غالباً یہ پہلا موقع تھا جب بجٹ تقریر سے قبل ہی اپوزیشن کو اظہار خیال کا موقع دیا گیا۔سالانہ وفاقی بجٹ ایک طے شدہ ایونٹ ہوتا ہے جس کے بعد اپوزیشن کو پورا حق ہوتا ہے کہ وہ بجٹ دستاویزات کو دیکھے‘ اس میں سے کیڑے نکالے اور اسی پر جتنا جی چاہے شور مچائے لیکن یہ شاید پہلی مرتبہ ہوا کہ بجٹ سے قبل ہی اپوزیشن ارکان نے بازوئوں پر سیاہ پٹیاں باندھ لیں اور وزیرخزانہ اسحاق ڈار کی بجٹ تقریر سے قبل ہی اودھم مچانا شروع کر دیا۔ سپیکر ایاز صاق نے وزیرخزانہ کو بجٹ تقریر کی دعوت دی تو اپوزیشن کے کچھ ارکان سیاہ پٹیاں لہراتے سپیکر کے ڈائس کے قریب پہنچ گئے جس پر اسحاق ڈار نے کہا کہ اگرچہ ماضی میں ایسی روایت نہیں رہی کہ بجٹ تقریر سے قبل کسی اپوزیشن لیڈرکو بولنے کا موقع دیا گیا ہو لیکن وہ پھر بھی اپوزیشن کا احترام کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اپوزیشن لیڈر پہلے اظہار خیال کر لیں اس کے بعد وہ بجٹ تقریر کا آغاز کر دیں گے۔ جس پر ایاز صادق بولے کہ اگر ایسی روایت ڈالی گئی تو پھر ہمیشہ کے لئے یہ سلسلہ چل پڑے گا۔ وزیرخزانہ کی دوبارہ درخواست پر ایاز صادق نے اپوزیشن کے صرف ایک رکن یعنی لیڈر آف اپوزیشن خورشید شاہ کا مائیک کھولنے کی اجازت دے دی تاکہ وہ اپوزیشن کا مشترکہ موقف ایوان کے سامنے پیش کر سکیں۔ اس پر بھی اپوزیشن ارکان رام نہ ہوئے اور شاہ محمود قریشی‘ فاروق ستار و ہمنوا نے الگ احتجاج شروع کر دیا کہ انہیں بھی بولنے کا موقع دیا جائے کیونکہ اپنی اپنی جگہ وہ بھی نامی گرامی لیڈر مانے جاتے ہیں تاہم اس دوران خورشید شاہ نے تقریر شروع کر دی جس پر وہ سارے مجبوراً خاموش ہو کر بیٹھ گئے۔ خورشید شاہ نے البتہ انتہائی اہم مسئلہ اٹھایا‘ بجٹ اجلاس سے قبل کسانوں نے اپنے مطالبات کے حق میں ڈی چوک میں دھرنا دیا تھا جو پولیس کی مس مینجمنٹ کی وجہ سے ہنگامہ آرائی میں تبدیل ہو گیا۔ معاملہ آنسو گیس کی شیلنگ اور لاٹھی چارج تک پہنچ گیا جس پر اپوزیشن کو بیٹھے بٹھائے بنی بنائی خبر مل گئی۔ شاہ محمود قریشی نے کسانوں پر لاٹھی چارج کی مذمت کی تاہم یہ بھی حقیقت تھی کہ کسان مجمع کی شکل میں ریڈ زون میںد اخل ہو نا چاہتے تھے جس کی پولیس کیسے اجازت دے سکتی تھی۔ ریڈ زون میں ایک احتجاجی تو کیا عام آدمی بھی داخل نہیں ہو سکتا۔ اس کے لئے خصوصی پاس جاری ہوتے ہیں یا مخصوص سرکاری عملہ ہی اِدھر کا رُخ کر سکتا ہے۔ کسانوں کے مطالبات البتہ جائز تھے جن میں سے چند ایک پر بجٹ میں عمل بھی ہو گیا۔ کئی چیزیں جو انہوں نے مانگی نہیں ‘ وہ بھی انہیں مل گئیں۔
ہر حکومت اپنے بجٹ کو تاریخ ساز بجٹ قرار دیتی ہے اور اپوزیشن کے خیال میں یہ الفاظ کے گورکھ دھندے کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا۔ اسی کش مکش میں بہت سی ایسی چیزیں ہوتی ہیں جو نظر انداز ہو جاتی ہیں۔ پھر چیزوں کو دیکھنے کے لئے اپنی اپنی نظر بھی ہوتی ہے۔ اس کی ایک مثال افواج پاکستان کی تنخواہ میں دس فیصد رد الفساد الائونس ہے۔ اب آپ اگر اسے اپوزیشن کی عینک سے دیکھیں گے تو یہی نظر آئے گا کہ حکومت فوج کو خوش کرنے کے لئے ایسا کر رہی ہے اور اگر آپ کو فوج کی قربانیوں کا ذرا سا بھی احساس ہے‘ شہدا کے خاندان سے آپ کا دور پار کا تعلق ہے یا پھر آپ دل و جان سے فوج کو وطن عزیز کا محافظ تسلیم کرتے ہیں تو پھر آپ اس بارے میں کوئی منفی بات نہیں کر سکتے۔درحقیقت فوجی جوان اس سے بھی زیادہ کے مستحق ہیں اور یہ بھی درست ہے کہ ان کی قربانیوں کا حق ادا ہی نہیں کیا جا سکتا۔ اس الائونس کو ہر سال اضافے کے ساتھ بجٹ کا حصہ بنایا جانا چاہیے کیونکہ دہشت گردی کی جنگ بہت طویل اور صبر کا تقاضا کرتی ہے۔ بجٹ کادوسرا اہم نقطہ کم از کم پندرہ ہزار اجرت کا ہے جو پہلے چودہ ہزار تھی۔ کہا جا رہا ہے کہ پندرہ ہزار میں دو بچوں کا بجٹ بنا کر دکھائیں‘ میں کہتا ہوں مجھے کوئی تیس یا پچاس ہزار میں بھی دو بچوں کا بجٹ بنا کر دکھائے۔ اس وقت کم از کم ایک لاکھ روپے ہو تب جا کر دو تین بچوں کے ساتھ کرائے کے مکان میں مقیم ایک خاندان کا بجٹ بن سکتا ہے اور اس میں بھی نئے کپڑے اور عیاشیاں شامل نہیں ہو سکتیں توکیا ہم حکومت سے توقع کر لیں کہ وہ یکدم ایک لاکھ کم از کم تنخواہ مقرر کر دے گی۔ ایسا عملاً بھی ممکن نہیں کیونکہ حکومت نے بجٹ ایک مخصوص رقم کے اندر بنانا ہے۔ دوسرا حل یہ ہے کہ بہت زیادہ قرضے لئے جائیں جو مناسب نہیں۔ کم از کم تنخواہ مقرر کرنا اور اس پر تنقید اب ایک رسمی کارروائی بن چکی ہے ۔ ویسے بھی جو لوگ اس پر تنقید کرتے ہیں وہ خود اپنے ملازموں کو آٹھ دس ہزار روپے سے زیادہ نہیں دیتے اور ڈیوٹی بھی بارہ سولہ گھنٹے کی کراتے ہیں۔ بجٹ کاایک اہم اقدام ٹیکس نادہندگان کے گرد دائرہ تنگ کرنا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں بھی فائلرز کو بہت زیادہ فوائد ملتے ہیں۔ اپوزیشن کی طرف سے بجٹ پر
تنقید اس طرح سامنے نہیں آئی۔ اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ یہ بڑا متوازن بجٹ تھا اور دوسرا یہ ہو سکتا ہے کہ اپوزیشن نے بجٹ کو پڑھا ہی نہیں۔ بجٹ اجلاس میں عمران خان کی عدم موجودگی بھی سوالیہ نشان تھی۔ اگر وہ اپوزیشن میں بیٹھے ہیں تو انہیں اسمبلی میں جانا چاہیے اور عوامی ایشوز کو ایڈریس کرنا چاہیے۔ وہ صرف میڈیا کے ذریعے اپوزیشن کرنا چاہتے ہیں جس سے حقیقی اپوزیشن کا کردار متاثر ہو رہا ہے۔ وہ پبلک اکائونٹس کمیٹی کے اجلاسوں سے بہت سی خبریں اور کمزوریاں تلاش کر سکتے ہیں لیکن مجال ہے کہ انہوں نے یا ان کے کسی رکن نے ایسا کرنا گوارا کیا ہو۔ اگر حکومت نے بجٹ میں عوام کے ساتھ امتیازی سلوک کیا تو ان نکات کو سامنے لانا حزب اختلاف کی ذمہ داری ہے ۔ اپوزیشن کی حالت یہ تھی کہ کسی نے بجٹ دستاویزات کھول کر پڑھنا گوارا نہ کیا۔شیخ رشید جو ٹی وی پر بڑے گرج برس رہے ہوتے ہیں محض چند منٹ کے لئے ایوان میں تشریف لائے۔ اپوزیشن کے دیگر ارکان بجٹ تقریر کے دوران مسلسل ٹہلتے رہے جیسے شادی بیاہ کی کسی تقریب میں آئے ہوں۔اس کے مقابل حکومتی ارکان آخر وقت تک ڈٹ کر بیٹھے رہے۔جمشید دستی نے حسب عادت حکمران جماعت پر جملے کسے جس پر عابد شیر علی اٹھ کھڑے ہوئے جس پر بیچ بچائو کرایا گیا۔ایسا لگتا تھا کہ اپوزیشن ارکان ایوان میں نہیں بلکہ کسی اکھاڑے میں اترے ہوں‘ جمشید دستی سے تواخلاقیات کی توقع نہیں کی جا سکتی لیکن شفقت محمود‘ عارف علوی‘ شیریں مزاری اور فاروق ستار کو کیا ہوا تھا‘ ابھی تک بجٹ تقریر پر جو انہوں نے کہا اس میں سوائے ٹیکسوں کے نفاذ کے خلاف
کوئی آواز انہوں نے نہیں اٹھائی۔انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ اگر ٹیکس چوروں کے گرد بجٹ میں دائرہ تنگ کیا گیا ہے تو اس میں برائی کیا ہے؟ پاکستان کا شمار ان چند ملکوں میں ہوتا ہے جہاں کم ترین ٹیکس دیا جاتا ہے تو اگر اس طرف کوئی قدم اٹھایا جا رہا ہے تو اس پر سنگ باری کیوں؟ہماری معیشت جتنی زیادہ ڈاکومنٹڈ ہو گی اتنا ہی بہتر ہے۔ ماضی میں ہنڈی کے ذریعے ترسیلات زر پر پابندی لگی تو اس کا فائدہ معیشت کو ہوا۔ آج نان فائلرز کے گرد گھیرا تنگ کیا جائے گا تو وہ خودبخود ٹیکس دینے کی طرف آئیں گے اور اگلے سال ٹیکس کا حجم پہلے سے بڑھ جائے گا۔ایک اہم اقدام آئی ٹی ایکسپورٹ پر ٹیکس کا خاتمہ اور انہیں مزید مراعات دینا تھا۔ اس سے ملک کی آئی ٹی کمپنیوں کا دنیا کے ساتھ بزنس بڑھانے کے لئے حوصلہ بڑھے گاجو یقینا خطیر زرمبادلہ کی صورت میں واپس آئے گا۔
حالیہ بجٹ اجلاس کا حاصل یہی ہے کہ اپوزیشن اپنے فرائض سے غافل اور ہٹتی دکھائی دیتی ہے جبکہ حکومت کے اعتماد میں روز بروز اضافہ دکھائی دے رہا ہے۔ گزشتہ روز حسین نواز جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوئے تو بہت سی افواہیں دم توڑ گئیں۔حکومت نیوز لیکس کے معاملے سے بھی نکل چکی اور اب جے آئی ٹی کی تفتیش کا مرحلہ باقی ہے۔ یہ بھی خوش اسلوبی سے گزر گیا تو پھر اپوزیشن کا کڑا وقت اور حکومت کے اچھے دن شروع ہو جائیں گے ۔ لوڈشیڈنگ کا بحران حل ہو گیا تو حکومت مخالف ووٹ بھی حکمران جماعت کی جھولی میں آ گریں گے اور اگر آئندہ الیکشن سے قبل تحریک انصاف اپنے صوبے میں نیا پاکستان نہ دکھا سکی تو پھر ساری گیم ہی حکمران جماعت کے حق میں اُلٹ جائے گی‘ اسحاق ڈار اگلے پانچ برس بھی اسی طرح بجٹ پیش کر رہے ہوں گے اور تحریک انصاف سمیت تمام اپوزیشن جماعتیں یونہی بچگانہ اور غیر سنجیدہ سیاست کر کے اپنی گنگا ڈبوتی رہیں گی۔