قصور شہر سے چھ کلومیٹر کے فاصلے پر ایک گائوں ہے‘بھیلہ ہٹھاڑ۔ اس گائوں کی آبادی تین ہزار کے لگ بھگ ہے۔زیادہ تر لوگ کھیتی باڑی اور شہروں میں ملازمت کرتے ہیں۔ جون کا مہینہ تھا ۔ گرمی اپنے عروج پر تھی۔ لُو کے تھپیڑے چل رہے تھے۔سات سالہ علی شیر اپنے گھر سے باہر دیگر بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھاکہ چند آوارہ کتے وہاں آ نکلے۔ ایک کتا علی شیر کی جانب بڑھا تو اس نے ڈر کردوڑنا چاہا۔ تاہم خوف کے باعث گر پڑا اور دو تین کتے علی شیر پر بری طرح جھپٹ پڑے۔ یہ منظر دیکھ کر دیگر بچوں نے شور مچانا شروع کر دیا۔ کتوں نے علی شیر کو بری طرح کاٹ مارا تھا۔ علی شیر کی دل دہلا دینے والی چیخیں اور دیگر بچوں کا شورسن کر گائوں کے لوگ جمع ہو گئے۔ علی شیر بے ہوش ہو چکا تھا۔ اسے گائوں کی ڈسپنسری میں لے جایا گیا۔ لیکن ڈسپنسری میںکتے کے کاٹے سے بچائو کی ویکسین موجود نہ تھی۔ بچے کو گدھا گاڑی پر ڈال کر قریبی گائوں فتح پور لے جایا گیا۔ راستے میں جب اسے ہوش آتا تو چیخوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو جاتا۔ جیسے تیسے کر کے وہ فتح پور پہنچے لیکن فتح پور کی ڈسپنسری میںبھی ویکسین دستیاب نہ تھی۔ مجبوراًافضل اسے واپس گائوں لے آیا۔کچھ لوگوں نے مشورہ دیا کہ شہر لے جائو لیکن افضل کی جیب اس بات کی اجازت نہ دیتی تھی۔ اگلے روزحالت غیر ہونے پراسے قصور ڈسٹرکٹ ہسپتال لے جایا گیا۔ تاہم بدقسمتی نے یہاں بھی پیچھا نہ چھوڑا۔ قصور کے سب سے بڑے ہسپتال کے سٹاک میں بھی ویکسین موجود نہ تھی۔ ہسپتال کے عملہ نے صاف جواب دے دیا۔ ڈاکٹروں نے افضل کو خبردار کیا کہ کہ اگر بچے کو فوری طور پر ویکسین نہ دی گئی تو اس کی جان کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ اس دوران علی شیر کی طبیعت مزید بگڑ چکی تھی۔ اس کی ماں سے اپنے جگرگوشے کی حالت نہیں دیکھی جاتی تھی۔گائوں کے لوگ بھی بے بسی سے بچے کو دیکھتے اور آنسو بہاتے چلے جاتے۔ زہر علی شیر کے جسم میں پوری طرح سرایت کر چکا تھا۔ اسی شام علی شیرنے اپنی ماں کو کاٹنا شروع کر دیا۔ اس دوران علی شیر گلا پھاڑ کر اتنی زور دار اورخوفناک آوازیں نکالنے لگتا کہ اس کے باپ کو علی کا منہ اپنے ہاتھوں سے بند کرنا پڑتا۔ یہ منظر دیکھ کر علی کی ماں کو غشی کے دورے پڑنے لگے۔ موت کے سائے افضل کے گھر کے بہت قریب پہنچ چکے تھے۔ علی شیر کا رنگ نیلاپڑ نے لگا تھا۔ اس نے خون کی قے کر دی۔ منہ سے سفید جھاگ نکلی تو سب دھاڑیں مار کر رونے لگے۔ علی شیر کی ماںاپنے جگر کے ٹکڑے کو بانہوں میں لئے زار و قطار روتی رہی‘وہ بار بار علی شیر کا چہرہ چومتی‘کبھی اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرتی‘کبھی اس کے گالوں کو سہلاتی کبھی آسمان کی طرف منہ کر کے اپنے بچے کی زندگی کی بھیک مانگتی اور کبھی حکمرانوں کو دہائیاں دیتی۔ قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ کچھ دیر تڑپنے کے بعد علی کی گردن ایک طرف ڈھلک گئی۔ اس نے اپنی ماں کی گود میں جان دے دی۔علی شیر ہر قسم کی تکلیف سے آزاد ہو چکا تھا۔
متذکرہ بالا واقعہ نو سال قبل قصور میں پیش آیا۔نو برس قبل بھی پنجاب کے وزیراعلیٰ شہباز شریف تھے اور آج نو برس بعد بھی وہی ہیں۔ممکن ہے کہ وہ رنجیت سنگھ کی پنجاب پر حکمرانی کا ریکارڈ بھی توڑ دیں۔ یہ تو قصور کے ایک نواحی گائوں کی بات تھی۔ آپ اس واقعے کے بعد آج نو سال بعد کے لاہور کی حالت بھی دیکھ لیجئے۔ ایک خبر کے مطابق اس سال صرف لاہور میں شہر کے پہلے دس ماہ کے دوران8ہزار 873افراد کو آواراہ کتو ں نے کاٹ لیا، جس سے بائولے کتو ں کے کا ٹنے سے درجنوں شہری جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ، دوسری طر ف متاثرہ شہریوں کو شہر میں کتو ں کے کا ٹنے کے تدار ک کے لئے واحد ہسپتال سے صرف ایک انجکشن کی فراہمی ہو ر ہی ہے ،یہ ہسپتا ل برڈ وڈ روڈ پر واقع ہے جہا ں کتے کے کا ٹنے کے علا ج کے طور پر چا ر ٹیکے فی مر یض مفت د ینے کا دعوی ٰ کیا جا تا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ متا ثر ہ شخص کو
صرف ایک ٹیکہ فرا ہم کیا جا تا ہے ۔اکثر اوقات کتے کے کاٹنے سے گہرے گھاؤ کی صورت میں لگنے والا انجکشن مہنگا ہونے کے باعث سرے سے دستیاب ہی نہیں ہوتا جس سے متاثرہ شخص تڑپ تڑپ کے دم توڑ جاتا ہے۔یہ اس شہر کا حال ہے جو اس صوبے کا دارالحکومت ہے جہاں مسلم لیگ ن کم و بیش تیس برس سے حکومت کرتی آ رہی ہے۔ صحت اور تعلیم کے جو حالات آج سے تیس برس قبل تھے‘ آج بھی وہی ہیں۔ گزشتہ روز چیف جسٹس جسٹس ثاقب نثار لاہور کے ایک سرکاری ہسپتال پہنچے تو ان کی آمد سے قبل ہسپتال میں ہر بستر پر ایک ایک مریض لٹا دیا گیا‘ راہداریوں کی صفائی کر دی گئی‘ پودوں کی کانٹ چھانٹ اور رنگ روغن بھی چند گھنٹوں میں مکمل کر لیا گیا اور جیسے ہی وہاں سے رخصت ہوئے‘ حالات وہیں پر آ گئے جہاں تھے۔ ہر بستر پر تین مریض واپس آ گئے۔ خدا جانے انہیں ہسپتال انتظامیہ نے کہاں قید کر دیا تھا۔ میں اس روز پنجاب کارڈیالوجی کے سامنے سے گزر رہا تھا تو وہاں ٹی وی چینلز کی کئی گاڑیاں دیکھیں۔ پہلے سمجھا شاید کوئی سیاسی مریض داخل ہے بعد میں معلوم ہوا کہ چیف جسٹس ثاقب نثار کا ہسپتال کا دورہ متوقع ہے جس کے باعث انتظامیہ کی دوڑیں لگی ہوئی ہیں۔ یہاں بھی فوراً رنگ روغن اور صفائی ستھرائی کا کام شروع کر دیا گیا‘ زائد مریض غائب کر دئیے گئے اور ڈاکٹروں اور پیرا میڈیکل سٹاف کو کچھ دیر کے لئے مریضوں سے دوستانہ رویہ اپنانے کا حکم دے دیا گیا۔ مریضوں کو بھی بتا دیا گیا کہ انہوں نے سب اچھا کی رپورٹ دینی ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ انتظامیہ میں سے ہی کچھ افراد مریض بن کر ان وارڈز میں لٹا دئیے گئے ہوں جہاں چیف جسٹس نے آنا ہو۔ ہسپتال انتظامیہ نے کئی گھنٹے لوگوں کو تکلیف میں ڈالا لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ چیف جسٹس کا دورہ ملتوی ہو گیا ہے جس کے بعد انتظامیہ کی جان میں جان آئی۔ذرا غور کریں کہ جس ملک میں منصف اعلیٰ کو حقائق سے بے خبر رکھنے کی کوشش کی جائے وہاں عوام کے ساتھ کیا سلوک ہوتا ہو گا؟ اوپر سے آج حکمران امیرالمومنین بننے کے خواب دیکھ رہے ہیں اور خود کو خادم اعلیٰ بھی کہلوا رہے ہیں‘ انہیں اگلی پانچ حکومتیں بھی مل جائیں تو یہ سوائے لوٹ مار کے کچھ بھی نہیں کر سکتے۔ یہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی مثالیں تو دیتے ہیں لیکن ان جیسا ایک بھی کام نہیں کر سکے۔ چند نیلی پیلی بسیں اور ٹرینیں چلاکر یہ احسان بھی جتاتے ہیں۔ جبکہ لوگوں کو کتے کے کاٹے کی دوا تک دستیاب نہیں۔ کسی کو حکمرانی کرنی ہے تو حضرت عمرؓ کے اس ایک واقعے کو ہی مثال بنا لے جب ایک قافلہ مدینہ منورہ آیا اور شہر کے باہر اترا۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو خبر ہوئی تو کچھ آدمیوں کو ساتھ لے کر رات کو اس کی حفاظت کے لیے خود تشریف لے گئے ‘پہرہ دے رہے تھے کہ ایک طرف سے کسی بچے کے
زور زور سے رونے کی آواز آئی‘ادھر گئے تو دیکھا کہ ایک ننھا بچہ ماں کی گود میں رو رہا ہے‘ماں کو تاکید کی کہ بچے کو بہلاؤ‘تھوڑی دیر بعد پھر ادھر سے گزرے تو دیکھا کہ بچہ اسی طرح رو رہا ہے ، ان کو غصہ آگیا اور بچے کی ماں سے کہا: بڑی بے رحم ماں ہے ، بچہ رو رو کر ہلکان ہو رہا ہے اور تو اسے بہلا کر چپ نہیں کراتی‘عورت حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو پہچانتی نہیں تھی، بولی:''اے اللہ کے بندے ! تم کو اصل بات کا پتہ نہیں ہے ، خواہ مخواہ مجھ کو جھڑک رہے ہو‘بات یہ ہے کہ امیر المومنین نے حکم دیا ہے کہ بچے جب تک ماں کا دودھ پیتے رہیں، بیت المال سے ان کا وظیفہ مقرر نہ کیا جائے‘اسی لیے میں اس کا دودھ چھڑاتی ہوں اور یہی اس کے رونے کی وجہ ہے ۔‘‘یہ سن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور بے اختیار ان کی زبان پر یہ الفاظ آگئے : ''ہائے عمر! اس طرح تو نے کتنے بچوں کو دکھ دیا ہوگا۔‘‘صبح ہوتے ہی اعلان کر دیا کہ جس دن کوئی بچہ پیدا ہو، اس کو اسی دن سے وظیفہ دیا جائے گا۔یہ حضرت عمرؓ کے شاندار کارناموں میں سے صرف ایک تھا اور ہمارے حکمرانوں کے پاس کیا ہے؟ اقامہ‘ پاناما اوراب نئی تحریک شروع کرنے کا ڈرامہ؟