اسلام آباد میں گزشتہ دنوں ایک ایسا ولایتی تندور سامنے آیا جسے انجینئرنگ کے ایک معروف تعلیمی ادارے سے فارغ التحصیل طلبا چلا رہے تھے۔ یہ طلبا غیر معمولی نمبر لے کر پاس ہوئے تھے اس کے باوجود معقول روزگار حاصل کرنے میں ناکام رہے۔ مجبوراً انہوں نے ایک تندور لگانے کا فیصلہ کیا اور یوں ان کی انجینئرنگ کی مہارتیں نان روٹیاں لگانے میں صرف ہو گئیں۔ یہ اس قدر بڑا المیہ ہے جس کا اندازہ وہی انجینئرز کر سکتے ہیں جن کے ماں باپ نے اپنا پیٹ کاٹ کر اور یہ سوچ کر ان کے تعلیمی اخراجات برداشت کئے کہ وہ ایک دن نہ صرف ملکی تعمیر و ترقی میں معاون ثابت ہوں گے بلکہ بہترین روزگار بھی حاصل کر سکیں گے۔
اسے بد قسمتی کہہ لیں کہ اس وقت پاکستان میں پچاس ہزار سے زائد انجینئرز بے روزگار پھر رہے ہیں۔ یہ ایک ایسے ملک کا حال ہے جہاں آج کی خبر کے مطابق پاک ایران سرحد کے قریب تیل کے اس قدر بڑے ذخائر موجود ہیں جو کویت کے تیل کے کل ذخائر سے بھی کہیں زیادہ ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس قدر اہم قدرتی ذخائر اور صلاحیتوں سے مالا مال ملک میں انجینئرنگ کا شعبہ کیوں زوال پذیر ہے۔ یہاں پالیسیاں کون بناتا ہے‘ کیا سوچ کر بناتا ہے اور ان پالیسیوں سے فائدہ کس کو پہنچتا ہے۔ اگر پالیسیاں درست بنائی جاتی ہیں تو اتنی بڑی تعداد میں انجینئرز بے روزگار کیوں ہوتے ہیں۔ اس کا ایک سوال تو مجھے گزشتہ دنوں ایک ٹی وی پروگرام کے انٹرویو سے ہوا جس میں انجینئر جاوید سلیم قریشی نے یہ انکشاف کر کے حیران کر دیا کہ پاکستان شاید دنیا کا واحد ملک ہے جہاں انجینئرز کو انجینئرنگ سے متعلقہ پالیسیاں بناتے وقت اعتماد میں لیا جاتا ہے نہ ہی وہ پالیسی سازی کا حصہ ہوتے ہیں۔ آج تک انجینئرنگ کی پالیسیاں وہ لوگ بناتے چلے آ رہے ہیں جو اس شعبے کی ابجد سے ہی واقف نہیں۔ پاکستان انجینئرنگ کونسل 1976ء میں بنی۔ آج کوئی انجینئر کہیں نوکری کے لئے اپلائی کرتا ہے تو متعلقہ ادارہ یہ دیکھتا ہے کہ اس انجینئرکی پاکستان انجینئرنگ کونسل میں ممبرشپ ہے یا نہیں۔ پاکستان انجینئرنگ کونسل کے چیئرمین جاوید سلیم کا یہ انکشاف حیران کن تھا کہ پاکستان میں بہت سے انجینئرنگ کے ایسے منصوبے اور ادارے ہیں جس کے سربراہان کا انجینئرنگ سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔ یہ سب سفارشوں اور پرچیوں کے باعث ان عہدوں تک پہنچے اور ان کی نا تجربہ کاری اور کم علمی بالآخر انجینئرز کے زوال کا باعث بنی۔ شاید یہی وہ بنیادی وجہ ہے جس کے باعث پاکستان میں انجینئرز کا مستقبل تاریک ہو رہا ہے اور صرف انجینئرز ہی نہیں بلکہ انجینئرنگ کا شعبہ بھی زوال پذیر ہے۔ انجینئرنگ کی اہمیت کا اندازہ آپ اس امر سے لگا لیجئے کہ ایک سڑک بننے سے لے کر پل تک اور ایک پل سے لے کر ڈیم تک‘ ہر جگہ بنیادی کردار انجینئرز اور انجینئرنگ کے شعبے کا ہی ہوتا ہے۔ انجینئرنگ کا شعبہ جس قدر مضبوط ہو گا‘ انجینئرز جس قدر تجربہ کار اور اعلیٰ تعلیم یافتہ ہوں گے‘ اسی قدر آپ کو ان کا کام بھی شاندار دکھائی دے گا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اس ملک میں انجینئرز کو وہ سب سہولتیں حاصل ہیں‘ جو جدید ممالک میں دی جاتی ہیں‘ اور کیا یہ سہولتیں دیے بغیر ہم ملک میں کوئی بڑی تبدیلی لا سکتے ہیں؟ اس بارے میں جاوید صاحب کا کہنا تھا کہ پاکستان انجینئرنگ کونسل کے پلیٹ فارم سے انہوں نے انجینئرز کے لئے کئی اقدامات کئے ہیں۔ مثلاً یہ کہ ملک میں پہلی مرتبہ انجینئرز کی آن لائن رجسٹریشن کے لئے پورٹل قائم کیا گیا ہے۔ اس سے قبل یہ رجسٹریشن مینوئل طریقہ کار سے ہوتی تھی۔ ایک انجینئر کو رجسٹریشن کے لئے چار چار سال انتظار کرنا پڑتا تھا۔ رجسٹریشن اس لئے بھی ضروری تھی کہ اس کے بغیر انجینئر پروجیکٹس پر کام نہیں کر سکتا تھا۔ انجینئر اس وقت تک کسی جاب پر نہیں جا سکتے جب تک کہ وہ اپنے آپ کو کسی مستند پلیٹ فارم سے رجسٹر نہیں کراتے۔ اسی طرح سرکاری تعمیراتی منصوبوں کے لئے حکومت پاکستان انجینئرنگ کونسل سے رابطہ کرتی ہے‘ اور یہ کونسل ان تجربہ کار اور رجسٹرڈ انجینئرز کے ذریعے ان منصوبوں کی تکمیل میں اپنا کردار ادا کرتی ہے؛ چنانچہ نئے طریقہ کار کے مطابق انجینئر انٹرنیٹ کے ذریعے چند منٹوں میں اپنی رجسٹریشن کروا سکتا ہے۔ اس کی شرط صرف یہ ہے کہ انجینئر ایچ ای سی کے مستند تعلیمی ادارے سے انجینئرنگ کی چار سالہ ڈگری رکھتا ہو۔ آن لائن رجسٹریشن کی وجہ سے اب لاکھوں انجینئرز کونسل سے وابستہ ہو رہے ہیں۔ اس میں رجسٹرڈ اور پروفیشنل انجینئرز کی دو کیٹیگریز بنائی گئی ہیں۔ پاکستان انجینئرنگ کونسل نے انجینئرز کے لئے رعایتی کارڈز متعارف کروائے ہیں جس کے ذریعے وہ ملک بھر میں رعایتی خریداری کر سکتے ہیں۔ پارلیمنٹ کے ایکٹ کے مطابق پاکستان انجینئرنگ کونسل ملک بھر کے تعلیمی اداروں میں انجینئرنگ کے کورسز اور نصاب کو پاس کرنے کی ذمہ داری بھی ادا کرتا ہے۔ اسی طرح انجینئرز کی گروتھ اور انجینئرنگ کی ڈویلپمنٹ کے لئے پی ای سی حکومت کے لئے ایک تھنک ٹینک کا بھی کردار ادا کرتا ہے؛ تاہم بدقسمتی سے انجینئر اب تک بیسویں گریڈ تک محدود ہیں اور انہیں اکیسواں اور بائیسواں گریڈ نہیں دیا جاتا‘ جس کے باعث یہ پالیسی سازی میں اپنا کردار ادا نہیں کر پاتے۔ ایک غیر تکنیکی شخص کو تجربہ کار انجینئرز کی ٹیم کا سربراہ بنانے سے مسائل مزید گمبھیر ہو رہے ہیں۔ آج پوری دنیا میں سی پیک کا چرچا ہے۔ پاکستان اس ضمن میں اہم ترین کردار ادا کرنے جا رہا ہے۔ سی پیک بنیادی طور پر تعمیری منصوبہ ہے جو سراسر تکنیکی ماہرین اور انجینئرز کا مرہون منت ہے۔ جاوید سلیم قریشی کا کہنا تھا کہ سی پیک چھیالیس ارب ڈالر کا منصوبہ تھا‘ جس میں سے چھتیس ارب ڈالر انرجی اور دس بلین ڈالر انفراسٹرکچر سے متعلق تھا۔ انرجی کے پراجیکٹ میں بھی سول ورکس موجود تھے جن میں پاور ہائوسز کی تعمیر شامل تھی۔ اس پراجیکٹ میں بھی زیادہ تعداد پاکستانی انجینئرز کی ہے‘ جو سی پیک جیسے بڑے منصوبے میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ لوڈ شیڈنگ اور پانی کے مسائل پر پاکستان انجینئرنگ کونسل نے ایک واٹر پالیسی بنائی جو سپریم کورٹ کو بھیجی گئی‘ جس پر سپریم کورٹ نے بھاشا ڈیم فنڈ کے قیام کا قدم اٹھایا۔ اسی طرح جاوید قریشی نے ملک بھر میں انجینئرز کی حاضری کے لئے بائیو میٹرک نظام متعارف کرایا جس کی وجہ سے صرف حقیقی انجینئرز ہی منصوبوں کا حصہ بن سکتے ہیں۔ انجینئرز کا ایک بڑا مسئلہ تعلیم کے فوری بعد انٹرن شپ کا ہے۔ جس کے ذریعے وہ تجربہ حاصل کرتے ہیں۔ جاوید صاحب نے نئے انجینئرز کے لئے انٹرن شپ لازمی قرار دلوانے کے لئے بھی کاوشیں کیں جن کی وجہ سے اب ہر انجینئر تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد کسی ادارے میں بآسانی انٹرن شپ حاصل کر لیتا ہے۔
25 جولائی کو عام انتخابات ہوئے۔ ساڑھے پانچ کروڑ سے زائد افراد نے ملک کی تقدیر بدلنے یا اس میں بہتری لانے کی خاطر ووٹ کا حق استعمال کیا۔ خدا کرے عوام کو وہ حقوق ملیں جن کے وہ حقدار ہیں اور جو تمام جدید ممالک میں میسر ہیں۔ یہ حقوق دے کر حکومتیں ان پر کوئی احسان نہیں کرتیں بلکہ اپنا فرض ادا کرتی ہیں۔ 25 جولائی عوام کے حقیقی نمائندوں کے چنائو کا دن تھا۔ ایسا ہی ایک چنائو 12 اگست کو ہو رہا ہے جو پاکستان کے انجینئرز اور انجینئرنگ کے مستقبل کا فیصلہ کرے گا۔ اس دن یہ فیصلہ ہو گا کہ انجینئرز نے پاکستان میں بیروزگاروں کی فوج میں شامل ہونا ہے یا پھر ایک ایسی ورک فورس کا حصہ بننا ہے جو پاکستان کو ری شیپ کر سکتی ہے۔ اگر ہم واقعی تبدیلی چاہتے ہیں تو ہمیں بھی جاوید صاحب کی طرح بننا‘ سوچنا اور انہیں سپورٹ کرنا ہو گا۔ وہ ایک ایسے طبقے کو ان کا مقام دلانے کی کوشش کر رہے ہیں‘ جدید ممالک میں جنہیں سر آنکھوں پر بٹھایا جاتا ہے۔ لیکن یہاں وہی طبقہ اپنی ڈگریاں اٹھائے جوتیاں گھسیٹنے پر مجبور ہے اور اگر انجینئرز کی یہ حالت ہے تو سوچیں عام لوگوں کا کیا حال ہو گا؛ چنانچہ ہماری دعائیں جاوید صاحب کے ساتھ ہیں‘ وہ انجینئرز کے ان اہم ترین انتخابات میں کامیابی حاصل کریں اور انجینئرز اور انجینئرنگ کی بہتری کے لئے کام کر سکیں۔