"ACH" (space) message & send to 7575

زندگی کا اہم ترین فریضہ

گزشتہ روز ایک اہم خبر نے چونکا دیا ۔اس مرتبہ حج کی سعادت حاصل کرنے والوں میں انڈونیشیا کی 104سالہ معمر خاتون بھی شامل تھیں ۔ یقینا یہ اللہ کے حضور حاضری کا جذبہ ہی تھا جس کی بنا پر اس قدر ضعیف خاتون نے حج بیت اللہ کے کٹھن مراحل پورے کئے۔وگرنہ اس عمر میں تو انسان بیماریوں کے ساتھ لڑنے میں مصروف ہوتا ہے اور چارپائی پر بھی زندگی کے آخری ایام بمشکل پورے کرپاتا ہے۔ انڈونیشیا کی یہ 104سالہ خاتون بائق ماریا اس عمر میں بھی انتہائی چاق چوبند اور صحت مند تھیں۔ جدہ میں انڈونیشیا کے کونسل جنرل کے مطابق بائق ماریا کی اس عمر میں بھی جسمانی اور طبعی حالت انتہائی قبل دید تھی ۔ وہ بغیر کسی مدد اور سہارے کے حج کی رسومات ادا کرنے کی صلاحیت رکھتی تھیں، تاہم اس کے باوجود سعودی انتظامیہ نے ان کی سہولت کیلئے انھیں خصوصی مدد فراہم کی۔ سعودی عرب کے فرمانروا خادم الحرمین الشریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے انہیں خصوصی مہمان کا درجہ دیا اور سعودی حکام کوان کی ہر طرح کی خدمت پر مامور کیا۔پوری دنیا سے اس سال 23لاکھ باون ہزار افراد نے حج کی سعادت حاصل کی۔ان میں تیرہ لاکھ کے قریب مرد اور دس لاکھ کے قریب خواتین تھیں۔حجاج کی خدمت کے لئے سوا تین لاکھ افراد متعین تھے‘ یعنی ہر سات افراد کے لئے ایک خدمت گار۔ سب سے زیادہ تعداد ایشیائی باشندوں کی تھی‘ تقریباً دس لاکھ افراد براعظم ایشیا سے آئے جبکہ سب سے کم تعداد امریکی ممالک اور آسٹریلیا کی تھی جہاں سے تقریباً بائیس ہزار افرادنے یہ سعادت حاصل کی۔
حج کی سعادت حاصل کرنا ہر مسلمان کی دلی خواہش ہوتی ہے ۔ اس لیے ہر سال لاکھوں فرزندان دین اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں جمع ہوتے ہیں۔ اس موقع پر کئی روح پرور مناظر دیکھنے میں آتے ہیں۔کہا جاتا ہے کہ اللہ جس کو بلاتا ہے وہی اس عظیم فریضہ سے فیض یاب ہوتا ہے۔ یقینا ایسا ہی ہے لیکن اس میں انسان کی اپنی خواہش اور اللہ کے حضورحاضری کا جذبہ بھی اہم ترین کردار ادا کرتا ہے۔ اللہ بھی اُسی کو بلاتا ہے جو اس کی خواہش رکھتا ہے اور جو وہاں جانا چاہتا ہے وہ کسی بیماری‘ کمزوری یا پیسوں کی کمی بیشی کو خاطر میں نہیں لاتا۔ ایسے ایسے معمر لوگ حج پر جاتے دیکھے ہیں جنہیں دیکھ کر گمان ہوتا ہے کہ یہ بستر سے اٹھ کر کیسے چلتے پھرتے ہوں گے لیکن وہ حج کے دوران آنے والی مشقتوں کو خندہ پیشانی سے جھیلتے ہیں اور اللہ کی رضا کے لئے یہ سب کرتے ہیں۔ حج کا تعلق یقینا مالی استطاعت سے ہے لیکن یہاں بھی غریب لوگ بازی لے جاتے ہیں۔ وہ اپنی تھوڑی بہت زمین اگر ہو تو بیچنے کو تیار ہو جاتے ہیں‘ حتیٰ کہ ان کے کمزور مالی حالات کے مطابق ان پر حج فرض نہ بھی ہوتا ہو لیکن لبیک اللھم لبیک کی صدائیں انہیں بے چین کئے رکھتی ہیں اور ان کی زندگی کی سب سے بڑی خواہش یہی ہوتی ہے کہ وہ ایک مرتبہ مقدس سرزمین پر کعبہ کے سائے میں اللہ کے حضور سجدہ ریز ہو سکیں اور اپنے گناہوں کی معافی مانگ سکیں۔ وہ ایک ایک پیسہ جوڑتے رہتے ہیں اورساری عمر کی جمع پونجی صرف اسی مقصد کے لئے بچا رکھتے ہیں ۔
ہر سال جہاں حج کرنے والے افراد کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے وہیں حج کے انتظامات میں بھی بہتری آ رہی ہے۔ ناخوشگوار واقعات‘ جو ماضی میں تواتر کے ساتھ ہوتے تھے‘ ان پر بھی قابو پا لیا گیاہے۔منٰی میں خیموں کو آگ لگ جاتی تھی تو کبھی کنکریاں مارتے ہوئے بھگدڑ مچنے سے درجنوں لوگ پیروں تلے کچلے جانے سے شہید ہو جاتے تھے۔ ہر سانحے کے بعد بہتری کے اقدامات کئے گئے ‘خیموں کی ہیئت تبدیل کر دی گئی تاکہ انہیں آگ نہ لگ سکے۔ اسی طرح کنکریاں مارتے ہوئے سانحے سے بچنے کے لئے خصوصی پلان ترتیب دئیے گئے جن میں آنے اور جانے والے راستوں کو الگ اور وسیع کرنا‘ نئے راستے بنانا اور ان پر کئی منزلیں بنانا شامل تھا۔ اسی طرح کنکریاں مارنے کے اوقات میں توسیع سے بھی رش اور بھگدڑ کے مسائل پر قابو پا لیا گیا۔حج کے موقع پر ایک بڑا مسئلہ سن سٹروک اور گرمی کا شکار ہونا ہے۔ اس سلسلے میں عازمین حج میں دنیا بھر کی زبانوں میں بروشر بانٹے گئے جن میں صحت کے مسائل سے نمٹنے کے لئے ضروری ہدایات لکھی تھیں۔ بہت سے لوگ گرمی اور فوڈ پوائزننگ کا شکار ہو کر ہسپتالوں میں پہنچ جاتے ہیں اور کئی ایک زندگی کی بازی بھی ہار جاتے ہیں۔ اس مرتبہ ایسے افراد کو بھی کسی مصیبت سے بچانے کے لئے سعودی حکومت نے خصوصی ہدایات جاری کی تھیں۔ حج پر گئے میرے ایک عزیز نے بتایا کہ وہ اس سے قبل بھی آ چکے ہیں لیکن اس سال انتظامات حیران کن حد تک شاندار تھے۔ سڑکوں پر خدمت گار حجاج کو گرمی سے بچانے کے لئے پانی کی ٹھنڈی بوتلیں‘ گیلے تولے اور چھتریاں لے کر کھڑے نظر آئے۔ وہ حجاج پر بارش کی طرح کا چھڑکائو بھی کرتے تاکہ انہیں کسی قسم کی تپش محسوس نہ ہو۔ اس مرتبہ سن سٹروک اور بیماریوں کے ہاتھوں جاں بحق ہونے والے حاجیوں کی تعداد بھی گزشتہ برس کے مقابلے میں انتہائی کم تھی۔ 
حج کے موقع پر خصوصی حج سکیورٹی فورسز ترتیب دی جاتی ہیں‘ اس مرتبہ اس کے کمانڈر جنرل خالد ال حربی تھے۔حجاج کی مانیٹرنگ کے لئے خصوصی آپریشنز کنٹرول روم کے ذریعے کئے جاتے تھے اور وہاں موجود حکام کے ذریعے لمحہ بہ لمحہ کسی بھی مشکل سے نمٹنے کی تیاری کی گئی تھی۔ گورنر مدینہ پرنس سعود بن خالدالفیصل نے حکام کو عازمین حج کے ساتھ خوش گفتار رویہ اپنانے کی تلقین کی تھی۔ اس سال شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے قطری عازمین حج کے مملکت میں داخلے کے لیے زمینی گزرگاہ کھولنے اور انھیں مناسک حج کی ادائی میں ہر ممکن سہولت فراہم کرنے کا حکم دیا تھا اور قطری عازمین حج کو دوحہ سے خصوصی حج پروازوں کے ذریعے مکہ مکرمہ لانے اور اپنے خرچ پر انھیں حج کرانے کی بھی ہدایت کی تھی۔ ایک اور اچھی خبر یہ تھی کہ اس مرتبہ حج کے لئے ایرانیوں کو اجازت ملی۔ اس اقدام سے دو علاقائی حریفوں کے درمیان مذاکرات کا دروازہ کھل گیا ہے ۔ اس سال تقریباً 86 ہزار ایرانیوں نے فریضۂ حج ادا کیا ۔ پچھلے سال سکیورٹی معاملات پر دونوں ملکوں کے درمیان تعطل پیدا ہونے سے ایرانی حج کی ادائیگی کے لیے نہیں جا سکے تھے ۔ اسی طرح سعودی بادشاہ کے حکم پر حسب روایت فلسطینی شہداء اور اسیران کے ایک ہزار اہل خانہ کے لیے بھی سرکاری اخراجات پر حج کااہتمام کیا گیا اور انہیں بہترین سہولیات فراہم کی گئیں۔خیر و عافیت کے ساتھ حج مکمل ہونے پر جہاں حجاج اللہ کے حضور سجدئہ شکر بجا لائے وہاں سعودی فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز اور سعودی حکومت کی انتظامیہ کو بھی کریڈٹ جاتا ہے جن کے شاندار انتظامات اور کارکردگی کی وجہ سے تئیس لاکھ حجاج کرام نے حج کے تمام ارکان خیریت سے پورے کئے۔
حج ایک ایسی عبادت ہے جو جوانی میں کی جائے تو انسان اس کے لوازمات احسن انداز میں پورے کر سکتا ہے۔ ویسے بھی جوانی کی عبادت کو افضل خیال کیا جاتا ہے کیونکہ اس وقت انسان اپنے جوبن پر ہوتا ہے اور گناہ کرنے کی طاقت بھی زیادہ رکھتا ہے۔آخری عمر میں جب وقت رخصت قریب آ جاتا ہے تو ہم جیسے لوگ نمازیں اور عبادتیں شروع کر دیتے ہیں۔بہتر ہے کہ حج بڑھاپے تک موقوف کرنے کی بجائے جتنا جلد ہو سکے ‘کر لیا جائے۔ بڑھاپے کے وقت حج کے ارکان ادا کرنا قدرے مشکل ہوتا ہے اسی لیے بعض گھرانے اپنے بچوں کو شادی کے پہلے سال ہی حج کرنے کی تاکید کرتے ہیں‘ تاکہ چھوٹے بچوں اور زندگی کے جھنجھٹ میں پڑنے سے قبل ہی یہ اہم ترین فریضہ ادا ہو جائے۔ بہر حال‘اللہ تمام مسلمانوں کو اپنی زندگی میں کم از کم ایک بار یہ فریضہ انجام دینے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں