"ACH" (space) message & send to 7575

سوشل میڈیا کے ’’لاپتہ افراد‘‘

شاید نواز شریف صاحب کو یاد نہیں کہ جس سوشل میڈیا کا نام لے کر وہ ہمدردیاں سمیٹنے کی کوشش کر رہے ہیں اسی سوشل میڈیا پر وہ اس وقت کڑی پابندیاں لگانے پر تلے بیٹھے تھے جب اس پر ان کے خلاف اسی طرح ''آزادی رائے‘‘ کا اظہار کیا جاتا تھا جیسا ان کے خیال میں آج نون لیگ کے متوالے کر رہے ہیں اور جس کی پاداش میں انہیں ''غائب‘‘ کیا جا رہا ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ اس وقت نواز شریف سوشل میڈیا پر اس لئے برہم تھے کیونکہ اس پر ان کی ذات یا ان کے لندن فلیٹس کے خلاف پروپیگنڈا کیا جاتا تھا اور آج وہ اس لئے برہم ہیں کیونکہ ان کے حامی ان کے بقول ان کے حق میں لیکن حقیقت میں قومی اداروں کیخلاف منظم مہم چلا رہے ہیں۔ ایف آئی اے نے راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے دو ملزموں کو ٹویٹر پر ایسا قابل اعتراض مواد شیئر کرنے پر گرفتار کیا ہے جس میں اداروں کے خلاف نفرت پھیلانے اور عوام کو اکسانے کی کوشش کی گئی تھی۔ گزشتہ دنوں لیگی قیادت کی طرف سے یہ بیان آیا تھا کہ نامعلوم افراد نون لیگ کا نام استعمال کر کے سوشل میڈیا پر اداروں کیخلاف پروپیگنڈا کر رہے ہیں اور ن لیگ کو بدنام کر رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر ایسا تھا تو کیا لیگی قیادت یا پارٹی کی جانب سے وزارت داخلہ یا سائبر کرائمز سیل کو کوئی درخواست دی گئی۔ جب سے فیس بک پر جعلی ناموں سے مذہبی دل آزاری کا سلسلہ شروع ہوا ہے اور مشال خان کا واقعہ پیش آیا ہے اس کے بعد سے تو ہر فرد محتاط ہو گیا ہے کہ کہیں اس کے نام سے کوئی جعلی اکائونٹ بنا کر اسے پھنسوانے کی کوشش نہ کر دے۔نواز شریف فرماتے ہیں کہ سوشل میڈیا پر نون لیگ کے حق میں لکھنے والوں کو لا پتہ کیا جا رہا ہے۔ کیا وہ بتانا پسند فرمائیں گے کہ حق میں لکھنے سے ان کی مراد کیا ہے۔ اگر اس سے مراد ان اداروں کے خلاف زہریلا پروپیگنڈا کرنا ہے جو انصاف اور قومی سلامتی کے ضامن ہیں تو کیا اس کی اجازت وہ ملک دے سکتا ہے جہاں موصوف کے اربوں کھربوں کے فلیٹس اور بینک اکائونٹس پڑے ہیں؟ 
ویسے یہ کوئی نئی بات نہیں کہ ہمارے سیاستدان اثاثے اور جاگیریں تو برطانیہ میں بناتے ہیں لیکن وہاں سے سیکھنے کو تیار نہیں ہوتے۔برطانوی پارلیمنٹ کو جمہوریت کی ماں کہا جاتا ہے لیکن وہاں کوئی سیاستدان وہاں کی عدالتوں یا افواج کے خلاف کوئی ایسی مہم چلا کر تو دیکھے‘ اسے آٹے دال کا بھائو معلوم ہو جائے گا۔ ہم لوگ امریکہ اور مغرب کے آزادی رائے کے حق کے اظہار سے بڑے متاثر نظر آتے ہیں لیکن وہاں بھی یہ سب قومی سلامتی اور قومی اداروں کی دھجیاں اڑانے کی قیمت پر نہیں کیا جا سکتا۔ایک مرتبہ پروفیسر ڈاکٹر مغیث الدین نے امریکی یونیورسٹی اوہائیو کا ایک واقعہ سنایا جس کے باہر آج بھی جلی حروف میں لکھا ہے کہ ہم رنگ‘ نسل‘ مذہب یا قومیت کی بنیاد پر کسی طالب علم سے غیر مساوی سلوک نہیں کرتے۔ ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ وہ اس امریکی ریاست میں دو سال مقیم رہے اور انہوں نے وہاں کی یونیورسٹیوں کے تعلیمی معیار ‘ طلبا اور اساتذہ کا قریبی مشاہدہ کیا۔ اس یونیورسٹی میں امریکی‘ یورپی‘ چینی‘ بھارتی اور دیگر ممالک کے طلبا پی ایچ ڈی کر رہے تھے۔ تاہم ان میں سب سے زیادہ ذہین ایک چینی طالب علم تھا جس کے فائنل مقالہ اور تحقیق میں سب سے اعلیٰ نمبر آئے لیکن اسے ڈکلیئر نہ کیا گیا بلکہ دیگر طالب علموں کو اس پر فوقیت دے دی گئی۔ چینی طالب علم نے اس پر بھرپور احتجاج کیا جسے خاطر میں نہ لایا گیا۔ مایوس ہو کر اسی طالب علم نے جس کے ہاتھ میں قلم کا ہتھیار تھا‘ ریوالور تھام لیا اور یکے بعد دیگرے یونیورسٹی میں موجود چھ اساتذہ کو گولیوں سے چھلنی کر کے موت کے گھاٹ اتار دیا۔حیرت انگیز بات یہ تھی کہ امریکی میڈیا جو آزادی رائے کا علمبردار بنا پھرتا ہے اس نے یہ حقیقت جاننے کی کوشش ہی نہ کی کہ چینی طالب علم نے آخر ایسا کیا تو کیوں کیا؟ وہ کون سی وجوہات تھیں جن کی بنا پر ایک ذہین طالب علم اسلحہ اٹھانے پر آمادہ ہو گیا؟امریکی میڈیا میں اس واقعے کی خبریں اس طرح نہیں لگیں کہ چینی طالب علم نے اپنے ساتھ غیر مساوی سلوک پر چھ اساتذہ کو قتل کر دیا بلکہ خبروں میں چینی طالب علم کو ذہنی مریض ظاہر کیا گیا جیسا کہ امریکہ میں اندھادھند فائرنگ کے واقعات میں ہوتا ہے کہ جو بھی بندہ پکڑا جاتا ہے پتہ چلتا ہے وہ نشے کا عادی اور نفسیاتی مریض ہے اور اس سے قبل خودکشی کی کوششیں بھی کر چکا ہے۔ ہم جس امریکی میڈیا کو آزاد سمجھتے ہیں وہ صرف سٹیٹ پالیسی کے دائرے میں کام کرنے کی حد تک آزاد ہے اور جہاں اس حد سے تجاوز ہونے لگے اور وہاں میڈیا خود کو کنٹرول نہ کر پائے تو یہ کام ریاست کرتی ہے۔ وہاں کا میڈیا امریکی قومی سلامتی کی چھتری تلے کام کرتا ہے اور اس کی مجال نہیں کہ وہ اپنی مرضی سے کسی واقعے کو اُچھال سکے یا اس کی تہہ میں جا کر اس کا اس طریقے سے پراپیگنڈا کر سکے جیسا ہمارے ہاں کیا جاتا ہے۔ امریکہ نہ چاہتے ہوئے بھی چین کے ساتھ تعلقات بڑھانے پر مجبور ہے لیکن جہاں پر چینی لوگ سبقت لے جانے کی کوشش کرتے ہیں یہ ان کا گلا گھونٹ دیتا ہے اور اس کا میڈیا بھی اس کام میں اس کا بھرپور ساتھ دیتا ہے۔ 
چند ہفتے قبل این اے ایک سو بیس کو زندگی اور موت کی جنگ بنانے کے بعد جس قلیل مارجن سے نون لیگ جیتی اس وقت بھی ایسے ہی پراپیگنڈے کا سہارا لیا گیا۔ کہا گیا کہ ہمارے اتنے بندے غائب کر دئیے گئے۔ از خود روپوش ہونے والے یہ بندے جب کچھ دنوں بعد خود ہی گھر آ گئے تو نہ ہی ان لوگوں نے پولیس یا عدالت جانے کی کوشش کی نہ میڈیا پر آ کر یہ بتانے کی زحمت گوارا کی کہ انہیںکس نے اور کیوں غائب کیا۔ آج جب عدالت میں قانونی جنگ ہارنے کے بعد نواز شریف خاندان کھسیانی بلی کھمبا نوچے کے مترادف شکست خوردہ بیانات اور الزامات کے ذریعے اپنی مردہ سیاست میں روح پھونکنے کی کوشش کر رہا ہے تو اس کے ذمے دار بھی وہ خود اور ان کے وہ مشیر ہیں جنہیں جان بوجھ کر اتنی ڈھیل دی گئی کہ انہوں نے ن لیگ کے قلعے میں خود ہی دراڑیں ڈال دیں لیکن نواز شریف صاحب ماضی سے سیکھنے اور نوشتہ دیوار پڑھنے کو تیار نہیںہوئے۔
پوری دنیا میں سوشل میڈیا کا وہ استعمال نہیں ہوتا جو ہمارے ہاں ہو رہا ہے۔ یہ دراصل معلومات کے تبادلے کا پلیٹ فارم تھا جسے ہم نے عیب جوئی‘ شر انگیزی اور فتنہ و فساد پھیلانے کا ذریعہ بنا لیا ہے۔ جس طرح آپ سڑک پر چلتے کسی شریف آدمی‘ خاتون یا پولیس والے کو گالی دے کر سخت ردعمل سے نہیں بچ سکتے اسی طرح سوشل میڈیا پر غلاظت اگلنے سے آپ بچ نہیں پائیں گے۔نواز شریف ہوں یا عمران خان‘ سبھی کو جائز تنقید برداشت کرنے کا حوصلہ رکھنا چاہیے۔ گالم گلوچ‘ ہرزہ سرائی اور کردار کشی کو آزادی اظہارکا نام نہیں دیا جا سکتا۔ سوشل میڈیا اب کوئی ایسی چیز نہیں رہا جس پر جو چاہے‘ جب چاہے جس کی مرضی پگڑی اچھال دے۔ یہ درست ہے کہ اسے کنٹرول کرنا آسان نہیں لیکن اس پر جو کوئی بھی غلط پوسٹ کرے گا‘ کسی کی دل آزاری کرے گا یا کسی پر کیچڑ اچھالے گا سائبر کرائم ونگ لمحوں میں اس کی گردن دبوچ لے گا۔''آزادی اظہار‘‘ کے معاملے میں تحریک انصاف بھی دودھ کی دھلی نہیں۔ اس کا میڈیا سیل انتہائی برق رفتار ردعمل دینے میں مہارت رکھتا ہے۔ عمران خان کے خلاف کوئی بات کی جائے تو اس کے ٹائیگر فوری حرکت میں آ جاتے ہیں اور اخلاقیات کی تمام حدوں کو پار کر دیتے ہیں۔ یہ سلسلہ بند ہونا چاہیے۔ آج عمران خان کے جانثار اپوزیشن میں ہوتے ہوئے ان پر تنقید برداشت نہیں کر سکتے تو کل کلاں اگر وہ وزیراعظم بن گئے تو اس وقت تو تمام توپوں کا رخ ہر وقت ان کی جانب ہو گا‘ تب یہ کیا کریں گے۔ نواز شریف صاحب بھی حوصلہ رکھیں‘ ان کے حامی اگر سوشل میڈیا پر ان کی جائز طریقے سے حمایت کریں گے تو کوئی انہیں کچھ نہیں کہے گا لیکن اگر وہ نواز شریف سے وفاداری کے نام پر اداروں کی مٹی پلید کرنے کی کوشش کریں گے تو پھر قانون بھی حرکت میں آئے گا اور ادارے بھی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں