بھارت نے 1974ء میں پہلا ایٹمی تجربہ کیا تو ہمارے سامنے دو راستے تھے‘ ہم ہمیشہ کے لئے بھارت کے اشاروں پر ناچنے کے لئے تیار ہو جائیں یا پھر کانٹوںبھرا راستہ اختیار کر لیں۔ اگر ہم پہلا راستہ اختیار کرتے تو پھر آج شاید ہم بھارت کی طفیلی ریاست بن کر جی رہے ہوتے اور دوسرا راستہ وہ تھا جس میں مشکلات بھی تھیں‘ قربانیاں بھی اور آزمائشیں بھی ‘یہ راستہ طویل بھی تھا اور فیصلہ کن بھی لیکن کانٹوں بھرا یہ راستہ بالآخر ہمیں اس مقام پر پہنچا سکتا تھا جہاں ہم بھارت کے تسلط سے مکمل اور حقیقی طورپر آزاد ہو سکتے تھے۔ ہم نے دوسرا راستہ اختیار کیا۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی محنت شاقہ کی بدولت آٹھ سال کے قلیل عرصہ میں پاکستان ایٹمی طاقت بنا اور وطن کا دفاع ناقابل تسخیر بنا دیا۔ 1976ء میں شروع ہونے والا یہ مشن 1984ء میں اپنی آب و تاب کے ساتھ پایہ تکمیل کو پہنچا ۔ محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے 10دسمبر 1984ء کوجنرل ضیاء الحق کو تحریری اطلاع دی کہ اللہ نے چاہا تو ہم ایک ہفتے کے نوٹس پر دھماکہ کر سکتے ہیں ۔ ہم نے مشرقی پاکستان کھویا‘ کارگل کے محاذ پر بھی ہم یکسو نہ تھے‘ نائن الیون کا سانحہ ہوا تو پوری قوم ایک طرف اور اکیلا ڈکٹیٹر ایک طرف تھا لیکن ہماری زندگی میں یہ شاید واحد موقع تھا جب پوری قوم متفق بھی تھی‘ متحد بھی اور یکسو بھی۔عجیب اتفاق ہے کہ بھارت نے 1974ء میں پوکھران میں پہلے ایٹمی دھماکے مئی کی اٹھارہ تاریخ کو کئے جبکہ چوبیس برس بعد بھی مئی کے مہینے کا انتخاب کیا گیا۔پوکھران میں ہی گیارہ اور تیرہ مئی کو بھارت نے ایٹمی تجربات کئے اور اس کی کامیابی کے دعوے بھی خود ہی کر دئیے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ بھارت کے ان دعووں کو عالمی پریس اور عالمی ایجنسیوں نے من و عن قبول نہ کیا بلکہ ان پر طرح طرح کے تحفظات کا اظہار کیا۔ مغربی میڈیا نے تو کھل کر لکھا کہ بھارت ان تجربات میں بری طرح ناکام رہا ہے اور اپنی اس ناکامی کو چھپانے کے لئے میڈیا اور وزارت خارجہ کا سہارا لے رہا ہے۔بھارتی دھماکوں کے جواب میں یہ ضروری تھا کہ پاکستان بھی اپنے کرشمے دکھاتا اور اگر یہ ایسا نہ کرتا یا اس کے دھماکے خدانخواستہ ناکام ہو جاتے‘ یہ مخصوص پیمانوں پر پورا نہ اترتے تو بھارت اب تک ہمارا تورابورا بنا چکا ہوتا۔ خطے میں طاقت کے توازن کے لئے یہ ضروری ہو گیا تھا کہ پاکستان اپنے وہ پتے کامیابی کے ساتھ کھیلے جو اس نے برسوں سے چھپا کر رکھے تھے۔ پاکستان جوہری قوت تو کئی برس قبل بن چکا تھا مگر دنیا کو بتانے کے لئے مناسب وقت کا انتظار تھا۔ بھارت کی طرح اسے غرور تھا نہ تکبر اور نہ ہی اس نے یہ صلاحیت کسی جارحانہ اقدام یا دنیا میں تباہی پھیلانے کے لئے حاصل کی تھی۔ ایسا کرنا ہوتا تو 1984ء سے لے کر 1998تک چودہ برس پاکستان یونہی خاموش نہ رہتا بلکہ اپنی اس طاقت کو کسی نہ کسی شکل میں کیش کرواتا۔ بھارت نے 11مئی 1998ء کو ایٹمی دھماکہ کرکے پاکستان کو ڈرانا شروع کیا تو پاکستان کے پاس اسی انداز میں جواب دینے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ میاں نواز شریف اس وقت دوسری مرتبہ وزیراعظم بن چکے تھے۔ وہ پاکستان کو ایشین ٹائیگر بنانے کے خواہش مند تھے اور اس طرف وہ چل بھی پڑے تھے لیکن درمیان میں یہ آزمائش آ گئی۔ یہ عجیب موقع تھا کہ بیک وقت پاکستان کو دھمکیاں اور لالچ دونوں دئیے جا رہے تھے ۔ وزیراعظم کو دونوں میں سے ایک کا انتخاب کرنا تھا۔ یہ کڑے امتحان کا وقت تھا۔ ایک طرف ملک کی بقا، قومی غیرت اور وقار تھاتو دوسری جانب عالمی قوتوں کا دبائو اور پابندیوں کا خوف۔فیصلہ یہی ہو ا کہ دشمن تو ہمیں صفحہ ہستی سے مٹانے پر تلا ہوا ہے‘ دھماکہ نہ کیا تب بھی مرنا ہے‘ کیوں نہ ہم ایٹمی طاقت بن کر باوقار طور پر مقابلہ کریں ۔ اگر ہم مریں گے تو زندہ دشمن بھی نہ رہے گا ۔ایک فریق کی کمزوری دوسرے فریق کو اس پر چڑھ دوڑنے کی دعوت دیتی ہے جبکہ طاقت کا توازن اس ٹکرائو کو روکنے کا باعث بنتا ہے ۔ اس سے قبل 16اپریل 1998ء کو شاہین اور غوری میزائل کے کامیاب تجربے ہو چکے تھے دوسری جانب بھارت سے خفیہ رپورٹ موصول ہو رہی تھی کہ فلاں شہر میں لڑاکا بمبار طیارے جمع ہو رہے ہیں ۔ دشمن پاکستان کو دھماکہ کرنے سے پہلے ہی دھماکے کے مقام کو تباہ کرنا چاہتا ہے تاکہ ہمارا تجربہ ناکام قرار پائے لہٰذا مصلحت کے تحت وقت اور جگہ کا اعلان نہ کیا گیا۔اس وقت الیکٹرانک میڈیا تو نہ تھا چنانچہ پرنٹ میڈیا کے کئی سینئر
صحافیوں کو دھماکے کے مقام پر لے جایا گیا تاکہ وہ اپنی آنکھوں سے ان تاریخی مناظر کو ریکارڈ کر سکیں۔ یہ بلوچستان کا علاقہ چاغی تھا جہاں درجہ حرارت 55 درجے سینٹی گریڈ تھا ۔ موقع پر موجود تمام افراد نے اپنے پروردگار کے حضور کامیابی کی دعاکی اور وزیراعظم نواز شریف نے ٹھیک تین بجکر 16 منٹ پربٹن دبا کر دھماکہ کر دیا۔ صرف بارہ سیکنڈ بعد چاغی کے پہاڑوں کا رنگ تبدیل ہوگیا کیونکہ وہاں درجہ حرارت دس لاکھ سینٹی گریڈ سے تجاوز کر گیا تھا اس کے بعد دنیا کے عجیب رویے اور منظر دیکھنے میں آئے ۔ پورے عالم اسلام میں جشن کا سماں تھا ۔یہ عالم اسلام کی فتح اور کامرانی کا دن تھا ۔ پاکستان سمیت تمام عرب ممالک میں لوگ گھروں سے باہر نکل کر ایک دوسرے کو مبارک بادیں دینے لگے۔ شکرانے کے نوافل ادا کئے گئے اور دنیا بھر کے مسلمانوں نے یوں خوشیاں منائیں جیسے وہ سب پاکستان کی ایٹمی ڈھال میں محفوظ ہو گئے ہوں۔
سوچتا ہوں کہ اگر ہم نے ایٹمی دھماکے نہ کئے ہوتے تو کیا ہوتا‘ ہمیں وقتی طور پر تو ڈالر اور امدادوں کے انبار مل جاتے‘ ہمارے قرضے بھی عارضی طور پر معاف کر دئیے جاتے اور چند دن کے لئے ہماری تعریف و تحسین بھی کر دی جاتی لیکن اس کے بعد کیا ہوتا؟ یہ سوچ کر بھی جھرجھری آ جاتی ہے۔ بھارت جو کشمیر میں آج بھی آئے روز ظلم و ستم کی نت نئی داستانیں رقم کر رہا ہے کیا وہ کسی بپھرے ہوئے بھیڑئیے کی طرح پاکستان پر نہ چڑھ دوڑتا۔ بھارت اگر ایٹم بم برسا دیتا تو ہم اس کا جواب کیا اور کیسے دیتے؟ اٹھائیس مئی کا فیصلہ آسان نہ تھا‘ ہم نے پابندیاں بھی سہیں‘ جبر و استعداد کا سامنا بھی کیا اور عالمی تنہائیوں کا بھی شکار ہوئے لیکن یہ پابندیاں‘یہ جبر اور یہ تنہائیاں اس وقت کچھ نہیں کر سکتیں جب کوئی قوم مقابلہ کرنے کے لئے ڈٹ جائے۔ہم سول ملٹری تعاون کی تو بات کرتے ہیں لیکن میرا خیال ہے کہ جب سول ملٹری کے ساتھ قوم بھی ایک ہی پیج پر آ جائے تب دنیا کا طاقتور ترین دشمن بھی رسوا ہو جاتا ہے۔ آپ آج کا پاکستان دیکھیں اور بیس برس پہلے کے حالات پر نظر ڈالیں آپ کو زمین آسمان کا فرق دکھائی دے گا۔ آج آپ صرف سی پیک جیسے منصوبے کو اٹھا کر دیکھ لیں اور آپ گزشتہ دنوں چین میں ون بیلٹ ون روڈ فورم میں بھارت کی عدم موجودگی کو ہی دیکھ لیں تو صورت حال واضح ہو جائے گی۔ 13مئی 1998ء کو دھماکے کر کے پاکستان کو تنہا کرنے کی کوشش کرنے والا بھارت آج خود تنہا ہو چکا ہے ‘ وہ خطے میں بڑی طاقت بننے کا خواہاں ہے لیکن چین کے عالمی فورم میں شرکت کرنے کی اس میں ہمت نہ ہوئی اور اس پر بھارت میں مودی سرکار کی جو درگت بنی وہ اپنی مثال آپ ہے۔
قوموں کی زندگی میں بیس تیس سال کی آزمائش زیادہ نہیں ہوتی۔ اگر ہم اس وقت دھماکے کرنے سے باز آ جاتے تو آج نہ سی پیک ہوتا نہ چین‘ سعودی عرب اور دیگر طاقتیں ہمارے ساتھ کھڑی ہوتیں اور نہ ہی عالمی اسلامی اتحاد کا کوئی سپریم کمانڈر پاکستان جیسے ملک سے منتخب کیا جاتا۔ یہ سب اگر ممکن ہوا تو اٹھائیس مئی کے اس ایک فیصلے کی بدولت جس نے پاکستان کی تاریخ بدل کر رکھ دی اور جو پاکستان کی تعمیر و ترقی کے لئے ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوا ۔