عمران خان کو نااہل قرار دینے کا خواب دیکھنے والوں کو مایوسی ہونا ہی تھی کیونکہ عمران خان کے خلاف کیس کی بنیاد ہی غلط تھی۔ یہ پروپیگنڈا سراسر جھوٹ پر مبنی تھا کہ پاناما اور عمران خان کیس ایک جیسے تھے۔ یہ شور اس لئے مچایا جا رہا تھا کہ لیگی قیادت کو یقین تھا چونکہ انہوں نے آف شور کمپنیاں‘ لندن فلیٹس اور اثاثے حکومت میں رہتے ہوئے کرپشن کے پیسوں سے تعمیر کئے تھے اس لئے ان کی نااہلی یقینی ہے۔ اس لئے اگر وہ نہیں رہے تو عمران خان کو بھی نااہل کیا جانا چاہیے۔ یہ اور بات ہے کہ نواز شریف کی نااہلی اقامہ رکھنے پر ہوئی لیکن اقامہ ظاہر ہے کرپٹ ذرائع سے کمائی گئی دولت پاکستان سے براستہ دبئی لندن منتقل کرنے کے لئے ہی بنایا گیا تھا۔ عمران خان اور نواز شریف کیس میں صرف ایک چیز مشترک تھی اور وہ یہ کہ دونوں ملک کی دو بڑی جماعتوں کے سربراہ تھے۔ شریف خاندان پر الزام تھا کہ انہوں نے حکومت میں رہتے ہوئے بیرون ملک آف شور کمپنیاں اور اثاثے بنائے اور چھپائے جبکہ عمران خان کو بنی گالہ کا محل ان کی سابق بیوی جمائما نے دیا۔ انہوں نے جب آف شور کمپنی بنائی یا لندن فلیٹ خریدا تو وہ ایک کرکٹر کی حیثیت رکھتے تھے اور شریف خاندان کے برعکس عوام کے پیسے پر ڈاکہ نہیں ڈالا۔ عدالت عظمیٰ نے بھی گزشتہ روز اپنے فیصلے میں کہا کہ عمران خان نے جمائما کی دی گئی رقم کاغذات میں بھی ظاہر کی تھی۔ عمران خان نیازی سروسز کے شیئر ہولڈر تھے نہ ڈائریکٹر، کپتان پر نیازی سروسز کو کاغذات نامزدگی میں ظاہر کرنا لازم نہیں تھا۔ مزید یہ کہ عمران خان لندن فلیٹ کے مالک تھے مگر ایمنسٹی سکیم میں انہوں نے یہ فلیٹ ظاہر کر دیا تھا۔
شریف خاندان کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ عرصہ تیس برس سے ملک کے سیاہ و سفید کا مالک رہا ہے اور اس نے سمجھ رکھا ہے وہ خدا نخواستہ اس ملک کے لئے لازم و ملزوم ہو چکا ہے۔ نواز شریف صاحب فوج اور عدلیہ کے ساتھ محاذ آرائی میں مہارت رکھتے ہیں اور اداروں کو زیر دست رکھ کے حکومت کرنا چاہتے ہیں۔ وقت مگر ایک سا نہیں رہتا۔ عمران خان کی صورت میں انہیں اصل حریف سے پالا پڑا تو انہیں دن میں تارے نظر آ گئے۔ ویسے نواز شریف کی طرح عمران خان کوئی راتوں رات لیڈر نہیں بنے۔ اکیس برس قبل انہوں نے ایک سیاسی جماعت بنائی اور آہستہ آہستہ جدوجہد شروع کی۔ دو ہزار گیارہ تک وہ ناکامیوں سے دوچار رہے اور بالآخر مینار پاکستان جلسے نے پانسہ پلٹ دیا۔ اس کے برعکس نواز شریف ایک آمر کا ہاتھ پکڑ کر سیاست میں اترے اور سیدھا ایوان میں جا بیٹھے۔ پہلے وزیر خزانہ اور پھر وزیراعلیٰ پنجاب بن گئے۔ ان کا لوہے کا کاروبار ان حکومتوں کے دوران زمین سے آسمان پر پہنچ گیا۔ حتیٰ کہ پرویز مشرف کے دور میں جب وہ سعودی عرب پناہ کے لئے گئے تو وہاں جا کر بھی سٹیل ملز لگانے سے باز نہ آئے۔ دوسری جانب عمران خان تھا جس کا کل اثاثہ ایک گیند اور ایک بلا تھا جس سے اس نے حق حلال کی کمائی اکٹھی کی۔ عمران خان کا دوسرا قصور یہ تھا کہ اس نے گیند اور بلے کی یہ کمائی بیرون ملک نہیں رکھی بلکہ اسے پاکستان لے آیا۔جبکہ شریف خاندان نے عوام کے ٹیکسوںاور کک بیکس سے بنایا گیا پیسہ جمع کیا اور بیرون ملک آف شور کمپنیاں بنا کر اثاثے بنانے شروع کر دئیے۔ شریف خاندان تیس برس سے اقتدار میں ہے لیکن یہ لوگ صرف موٹر وے اور سڑکیں بنانے کے علاوہ کوئی کام نہ کر سکے۔ یہ پراجیکٹس اس لئے بنائے گئے کیونکہ یہ نظر آتے ہیں اور ان میں سے ناجائز کمائی بھی کی جا سکتی ہے لیکن تعلیم‘ صحت اور بیروزگار ی دور کرنا مشکل کام ہوتا ہے اور یہ اس طرح دکھائی نہیں دیتے جس طرح کوئی میٹرو بس یا موٹر وے منصوبہ۔ لوگ کہتے ہیں موٹر وے پر سفر بھی کرتے ہو اور تنقید بھی۔ ان سے میرا سوال ہے کہ اگر ان کی پالیسیاں اتنی ہی اچھی تھیں تو پھر موٹر وے اور دیگر قومی اثاثوں کو اسحاق ڈار نے گروی کیوں رکھوا دیا اور اس پر وزیر داخلہ احسن اقبال مصر ہیں کہ اسحاق ڈار کو نوبل ایوارڈ بھی ملنا چاہیے۔ دوسری جانب یہ عمران خان کا پہلا دور حکومت تھا جس میں انہوں نے خیبر پختونخوا میں سب سے زیادہ پیسہ تعلیم پر خرچ کیا‘ تاریخ میں پہلی مرتبہ پرائیویٹ سکولوں سے بچے نکل کر سرکاری سکولوںمیں آ گئے۔ یہ معمولی کامیابی نہ تھی۔ آج ایک بچے کا نجی سکول میں تعلیمی خرچ پانچ سے پچیس ہزار روپے ماہانہ ہے۔ اگر کسی کے چار بچے ہیں تو وہ پچیس ہزار سے ایک لاکھ روپے ماہانہ صرف تعلیم پر لگا رہا ہے۔ یہ شخص اگر سرکاری سکول میں بچے پڑھائے گا تو یہی پیسے وہ بچوں کی صحت اور معیارِ زندگی کو بہتر بنانے کیلئے استعمال کر سکے گا۔ گزشتہ دنوں پشاور زرعی یونیورسٹی پر حملہ ہوا تو خیبر پی کے پولیس کی کارکردگی کو آرمی چیف نے بھی سراہا۔ اسی طرح صوبے میں ایک ارب سے زائد پودے لگائے گئے جس کے بعد شاید کے پی واحد صوبہ ہو گا جو سموگ جیسے عذابوں سے بچ جائے گا۔ شاید عمران خان کی یہی نیک نیتی کام آ گئی اور وہ نا اہلی سے بچ گئے لیکن ان کے سیکرٹری جنرل جہانگیر ترین اثاثے چھپانے پر نااہل ہو گئے۔ میرا خیال ہے عمران خان جہانگیر ترین کے بارے میں تمام حقائق سے باخبر تھے اس کے باوجود ان کا اصرار تھا کہ جہانگیر ترین کے ہاتھ صاف ہیں۔ عمران خان اب بھی اپنی پالیسی پر نظر ثانی کرلیں اور پارٹی میں نذر گوندل‘ فردوس عاشق جیسے لوگوں سے خود ہی جان چھڑا لیں جو ان کیلئے آگے چل کر باعث ندامت بن سکتے ہیں۔ اگر انہیں آئندہ حکومت مل گئی تو یہ لوگ چند مہینوں میں حکومت کا بٹھہ بٹھا دیں گے۔ انہوں نے آدھی پیپلز پارٹی کو اپنے ساتھ کھڑا کر لیا ہے جن میں سے اکثریت کرپٹ ہے۔ عمران خان کب تک ایسے لوگوں کی صفائیاں دیتے پھریں گے۔ ان لوگوں کی وجہ سے لوگ آج پی ٹی آئی پر بھی انگلیاں اٹھا رہے ہیں جس کا نقصان پی ٹی آئی کو اگلے انتخابات میں ہو گا۔ حدیبیہ پیپرز ملز ریفرنس کیس کھولنے کی اپیل مسترد ہونے سے شہباز شریف کو وقتی ریلیف ملا ہے‘ ان پر ابھی تک ماڈل ٹائون کیس کی تلوار لٹکی ہوئی ہے۔ تاہم نظر یہ آرہا ہے کہ شہباز شریف بالآخر مسلم لیگ ن کی قیادت سنبھالیں گے۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور شہباز شریف ایک پیج پر اور اسٹیبلشمنٹ کیلئے قابل قبول نظر آتے ہیں جبکہ نواز شریف اداروں کے خلاف محاذ آرائی کی وجہ سے پس پردہ چلے جائیں گے۔ پیپلز پارٹی جلسوں کے ذریعے خود کو زندہ کرنے کی کوشش کر رہی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس کا مقابلہ پی ٹی آئی یا ن لیگ سے نہیں ہے۔ بلکہ یہ پارٹی لبیک یا رسول اللہ اور جماعت اسلامی جتنے ووٹ لینے کے بھی قابل نہیں رہ گئی۔ پیپلز پارٹی صرف امریکہ اور اسٹیبلشمنٹ کی جانب دیکھ رہی ہے اور مسلم لیگ ن کا خلا پر کرنے کے لئے شارٹ کٹ کی تلاش میں ہے۔
سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد پی ٹی آئی اور عمران خان کا گراف مزید اونچا ہو گا کیونکہ ن لیگ کے برعکس پی ٹی آئی کی قیادت صادق اور امین ثابت ہو گئی ہے جبکہ نواز شریف اوران کی ٹیم نااہل اور اشتہاری ہو کر بیرون ملک مفرور ہے۔ اسحاق ڈار اس وقت حاضر سروس وزیرخزانہ ہیں اور انٹرپول سے بچنے کیلئے‘ سیاسی پناہ کے لئے اپلائی کرنے والے ہیں جبکہ ن لیگ میں استعفوں کی لائن لگی ہے اور اس صورت حال میں صرف تحریک انصاف ہی واحد جماعت نظر آتی ہے جو آئندہ انتخابات میں کلین سویپ کرنے کی پوزیشن میں ہے۔ عمران خان الیکشن سے قبل اگر ایک کام کریں اور اپنی جماعت سے خود ہی کرپٹ سیاستدانوں کو فارغ کر دیں تو ان کی ساکھ اور شہرت میں کئی گنا اضافہ ہو گا۔ وہ کرپشن سے نجات اور تبدیلی کا نعرہ لے کر سیاست میں آئے تھے۔ انہیں کرپشن کے خاتمے کا آغاز اپنی جماعت سے کرنا ہو گا۔ جہانگیر ترین کی اے ٹی ایم بند ہونے سے انہیں افسردہ نہیں ہونا چاہیے‘ یہ عوام شوکت خانم ہسپتال کی طرح نیا پاکستان بنانے کے لئے اپنا تن من دھن ان پر وار دیں گے۔ انہوں نے گزشتہ دنوں کراچی جلسے میں جناح کیپ پہنی تو عوام کو ان میں قائداعظم کا واضح عکس نظر آیا۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ ایک قائد نے پاکستان بنایا‘ دوسرا پاکستان بچانے کے لئے سرگرداں ہے اور اگر عمران خان نا اہل ہو جاتے تو کرپٹ ٹولے کے ہاتھوں یہ ملک بچانا بہت مشکل ہوجاتا۔