سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ کا حق ملنے سے روکنے کیلئے کچھ قوتیں پھر سے سرگرم ہو گئی ہیں۔ گزشتہ روز سپریم کورٹ میں سمندرپار پاکستانیوں کی ووٹنگ کے طریقہ کار سے متعلق بریفنگ میں نادرا کی جانب سے تیار کیے گئے آن لائن ووٹنگ سافٹ وئیر پر چند ''نا معلوم آئی ٹی ماہرین ‘‘نے اعتراضات اٹھا دیے اور کہا کہ یہ سافٹ وئیر باآسانی ہیک کیا جا سکتا ہے۔ مجھے یہ ''آئی ٹی ماہرین‘‘ کبھی ملیں تو میں ان سے پوچھوں کہ پاکستان جیسا ملک جو ایٹم بم تو بنا سکتا ہے اور اسے دشمن سے محفوظ بھی رکھ سکتا ہے وہ ایک جدید آن لائن ووٹنگ سسٹم کیوں نہیں بنا سکتا؟ یہ ''ماہرین‘‘ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کی ترجمانی کرنے کی بجائے سسٹم کو محفوظ بنانے کی تجاویز دے دیتے تو ان کی بھی عزت رہ جاتی۔ عجیب بات ہے پاکستان جیسا ملک جہاں تین سے چار ارب روپے کی آن لائن شاپنگ ہو رہی ہے وہاں اسے ناممکن کام سمجھا جا رہا ہے۔ پاکستان میں اب تک اس حوالے سے بڑا آن لائن فراڈ سکینڈل سامنے نہیں آیا اور فرض کریں آ بھی جاتا ہے جیسا کہ کچھ چینی باشندوں نے اے ٹی ایم مشینوں کو ہیک کر کے رقم نکلوائی تو کیا اس کے بعد ملک بھر کی اے ٹی ایم مشینیں بند کر دی گئیں؟ کیا لوگوں نے پیسے نکلوا کر گھر رکھ لئے؟ کیا بینکوں نے اپنا سارا سسٹم ڈائون کر دیا؟ کیا اس ایک واقعے سے ڈر کر پاکستان میں انٹرنیٹ منقطع کر دیا گیا؟ ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ چینی ہیکرز جیل میں ہیں اور اے ٹی ایم مشینیں رواں دواں ۔ جنوری میں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے تھے کہ پوری دنیامیں آن لائن شاپنگ ہوتی ہے ، رقم کالین دین ہوتاہے ،تو کیا آن لائن ووٹنگ ممکن نہیں ہے ؟ گزشتہ روز ایک مرتبہ پھر پاکستان تحریک انصاف نے آن لائن ووٹنگ کے حق میں جبکہ حکمراں جماعت مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے اراکین قومی اسمبلی نے آئندہ عام انتخابات میں آن لائن ووٹنگ کا تجربہ نہ کرنے سے متعلق چیف جسٹس کے سامنے گزارشات پیش کیں جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عدالت کسی طور بھی عام انتخابات کو متنازع نہیں بننے دے گی۔جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ موٹروے پر حادثات ہونے کی وجہ سے کیا موٹروے بند کر دیں گے؟
کمپیوٹر آنے سے قبل اخبارات میں خطاطی اور لیڈ میکنگ ہاتھ سے ہوا کرتی تھی۔ بہترین اور ماہر کاتب یہ کام کرتے تھے۔ حتیٰ کہ کمپوزنگ کا عمل بھی ہاتھ سے کیا جاتا تھا لیکن جب کمپیوٹر آیا تو تبدیلی کا عمل شروع ہوا۔ بعض تبدیلیوں سے بچنا محال ہوتا ہے۔ اس کا ایک حل ہوتا ہے کہ انسان خود کو اپ ڈیٹ کر لے۔ آج لیڈ میکنگ‘ کمپوزنگ‘ ڈیزائننگ سب کچھ کمپیوٹر سے ہور رہا ہے۔ اگر ہم اس تھیسز کو قبول کر لیں جو تھیسز مسلم لیگ ن‘ پیپلزپارٹی یا ''نامعلوم آئی ٹی ماہرین‘‘ پیش کر رہے ہیں تو پھر اس تھیسزکے ہوتے ہوئے تو ملک میں آئی ٹی سے متعلقہ ہر ایکٹیویٹی ختم کر دینی چاہیے۔ آپ فیس بک کو ہی لے لیں جس کے پانچ کروڑ صارفین کا ڈیٹا چرایا گیا‘ کیا اس کے بعد فیس بک کو بند کر دیا گیا؟ آپ ایئر ٹریفک نظام کو دیکھ لیں۔دنیا بھر میں ایک دن میں سوا لاکھ طیارے فضا میں پرواز کرتے ہیں۔ صرف امریکہ میں ایک دن میں ستاسی ہزار مسافر طیارے امریکی فضائوں میں اڑتے ہیں۔ یہ طیارے زمین پر موجود ایئرٹریفک کنٹرول سسٹم کے تحت ایک خاص بلندی اور سپیڈ برقرار رکھتے ہیں اور بغیر ٹکرائے پرواز مکمل کرتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہیکرز ان پر اٹیک نہیں کرتے؟ پٹواری قسم کی سوچ رکھنے والے حضرات کے علم کے لئے بتا دوں کہ روزانہ سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں کی تعداد میں ہیکرز ایئرٹریفک کنٹرول سسٹم پر اٹیک کرتے ہیں لیکن اس اٹیک کو روکا جاتا ہے اور ایسا ہر آن لائن پلیٹ فارم پر ہو رہا ہے۔ جو بھی سسٹم آن لائن ہے اس کو ہیک کرنے کی کوشش کی جاتی ہے‘ یہ کام ڈاس اٹیک سے شروع ہوا تھا جو اب جدید شکل اختیار کر چکا ہے۔ تمام ممالک کی حکومتی و نجی ویب سائٹس بھی ہیکروں کے زیرعتاب رہتی ہیں۔ یہ حملے کئی قسم کے ہوتے ہیں۔مثلاً ایک قسم ایسی ہے جس میں ایک منٹ میں کسی ویب سائٹ کو کھولنے کی ہزاروں جعلی کمانڈز جاری کر دی جاتی ہیں جن سے ویب سائٹ کا سرور بلاک ہو جاتا ہے۔ کئی مرتبہ پاکستان کی سرکاری ویب سائٹس ہیک کی گئیں لیکن بعد میں واپس بھی لے لی گئیں۔سب سے زیادہ ہیکنگ کے حملے آن لائن سٹورز‘ موبائل کمپنیوں اور بینکوں پر ہوتے ہیں۔لیکن ہر ایک منٹ کے بعد انٹرنیٹ پر دنیا میں دس نئے آن لائن سٹور بھی کھل رہے ہیں‘ پاکستان سمیت دنیا کا کوئی بینک ایسا نہیں جو آن لائن نہ ہو۔یہی نہیں بلکہ بینک آئے دن درجنوں نئی سروسز بھی شامل کر رہے ہیں۔ بچوں کے سکولوں کی فیسوں سے لے کر بجلی‘ موبائل‘ گیس‘ پانی کے بلوں‘گاڑی کی قسطوں‘ انشورنس کی ادائیگی تک کی ٹرانزیکشنز آن لائن بینکنگ سے ہو رہی ہیں۔ لوگ طویل قطاروں میں لگنے کی بجائے موبائل کی ایپس سے گھر بیٹھے مستفید ہورہے ہیں ۔ سٹیٹ بینک کے مطابق گزشتہ ایک سال کے دوران آن لائن بینکنگ ٹرانزیکشن کا حجم 880 ارب روپے رہا اورآن لائن بینکنگ صارفین کی تعداد 6 فیصد اضافے سے 19 لاکھ تک پہنچ گئی۔ان انیس لاکھ صارفین میں سے تو کسی نے آج تک شکایت نہیں کی کہ انہیں کوئی دشواری پیش آئی ہو یا پھر یہ کہ انہوں نے بل بجلی کا دیا ہو اور پیسے گیس کے بل میں چلے گئے ہوں۔سوال یہ ہے کہ ہم نے اس پٹواری قسم کی سوچ سے کب جان چھڑانی ہے جو کمپیوٹر کے آنے پر بھی یہی شور مچاتا تھا۔ آج اسی پٹواری کو ایک چھوٹی سی موبائل ایپ میں بند کر دیا ہے اور میری اطلاع کے مطابق اب کم از کم پنجاب میں فرد کے حصول کے لئے پٹواری کی جیب گرم نہیں کرنا پڑتی اور نہ ہی اس کی منتیں کی جاتی ہیں۔ اسی طرح بہت سے ایسے کام ہیں جو چند سال قبل تک ناممکن نظر آتے تھے لیکن وہ مکمل ہوئے۔ پنجاب میں تو آن لائن چالان جمع کرانے کی سروس بھی شروع کر دی گئی ہے۔ سوال یہ نہیں ہے کہ آن لائن ووٹنگ ہو سکتی ہے یا نہیں سوال یہ ہے کہ کچھ لوگ آن لائن ووٹنگ کے خلاف کیوں ہیں۔ شاید اسی لئے کہ انہیں یقین ہے کہ اس طرح وہ دھاندلی نہیں کر سکیں گے اور جس طرح ایک ووٹر کو وہ بریانی کی پلیٹ سے یا ڈرا دھمکا کر ووٹ ڈلواتے ہیں ‘ سمندر پار پاکستانی ان کی اس دست برد سے آزاد ہوں گے۔ ایسا بھی نہیں کہ پاکستان میں آن لائن ووٹنگ کا محفوظ سافٹ ویئر بنایا نہیں جا سکتا۔ حکومت میں ایسے بہت سے ذہین دماغ موجود ہیں جو انفارمیشن ٹیکنالوجی کی افادیت کو سمجھتے ہیں اور اسے عملی زندگی میں استعمال کرنے کے لئے اہم کردارادا کر چکے ہیں۔ اگر وفاق کے پاس ایسے دماغ نہیں تو وہ کے پی کے یا پنجاب سے یہ خدمات حاصل کر سکتے ہیں۔پنجاب آئی ٹی بورڈ تو پہلے ہی تمام صوبوں کو ای سروسز کی خدمات دے رہا ہے تو اس کے لئے یہ کام چنداں مشکل نہ ہو گا۔اس لئے کم از کم یہ سوال پیدا نہیں ہوتا کہ کامیابی سے یہ کام کیا نہیں جا سکتا۔ اس وقت چودہ ممالک میں انٹرنیٹ سے ووٹنگ کا نظام کامیابی سے چل رہا ہے۔کینیڈا‘ فرانس‘ ایسٹونیا اور سوئٹزر لینڈ کئی انتخابات انٹرنیٹ ووٹنگ کے ذریعے کرا چکے ہیں۔ دس دیگر ممالک میں بھی اس سے ضرورت کے تحت استفادہ کیا جا رہا ہے۔ یہ نیا اور مشکل کام ضرور ہے لیکن کیا ہر منفرد اور نیا کام مشکل نہیں ہوتا؟ جہاں تک دھاندلی کے الزام کی بات ہے تو یہ طے شدہ امر ہے کہ ہارنے والا زیادہ تر یہی الزام لگاتا ہے۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ مینوئل سسٹم کے برعکس الیکٹرانک ووٹنگ سے ہونے والی کسی دھاندلی کو ٹریس کرنا آسان اور قابل عمل ہے۔
ہم بھی کیا لوگ ہیں کہ جب عدالتیں‘ ہسپتال‘ پولیس سٹیشن‘ بینک‘ تعلیمی ادارے‘ شاپنگ سٹورز، ایئر‘ بس اور ریل ٹکٹنگ‘ ٹرانسپورٹ‘ایگری کلچر‘ٹیکس فائلنگ سب کچھ آن لائن ہو چکا ہے اور جب ہم ریسٹورنٹ سے پیزا منگوانے سے لے کرچین سے جہاز وں کے پرزے منگوانے تک ہر کام کمپیوٹر اور موبائل کی مدد سے کر رہے ہیں وہاں پاکستان کو سالانہ بیس ارب ڈالر بھجوانے والے ستر لاکھ اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دلانے کے لئے ایک محفوظ سافٹ ویئر بنانے کی بات آتی ہے تو آئیں بائیں شائیں کرنے او ر بھاگنے کیلئے چور راستہ تلاش کرنے لگتے ہیں۔