کے مقابلے میں کلک نہ ہو سکا۔ وہ سیاست میں آیا مگر سیاسی سمجھ بوجھ نہ ہونے کے باعث سیاست کی مین سٹریم میں داخل نہ ہو سکا۔ اسے لگا پرویز مشرف ملک کی تقدیر بدل سکتا ہے‘ اس نے مشرف کی حمایت کی لیکن جلد ہی اپنی غلطی کا احساس ہو گیا۔ مشرف دور میں اس کی پوری جماعت کو ایک سیٹ ملی اور یہ خود عمران خان کی سیٹ تھی۔ لیکن اس نے ہارنہ مانی۔ بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد الیکشن انائونس ہوئے تو خان نے بائیکاٹ کر دیا۔ پیپلزپارٹی نے پانچ سال کرپشن کے اگلے پچھلے ریکارڈ توڑ کر ملک کو بے انتہا نقصان پہنچایا تو خان کو اپنی غلطی کا احساس ہوا۔ اس دوران مگر خان کی زندگی میں ایک ایسا ٹرننگ پوائنٹ آیا جس نے پی ٹی آئی کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔ اکتوبر دو ہزار گیارہ میں مینار پاکستان لاہور میں خان کے جلسے میں عوام کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر امڈ آیا۔ بڑے بڑے جغادری سیاستدان اس کے ساتھ مل گئے۔ کرپشن‘ بیروزگاری اور سٹیٹس کو سے تنگ عوام دیوانہ وار خان کے ساتھ جا ملے۔یکا یک خان کا گراف اٹھا اور دوہزار تیرہ کے انتخابات میں تحریک انصاف ووٹوں کے لحاظ سے دوسرے نمبر پر اور سیٹوں کے لحاظ سے تیسرے نمبر پر آگئی۔ یہ بہت بڑی کامیابی تھی۔ خان نے
دھاندلی پر دھرنا دیا اور پھر پاناما کیس آنے پر کرپشن کے خلاف جنگ تیز کر دی۔ خان ڈٹا رہا اور پاناما کیس کو سپریم کورٹ میں لے گیا‘ اس پر بڑی تنقید ہوئی کہ کچھ حاصل نہ ہو گا مگر وہ ثابت قدم رہا۔ چند روز قبل پاناما کا فیصلہ آیا اور جے آئی ٹی بنی تو خان کو یقین ہو گیا وہ جنگ جیتنے والا ہے اور اگر ساٹھ روز میں حکمران خاندان جے آئی ٹی کے سامنے لندن فلیٹس کی منی ٹریل کے ٹھوس ثبوت پیش نہ کر سکا اور سپریم کورٹ کے عمل درآمد کمشن کے سامنے الزامات حکمران خاندان پر ثابت ہو گئے تو عمران خان سٹیٹس کو اور کرپشن کے خلاف وہ جنگ جیت جائے گا جو اس نے آج سے اکیس برس قبل شروع کی تھی۔ان اکیس برسوں میں خان سے غلطیاں ضرور ہوئیں لیکن اس نے غلطیوں پر اصرار کیا نہ ہی محاذِ جنگ سے راہ فراہ اختیار کی۔
عمران خان اور محمد احمد کی کہانی مشترک ہے۔ دونوں کی راہ میں بے شمار ناکامیاں‘ مشکلات اور رکاوٹیں آئیں لیکن انہوں نے ثابت کیا‘ ناکامی کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہوتا کہ آپ کبھی کامیاب نہیں ہوں گے یا آپ کے حالات کبھی اچھے نہیں ہوں گے‘اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ کامیابی میں فاصلہ تھوڑا بڑھ گیا ہے اورناکامی کا یہ مطلب بھی نہیں ہوتا کہ اللہ آپ سے ناراض ہے یا وہ آپ کو کامیاب نہیں دیکھنا چاہتا‘ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس نے آپ کیلئے اس سے بھی کہیں زیادہ بہتر سوچا ہوا ہے جو آپ فوراً حاصل کرنے کے خواہشمند ہیں‘ اب یہ آپ پر منحصر ہے کہ آپ کامیابی کے انتہائی قریب پہنچ کر دل چھوڑ دیتے ہیں یا پھر مستقل مزاجی اور الولوالعزمی اپناتے ہوئے چند قدم ‘ چند منزلیں مزید پار کر کے کامیابی کو چوم لیتے ہیں۔ کویت کی جنگ میں محمد احمد کامیاب ہو گیا‘ دیکھتے ہیں‘ کرپشن کی جنگ میں عمران خان کب کامیاب ہوتے ہیں!