گزشتہ دنوں ایک دوست کو فون کیا تو وہ درد سے کراہ رہا تھا۔ پوچھنے پر بولا: کندھے اور گردن میں بل پڑا ہے۔ درد اتنا شدید ہے کہ ہلا تک نہیں جاتا۔ کہنے لگا: ڈاکٹر کے پاس جانا چاہتا ہوں لیکن گاڑی تک جانے کی ہمت نہیں۔ گردن تک ہلانا مشکل ہے۔ میں نے کہا: معمولی سی بات پر ڈاکٹر کے پاس جانے کی کیا ضرورت ہے۔ وہ حیرانی سے بولا: تو پھر کیا کروں۔ درد سے چلاتا رہوں۔ مجھے اس کی بات سن کر ترس بھی آیا اور ہنسی بھی۔ میں نے کہا: میں حل بتاتا ہوں‘ پہلے یہ بتائو کہ یہ درد ہوا کیسے۔ کہنے لگا: معلوم نہیں‘ میں اس دن حسب معمول دفتر سے واپس آیا۔ شام کو گھر والوں کے ساتھ کھانا کھایا‘ کچھ دیر موبائل سے کھیلا اور رات گئے سو گیا۔ صبح اٹھا تو کندھا فریز ہو چکا تھا۔ میں نے کہا: سونے سے قبل کتنی دیر موبائل استعمال کیا۔ بولا: یہی کوئی ایک دو گھنٹے۔ میں نے پوچھا: کس پوزیشن میں۔ بولا: بستر پر لیٹ کر۔ میں نے کہا: تمہیں یہ تکلیف موبائل فون کی وجہ سے پہنچی ہے اور تمہارا علاج بھی یہی موبائل فون کرے گا۔ وہ حیرانی سے بولا: موبائل فون کیوں مجھے تکلیف پہنچائے گا؟ میں نے کہا: میرے بھائی ہم لوگ ایک عجیب مکینیکل زندگی کے عادی ہو رہے ہیں۔ صبح اٹھتے ہیں منہ بعد میں دھوتے ہیں‘ پہلے موبائل فون دیکھتے ہیں کوئی نوٹیفکیشن‘ کوئی واٹس ایپ پیغام تو نہیں آیا۔ رات کو فیس بک پر جو پوسٹ کی تھی اس پر کتنے لائیکس آئے‘ کس کس نے کیا کمنٹ کئے۔ پھر چند ایک کو جواب بھی وہیں بستر پر ہی دیتے ہیں۔ آدھا گھنٹہ یونہی گزر جاتا ہے۔ اُدھر سے آواز آتی ہے دفتر سے دیر ہو رہی ہے‘ تیار کیوں نہیں ہوتے؟ جلدی جلدی موبائل کو چارجنگ پر لگا کر تیار ہوتے ہیں۔ دفتر پہنچتے ہیں۔ ایک مرتبہ پھر لیپ ٹاپ‘ کمپیوٹر اور موبائل فون ہمارے سامنے ہوتے ہیں۔ لفٹ میں داخل ہوتے ہیں تو موبائل نکال لیتے ہیں۔ اپنی سیٹ پر پہنچتے ہیں‘ کمپیوٹر پر بیٹھ جاتے ہیں۔ بیٹھنے کی درست پوزیشن کیا ہونی چاہیے‘ ہماری کرسی کیسی ہونی چاہیے‘ کی بورڈ اور ہمارے ہاتھوں کی اونچائی اور آپس کا فاصلہ کس زاویے پر ہونا چاہیے اس کی ہمیں پروا ہوتی ہے نہ فکر۔ موبائل سامنے رکھتے ہیں اور کام شروع کر دیتے ہیں۔ ساتھ ساتھ موبائل فون سے بھی کھیلتے جاتے ہیں۔ درمیان میں کوئی دوست یا ملنے والا آ جائے تو اس کے سامنے بھی ایک ہاتھ سے موبائل پر انگلیاں چلاتے رہتے ہیں۔ لنچ کے لئے جاتے ہیں‘ وہاں بھی موبائل فون جان نہیں چھوڑتا۔ شام کو تھکے ہارے گھر پہنچتے ہیں تو تھکن اتارنے کے لئے موبائل فون کا سہارا لے لیتے ہیں۔ یہ بھی نہیں سوچتے کہ یہ آنکھوں‘ دماغ اور اعصاب پر کتنی تیز رفتاری اور خفیہ طریقے سے حملہ آ ور ہو رہا ہے۔ فیس بک‘ ٹویٹر‘ انسٹا گرام‘ یو ٹیوب ہر جگہ اکائونٹ بنانے بھی ضروری ہیں۔ یہ سوچ کر کہ دنیا سے پیچھے نہ رہ جائیں‘ لوگ یہ نہ کہیں کہ تم تو ٹویٹر پر ایکٹو نہیں ہو۔ صبح سے تم نے صرف ایک پوسٹ کی ہے‘ ہر وقت موبائل فون کی گھاس میں گھسے رہتے ہیں۔ رات کو سونے لگتے ہیں تو ایک مرتبہ پھر یہ سوچ کر اٹھا لیتے ہیں کہ نظر ڈال لیں‘ کہیں کوئی اہم پوسٹ آنکھوں سے اوجھل نہ رہ جائے۔ اس طرح سارا دن گردن اور کندھے کے مسل‘ بازو‘ آنکھیں اور دماغ کس قدر دبائو کا شکار ہوتے ہیں‘ یہ اس وقت پتہ چلتا ہے جب بے خوابی کی شکایت بڑھنے لگتی ہے یا پھر گردن‘ کمر یا کندھے میں تکلیف برداشت سے باہر ہو جاتی ہے۔ میرا دوست چیختے ہوئے بولا: لیکچر نہ دو‘ حل بتائو یہ سب تو مجھے بھی پتہ ہے۔ میں نے کہا: اس کے دو حل ہیں۔ ایک تو یہ کہ تم کسی کلینک یا ہسپتال جائو‘ ڈاکٹر کی بھاری فیس بھرو‘ وہ تمہیں درد کا ٹیکا لگائے گا اور ساتھ میں دوائیاں لکھ دے گا یا پھر کسی فزیو تھراپسٹ کے پاس ریفر کر دے گا۔ وہ کم از کم ایک ہفتے تمہیں تھراپی کے لئے بلائے گا اس دوران آٹھ دس ہزار تمہاری جیب سے آرام سے نکال لے گا۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ تم دوبارہ موبائل فون اٹھا لو اور اس کا وہ استعمال کرو جو کرنا چاہیے۔ میں نے کہا: تم یو ٹیوب پر روزانہ اِدھر اُدھر کی ویڈیوز دیکھتے ہو لیکن آج تمہیں یہ معلوم ہو گا کہ اسی یو ٹیوب پر تمہارے درجنوں مسائل کا علاج گھر بیٹھے ہو سکتا ہے‘ لیکن اکثریت اس سے ناواقف ہے کیونکہ ہم سب چسکے اور مصالحہ دار ویڈیوز دیکھنے میں لگے ہیں۔ میں نے کہا: تم یو ٹیوب پر صرف اتنا لکھو۔ فریزڈ شولڈر۔ پھر دیکھو کیسا چمکتار ہوتا ہے۔ تمہارے سامنے سینکڑوں ایسی ویڈیوز کھل جائیں گی‘ جن میں کندھے کے درد کے ریلیف کے لئے ایسے ٹوٹکے بتائے گئے ہوں گے‘ جنہیں کر کے تم چند منٹ کے اندر تکلیف سے آزاد ہو جائو گے۔ یہ کہہ کر میں نے فون بند کر دیا۔ اگلے روز اس کا فون آیا۔ وہ شکریہ ادا کرتے ہوئے بولا: یار ان ویڈیوز میں تو جادو تھا۔ ڈاکٹر ایلن مینڈل کی ایک ویڈیو دیکھی اور صرف پانچ منٹ وہ ایکسرسائز کی تو درد ایسا غائب ہوا جیسے اس کا وجود ہی نہ تھا۔ میں نے اپنے دوست کو کہا کہ وہ آگے بھی اس طرح کی چیزیں شیئر کر دیا کرے تاکہ لوگوں کو فائدہ ہو اور وہ انٹرنیٹ کے مثبت استعمال کی طرف آ سکیں۔
موبائل فون کلچر کی وجہ سے بے خوابی کا مرض بھی عام ہو رہا ہے۔ لوگ گیارہ بجے سونے کیلئے لیٹتے ہیں لیکن تین بجے سے پہلے نیند نہیں آتی۔ جو لوگ اس مقصد کے لئے ڈپریشن یا نیند کی گولیاں کھاتے ہیں وہ ایک نئے عذاب میں پھنس جاتے ہیں کیونکہ جسم اور دماغ ان گولیوں کا عادی ہو جاتا ہے۔ جس دن گولی نہ کھائی جائے اس روز نیند آتی ہی نہیں۔ جسم بے چینی کا شکار رہتا ہے اور وسوسے سوچوں کے گرد گھیرا ڈالنے لگتے ہیں۔ ایسے لوگوں کا بہترین علاج کیلا ہے۔ ایک کیلا ہر رات کو ان کا وہ علاج کر سکتا ہے جو بڑے بڑے ڈاکٹر بھی نہیں کر سکتے۔ جس کیلے کو ہم ایک معمولی اور غریب پھل سمجھتے ہیں اور جسے کھا کر اس کے چھلکے کو ہم بے کار سمجھ کر پھینک دیتے ہیں وہ ہمیں اتنی اچھی نیند دلا سکتا ہے جو ہماری سوچ سے بھی باہر ہے۔ کیلے کا رات کے وقت استعمال اتنہائی کارآمد اور فائدہ مند ہے۔ جو لوگ اس کی افادیت سے واقف ہیں وہ کوئی رات کیلے کے بغیر نہیں گزارتے۔ کیلے میں پوٹاشیم جبکہ اس کے چھلکے میں میگنیشم بڑی مقدار میں موجود ہوتی ہے۔ پوٹاشیم اور میگنیشم اعصاب کو ریلیکس کرنے کا ایک بہترین قدرتی ذریعہ ہیں۔ ان کے استعمال سے دماغ سے ایک ہارمون سیریٹونائن خارج ہوتا ہے جو دماغ کے اعصابی نظام کو ریلیکس کرتا اور نیند لانے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ رات کو سونے سے قبل ایک کیلا چھلکے سمیت اچھی طرح دھوئیں۔ اسے دو حصوں میں کاٹیں۔ کیتلی میں دو کپ پانی ڈالیں اور اس میں کیلے کے ٹکڑے ڈال کر دس منٹ ابلنے دیں۔ اس کے بعد اس پانی کو چھاننی سے چھان کر کپ میں ڈال لیں۔ اس میں ایک چٹکی دار چینی کا پائوڈر اور چند قطرے شہد ملا لیں اور بستر پر جانے سے آدھ گھنٹہ قبل پی لیں۔ اس دوران خدا کا واسطہ ہے‘ موبائل فون کو ہاتھ مت لگائیں‘ اس پر چار حرف بھیجیں‘ اسے سائلنٹ پر کر دیں اور دس فٹ دور رکھ کر سونے کے لئے لیٹ جائیں۔ آپ کو ایسی نیند آئے گی جیسے چھ ماہ کا بچہ دنیا و ما فیہا سے بے خبر سوتا ہے۔
ٹیکنالوجی کی اس دنیا میں جہاں بہت سے فائدے ہیں وہاں اس کے زیادہ اور منفی استعمال سے صحت پر نقصانات بھی مرتب ہو رہے ہیں۔ وہی فیس بک اور یو ٹیوب جن پر صرف پانچ سات منٹ پر مشتمل اچھی خاصی مفید ویڈیوز موجود ہیں‘ ہم انہیں چھوڑ کر گھنٹوں بے کار چیزیں دیکھتے رہتے ہیں۔ اس سے کہیں بہتر ہے کہ آپ رات کو سونے سے قبل کوئی کتاب پڑھ لیں‘ اس سے آپ کو نیند جلد آ جائے گی لیکن موبائل آپ کی نیند‘ آپ کا چین اور آپ کا سکون یوں لے اُڑے گا کہ آپ خشکی پر موجود زندہ مچھلی کی طرح تڑپتے رہیں گے اور میرے دوست کی طرح کراہ رہے ہوں گے کہ ہائے گردن میں بل پڑ گیا‘ ہائے شولڈر فریز ہو گیا!