جس طرح کا احتساب گرفتار سعودی شہزادوں کا ہو رہا ہے‘ اگر ہمارے ہاں ہوتا تو نہ یہاں اس درجے کی کرپشن ہوتی اور نہ ہی معیشت کا بیڑہ غرق ہوتا۔ یہاں تو حکمران اربوں کی کرپشن بھی دھڑلے سے کرتے ہیں اور معمولی سی نا اہلی ہو جائے تو شور ڈالتے پھرتے ہیں کہ مجھے نکالا کیوں۔ یہی لوگ سعودی عرب میں ان شہزادوں کی جگہ ہوتے تو دنیا دیکھتی ان کے ساتھ ہوتا کیا ہے۔
وقت ایک سا نہیں رہتا۔ یہ سمجھ رہے تھے اس مرتبہ بھی انہیں عالمی قوتیں بچا لیں گی۔ قدرت کو مگر کچھ اور منظور تھا۔ سترہ برس قبل سابق صدر پرویزمشرف کا طیارہ الٹاتے الٹاتے جناب نواز شریف خود الٹ گئے اور جیل کے مہمان جا بنے۔ مچھروں نے تنگ کیا تو چاروناچار دس برس کا معاہدہ کیا اور سعودی عرب جا پہنچے۔ معاہدے کے مطابق انہیں دس برس تک ملک سے باہر رہنا تھا اور سیاست سے بھی لا تعلق۔دونوں شرائط انہوں نے مگر روند ڈالیں اور لندن میں ڈیرہ ڈال لیا۔ لبنانی رہنما رفیق الحریری کے صاحبزادے اورلبنان کے حالیہ سبکدوش وزیراعظم سعد الحریری سعودی شہزادے مقرن بن عبدالعزیز کے ہمراہ پاکستان آئے اور میڈیا کے سامنے نواز شریف کا دس سالہ معاہدہ لہرا دیا ۔اس دوران نواز شریف صاحب نے پیپلزپارٹی کے ساتھ میثاق جمہوریت کا معاہدہ کر ڈالا۔ کچھ عرصے بعد بینظیر بھٹو نے مشرف سے این آر او کیا او رپاکستان چلی آئیں۔ ان کی آڑ میں نواز شریف بھی آ گئے مگر بینظیر کا شکر گزار ہونے کی بجائے انہوں نے پیپلزپارٹی کو اپنے نشانے پر رکھ لیا اور انہیں اسی این آراو کے طعنے دینے شروع کر دئیے جس کا سب سے زیادہ فائدہ خود نواز شریف ‘ ان کے خاندان اور ان کی پارٹی نے آگے چل کر اٹھایا۔ انہوں نے جلاوطنی معاہدے کی طرح میثاق جمہوریت کو بھی دریا برد کر دیا۔ چار سال قبل حکومت تو انہیں دوبارہ مل گئی مگر بل نہیں گئے۔ جلاوطنی کے دوران وہ لندن میں صحافیوں سے کہتے تھے کہ اب میں واپس پاکستان گیا اور حکومت ملی تو انقلاب لائوں گا اور غلطیاں نہیں دہرائوں گا۔ موجودہ دور سب کے سامنے ہے۔ گزشتہ برس کی نسبت اب تک ہم گیارہ فیصد زیادہ قرض لے چکے ہیں۔ جنہوں نے قرض اتارنا ہے وہ نونہال روزانہ ڈیڑھ لاکھ کا قرض سر پر باندھ کر پیدا ہو رہے ہیں اور جس معاشی افلاطون نے قرض کا چاند چڑھایا تھا وہ بیماری کے بہانے لندن کے ہسپتال داخل ہے۔قدرت کا کرنا دیکھئے کہ گزشتہ برس پاناما کیس کھل گیا۔ یہ اگر عالمی سطح پر نہ کھلتا تو کبھی بھی یہ لوگ کٹہرے میں نہ آتے۔ لندن فلیٹس کا بھی وہ اقرار نہ کرتے اگر پاناما کا ہنگامہ نہ کھڑا ہوتا۔ فوری طور پر حسن نواز ٹی وی پر آئے اور الحمد للہ کہہ کر فلیٹس کا اعتراف کر لیا۔ اس سے قبل ان کی ہمشیرہ یہ چیلنج کر چکی تھیں کہ ان کی لندن چھوڑ کر پاکستان میں بھی کوئی پراپرٹی نہیں۔ اب ایک ٹی وی انٹرویو میں فرماتی ہیں میری ملک میں ایک ارب کی پراپرٹی ہے۔ اس ساری تمہید کا مقصد یہ ہے کہ اب جبکہ عدالت بھی یہ کہہ چکی کہ مریم نواز نیلسن اور نیسکول کی ٹرسٹی نہیں بلکہ اصل مالک ہیں تو اس کے باوجود کیس بڑے شریفانہ طریقے سے چل رہا ہے۔ نہ کسی کو پکڑا گیا نہ چھاپا مارا گیا۔ سعودی شہزادوں کی طرح کسی کا نام بھی ای سی ایل میں نہیں ڈالا گیا۔ کسی کو نظر بند تک نہیں کیا گیا۔ اس کے باوجود نا شکری اپنی انتہا پر ہے۔ یہ ایک روز پاکستان تو اگلے روز لندن میں ہوتے ہیں۔حسن اور حسین نواز عدالتوں میں پیش نہیں ہو رہے۔ انہیں اشتہاری قرار دینے پر غور جاری ہے۔ نواز شریف ‘ مریم اور صفدر اگر پیش ہو رہے ہیں تو اس کا مقصد بھی واضح ہو رہا ہے۔ وہ عدالت میں پیشی کے بعد منصفوں اور انصاف کے نظام پر جس قسم کی تنقید کرتے ہیں اس سے ان کا آئندہ لائحہ عمل واضح ہو رہا ہے۔ یہ سیاسی ''شہادت‘‘ کے طلبگار ہیں۔اس سارے عمل کے باوجود حکومت انہیں وزیراعظم سے زیادہ پروٹوکول دے رہی ہے۔ وہ بطور ملزم عوام کے ٹیکسوں پر پروٹوکول اور سرکاری رہائش کے مزے اڑا رہے ہیں۔ دوسری طرف گرفتار سعودی شہزادے ہیں جن کے بارے میںسعودی اٹارنی جنرل شیخ سعود المعجب نے واضح کیا ہے کہ بدعنوانی کے مقدمات میں زیر حراست کسی بھی شخص کے ساتھ کسی بھی قسم کی کوئی رعایت نہیں ہوگی۔ عہدہ یا سماجی حیثیت کی بنیاد پر کسی کے ساتھ امتیازی معاملہ نہیں کیا جائے گا۔ جو لوگ بدعنوانی کے الزام میں زیر حراست ہیں ان کو بھی وہی حقوق حاصل ہیں جو دیگر افراد کو دیئے جاتے ہیں۔شریف خاندان کو اس جمہوریت کا شکرگزار ہونا چاہیے کہ جس میں وہ ننانوے فیصد قریب قریب مجرم ثابت ہونے کے باوجود قید و بند کی صعوبتوں سے آزاد زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ویسے انہیں فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ آج کل صاحب حیثیت شخصیات کو جیل میں بھی وی آئی پی سہولیات حاصل ہوتی ہیں۔گزشتہ دنوں کراچی کی مرکزی جیل میں آپریشن کے دوران بڑی تعداد میں موبائل فونز، ٹی وی سیٹس اور ایل سی ڈیز برآمد کی گئیں۔ جیل میں سرکاری کچن کے علاوہ آٹھ سے دس نجی باورچی خانے بھی برآمد ہوئے جہاں سے جوسر، مائیکرو ویو اون، سو سے زائد گیس سلنڈرز کے علاوہ چھپن ٹن راشن بھی برآمد کیا گیا، ان باورچی خانوں میں مخصوص قیدیوں کے لیے کھانا تیار کیا جاتا تھا جبکہ آرام اور آسائش کی اشیا کے علاوہ قیدیوں سے تیس لاکھ کے قریب نقد رقم بھی برآمد کی گئی۔ سو‘ اگر عام یا تگڑے قیدیوں کو جیل میں اتنی سوغات حاصل ہوتی ہیں تو وی وی آئی پیز کے لئے تو جیل کے اندر فائیو سٹار سہولیات میسر ہو سکتی ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ سعودی عرب میں جاری حالیہ انسدادبدعنوانی مہم شاہ سلمان بن عبدالعزیز کے حکم پرشروع کی گئی ہے۔ انہوں نے اینٹی کرپشن کمیٹی بنا کر ملک میں کرپشن کے خلاف تاریخی کریک ڈاؤن کیا ہے۔ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کو اینٹی کرپشن کمیٹی کا سربراہ مقرر کیا گیا تو انہوں نے انتہائی اہم شخصیات کی گرفتاریاں شروع کیں۔شاہی خاندان کے گرفتار تین افراد میں سے ایک شہزادے کو اسلحہ کی غیرقانونی تجارت کرنے، دوسرے کو منی لانڈرنگ اور تیسرے شہزادے کو جعلی ٹینڈر اور مالی خوردبرد کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے۔ سعودی بادشاہ نے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی سربراہی میں کمیٹی بنائی ہے جو ملزموں کی نشاندہی اور جرائم کی تحقیقات کرے گی۔ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سعودی عرب کو جدید تقاضوں کے تحت ڈھالنے کے بھی خواہشمند ہیں۔ ویژن دو ہزار تیس ان کے سامنے ہے۔ اس کے تحت سعودی عرب اور سعودی شہریوں پر آہستہ آہستہ پابندیوں کے کئی دروازے کھل رہے ہیں۔ آپ اندازہ کریں کہ پہلے وہاں خواتین پر گاڑی تک چلانے پر پابندی تھی‘ حتیٰ کہ خواتین میچ دیکھنے سٹیڈیم نہیں جا سکتی تھیں۔ سوشل میڈیا کا سعودیہ میں داخلہ منع تھا۔ اب یہ پابندیاں آہستہ آہستہ ختم کی جا رہی ہیں۔ صرف مغرب نہیں بلکہ تمام اسلامی دنیا نے انہیں خوش آئند قرار دیا ہے کیونکہ اگر پاکستان اور دیگر اسلامی ممالک میں خواتین ڈرائیونگ کر سکتی ہیں اور حجاب میں رہ کر زندگی کے دیگر پیشہ ورانہ امور انجام دے سکتی ہیں تو سعودی عرب میں یہ سب کیوں نہیں ہو سکتا۔ شہزادہ محمد بن سلمان سعودی معیشت کو تیل کا محتاج نہیں رہنے دینا چاہتے۔ یہ بہت دُور رس سوچ ہے۔ جس طرح گزشتہ پانچ برسوں میں تیل کی قیمتیں انتہائی کم ہوئیں اور جیسے جیسے تیل کے متبادل توانائی کے ذرائع دریافت ہوئے‘ مستقبل میں انہیں تیل کی طلب بھی کم ہوتی دکھائی دی ہے۔ ویسے بھی جب سے امریکہ نے شیل ٹیکنالوجی اپنائی ہے اس کی تیل کی پیداوار تین گنا بڑھ گئی ہے۔ پہلے وہ تیل صرف درآمد کیا کرتا تھا‘ مگر اب برآمد بھی کر رہا ہے۔ آئندہ چند برسوں میں عرب ملکوں پر تیل کا انحصار انتہائی کم ہو جائے گا شاید اسی لئے شہزادہ محمد بن سلمان سعودی عرب نے سب سے پہلے کرپشن کا سانپ کچلنے کا فیصلہ کیا ہے۔ انہوں نے محسوس کیا ہے وہ جتنی مرضی معاشی اور سماجی اصلاحات کر لیں‘ جب تک کرپشن کا عفریت باقی رہے گا ‘ان کی اصلاحات کامیاب ہو سکتی ہیں نہ ہی ویژن ۔
بہتر ہو گا شریف خاندان بھی ان سے کوئی سبق سیکھ لے۔ وہ اداروں پر تبرا کرنے کی بجائے خدا کا شکر ادا کریں کہ روزانہ عدلیہ اور فوج کے لتے لینے پر ان کے خلاف ابھی تک کوئی ایکشن نہیں لیا گیا۔ اور نہیں تو صوفوں پر دراز اور کمبل میں لپٹے گرفتار سعودی شہزادوں کو ہی دیکھ لیںجن کی باقاعدہ تفتیش ابھی ہونا باقی ہے لیکن گرفتار پہلے کر لیا گیا ہے۔ اسے کہتے ہیں احتساب!