چار سال قبل دھرنے کے دوران تحریک انصاف کے انچارج میڈیا سیل اور انتہائی متحرک اور قابل نوجوان چودھری رضوان کا فون آیا۔ کہنے لگے: تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان‘ آپ سے بات کرنا چاہتے ہیں۔ میں تھوڑا سا گھبرا گیا ۔ میری خان صاحب سے اس سے قبل کبھی فون پر بات نہ ہوئی تھی۔ صرف ایک ملاقات ہوئی تھی اور اس بات کو بھی ایک عرصہ بیت گیا تھا۔ یہ ان دنوں کی بات ہے‘ جب انہوں نے تحریک انصاف کی نئی نئی بنیاد رکھی تھی۔ میرے والد اسداللہ غالب نے انہیں لنچ پر مدعو کیا‘ تاکہ ان کی سیاست میں آنے کی وجوہ اور مستقبل کے عزائم جان سکیں۔ میں اس وقت پنجاب یونیورسٹی سے ماسٹرز کر رہا تھا۔ میری ذمہ داری عمران خان صاحب کو ریسیو کرنا تھی۔ ہمارا گھر اس وقت مصطفی ٹائون میں واقعی تھا۔ میں نے خان صاحب کے ساتھ موجود ان کے دوست کو فون پر گھر کا پتہ سمجھایا اور گھر کے باہر ہی ان کا انتظار کرنے لگا۔ میرا خیال تھا کہ بڑی بڑی گاڑیوں کا قافلہ ہو گا اور کسی لینڈ کروزر میں سے خان صاحب باہر آئیں گے۔ یہ جون کا مہینہ تھا۔ سخت گرمی پڑ رہی تھی۔ اس دوران مجھے دور سے ایک سوزوکی کارآتی دکھائی دی۔ میں نے اسے نظر انداز کر دیا۔ میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ خان صاحب ایک چھوٹی سی گاڑی میں تشریف لائیں گے‘ تاہم اس وقت میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب میں نے دیکھا کہ وہ گاڑی گھر کے عین سامنے آ کر رُکی۔ میں آگے بڑھا۔ دیکھا تو گاڑی میں کل دو افراد تھے۔ خان صاحب سفید شلوار قمیص پہنے اورسیاہ چشمہ لگائے ڈرائیونگ کے ساتھ والی سیٹ پر براجمان تھے۔ وہ گاڑی سے باہر نکلے‘ تو ان کے کپڑے پسینے سے شرابور تھے۔ میں نے انہیں سلام کیا اور اندر لے آیا۔ دو گھنٹے کی اس محفل میں انہوں نے تحریک انصاف کے اغراض و مقاصد بیان کئے۔ یہ میری عمران خان سے پہلی اور آخری بالمشافہ ملاقات تھی۔ چار سال قبل جب انہوں نے اسلام آباد میں دھرنا دیاتو ان کا فون آنے پر عجیب سی طمانیت محسوس ہوئی۔ دھرنے کے دوران انہوں نے جس طرح قوم کو جگایا ‘ انہیں شعور دیا‘ میں نے اسی شعور کو اپنے کالموں کے ذریعے قارئین تک پہنچانے کی کوشش کی۔ اس ناچیز کی اس کاوش کی‘ خان صاحب نے جب تحسین کی تو آنکھیں نم ہو گئیں اور دل سے دعا نکلی کہ خدا انہیں اپنے مقصد میں کامیاب کرے۔ گزشتہ روز ان کا خطاب سنا تو ذہن ایک مرتبہ پھر دھرنے میں عوام کے شعور کو جگانے والی تقاریر کی جانب چلا گیا جب وہ روزانہ دو تین مرتبہ خطاب کرتے اور عوام کو بتاتے کہ ان کے مسائل کیا ہیں‘ انہیں بھیڑ بکریوں کی طرح نہیں‘ بلکہ ایک خوددار قوم بن کر زندگی بسر کرنی ہے اور اپنے حقوق کا خیال کرنا ہے۔یہ دھرنا پاکستان کی تاریخ میں یاد رکھا جائے گا کہ اس نے اس سوئی ہوئی قوم کو جگانے میں اہم ترین کردار ادا کیا تھا۔ ملک کے بیشتر عوام نے انہی دنوں اپنا ذہن بدل لیا تھا ۔اس سے پہلے کبھی کسی لیڈر نے انہیں اس طرح جگانے کی کوشش نہیں کی تھی اور اس لئے نہیں کی تھی‘ کیونکہ انہیں معلوم تھا ‘اگر عوام با شعور ہو گئے تو پھر وہ لیڈروں سے ٹیکس کا حساب مانگیں گے اور پوچھیں گے کہ ان کے ٹیکسوں سے بنایا گیا‘ بجٹ کہاں خرچ کیا جاتا ہے؟ وہ پوچھیں گے کہ غریب عوام کے ٹیکسوں سے عیاشیاں اور بیرونی دورے کیوں کر رہے ہو؟ پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں حکمرانوں کا مفاد اسی میں ہوتا ہے کہ عوام ان سے سوال نہ کریں اور چپ چاپ ان کے مظالم برداشت کرتے رہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے اس روایت کو بھی بدل دیا۔یہ بات انہوں نے ہی عوام کو کھل کر سمجھائی کہ حکمران اگر کرپشن کرتے ہیں‘ ٹھاٹ باٹ کی زندگی گزارتے ہیں اور سرکاری وسائل کا ناجائز استعمال کرتے ہیں تو دراصل یہ عوام کے ٹیکس کا پیسہ ہوتا ہے ۔ اس سے قبل عوام کو اتنی سمجھ بوجھ نہ تھی۔ وہ سمجھتے تھے حکمرانوں اور عوام کے درمیان بلند فصیل ہمیشہ حائل رہے گی۔ خان صاحب نے اس فصیل کو خود ہی گرا دیا۔ وزیراعظم کے پہلے خطاب میں ایک بات یہ اچھی بات یہ لگی کہ مدارس کے بچوں کا بھی تعلیم اور ترقی پر اتنا ہی حق ہے‘ جتنا کہ ایلیٹ کلاس کے بچوں کا۔ ہمارے علما حضرا ت کو بھی چاہیے کہ وہ حکومت کے ساتھ مل کر بیٹھیں اور اپنے اپنے مدارس میں معیاری دنیاوی تعلیم کا اہتمام کریں۔اب میں آپ کے ساتھ وہ جذبات رکھ رہا ہوں‘ جو اوورسیز پاکستانیوں میں سے ایک دردمند پاکستانی اعجاز احمد کے ہیں‘ جو ورجینیا میں مقیم ہیں اور کروڑوں پاکستانیوں کی طرح پاکستان کو بدلتا دیکھنے کی آرزو لگائے بیٹھے ہیں۔یہ ان دیار غیر میں بسنے والے پاکستانیوں میں سے ہیں‘ جنہیں غیرممالک میں ہر طرح کی سہولت‘ آرام اور دولت میسر ہے‘ لیکن کوئی نہ کوئی کمی کوئی خلا ایسا ہے‘ جو وہ ہر پل محسوس کرتے ہیں۔انہیں معلوم ہے ‘وہ امریکہ یا برطانیہ میں جتنی بھی ترقی کر جائیں‘ انہیں وہ مقام‘ وہ مرتبہ اور وہ عزت نہیں مل سکتی‘ جو وطن عزیز میں ملتی ہے۔ وہاں وہ جتنا مرضی آگے نکل جائیں ‘انہیں سیکنڈ کلاس شہری کے طور پر ہی لیا جائے گا؛ چنانچہ وزیراعظم عمران خان کی تقریر نے جہاں لاکھوں اوورسیز پاکستانیوں کے زخموں پر مرہم رکھا ‘وہاں 22 کروڑ پاکستانیوں کو بھی جینے کی نئی امنگ دی۔اعجاز صاحب کہتے ہیں ''عمران خان کی تقریر سن کر مجھے معلوم ہوا کہ میرے اتنے زیادہ مسائل ہیں۔ جو پہلے تو کسی لیڈر نے بتائے ہی نہیں تھے‘ لیکن محسوس ضرور ہوتے تھے۔میں تو رو رہا ہوں کہ اتنے مسئلے کیسے حل ہوں گے‘ لیکن امید اس بات پر بندھتی ہے کہ نئے وزیراعظم کو ان مسائل کے حل کا ادراک بھی ہے۔ دعا کرتا ہوں کہ اللہ سبحان و تعالیٰ اس لیڈر کو زندگی دے کہ ان کو حل کر سکے‘‘۔
عمران خان کے وزیراعظم بننے سے کئی تبدیلیاں متوقع ہیں‘ مثلاً: یہ کہ عوام میں ورزش کا شوق پیدا ہو گا‘جس سے ان کی صحت بہتر ہو گی۔ صحت اچھی ہو گی تو وہ کم بیمار ہوں گے اور زیادہ کام کر سکیں گے۔زیادہ کام کریں گے ‘تو ملک کے لئے کارآمد ثابت ہوں گے۔ وزیراعظم بننے کے بعد اگلی صبح ان کی ورزش والی جو بلیک ٹی شرٹ اور ٹرائوزر والی تصاویر سوشل میڈیا پر آئیں ‘وہ انتہائی جاذب نظر تھیں۔ پاکستانی خوش قسمت قوم ہے ‘جسے دنیا کا سمارٹ ترین وزیراعظم ملا ہے ‘جو سادہ بھی ہے اور انتہائی قابل بھی ۔ جسے سری پائے اور حلوہ پوڑیاں کھا کر اپنی صحت خراب کرنے کا شوق ہے‘ نہ ہی وہ اپنے معدے کے ہاتھوں مجبور ہو کر فیصلے کرتا ہے۔ جسے مہنگی گاڑیوں ‘ بیرونی دوروں اور مہنگی رہائش کی ستائش اور تمنا نہیں‘ جس کی تان صرف یہاں آ کر ٹوٹتی ہے کہ اس ملک اور عوام کو کیسے مسائل سے نکالنا ہے ۔ عوام کو بھی اپنے لیڈر کی طرح سوچنا اور بننا ہو گا۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ وزیراعظم عمران خان توسادگی اپنا لیں‘ وہ تو اپنے پیٹ پر پتھر باندھ لیں ‘لیکن عوام اصراف کی زندگی گزارتے رہیںاور یہ توقع بھی رکھیں کہ یہ ملک خوش حال یا تبدیل ہو جائے گا۔ تبدیلی گھر سے شروع ہوتی ہے‘ جو بندہ پھلوں کا ٹھیلا لگاتا ہے‘ اسے بھی دیانتداری اپنانا ہو گی اور جو سیمنٹ کی فیکٹری کا مالک ہے‘ اسے بھی انہی اصولوں کو اپنانا ہو گا۔ وزیراعظم عمران خان نے خطاب میں برآمدات بڑھانے پر زور دیا۔ اس وقت پوری دنیا میں اگر کوئی شعبہ معیشت کا پہیہ گھما رہا ہے‘ تو وہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کا شعبہ ہے۔ اگر حکومت اس شعبے کو اہمیت دے‘ جس طرح کہ بھارت دے رہا ہے ‘تو کوئی شک نہیں کہ پاکستان کی برآمدات بھی تیزی سے بڑھ جائیں گی۔ بھارت کی چند آئی ٹی کمپنیاں ایسی ہیں ‘جن میں سے ہر ایک کی کل مالیت پاکستان کے سالانہ بجٹ سے بھی زیادہ ہے‘اسی طرح بھارت کی کل آئی ٹی برآمدات 137بلین ڈالرز ‘جبکہ پاکستان کی ایک بلین ڈالرز سے بھی کم ہیں؛چنانچہ ڈاکٹر عشرت حسین کے ذریعے ‘اگر انفارمیشن ٹیکنالوجی کی ایک ٹاسک فورس بنا دی جائے ‘جو اس امر کا جائزہ لے کہ پاکستان آئی ٹی کے میدان میں کیسے برآمدات بڑھا سکتا ہے ‘تو وزیراعظم عمران خان کو قومی اہداف حاصل کرنے میں بہت زیادہ آسانی ہو جائے گی ۔