میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ ایک متوسط اخباری کارکن کا بیٹا بھی آئی ٹی یونیورسٹی میں نا صرف مفت تعلیم حاصل کر کے گولڈ میڈل لے سکتا ہے بلکہ اس کو فوری پرکشش نوکری بھی مل سکتی ہے‘ اور وہ امریکہ میں سکالرشپ پر اعلیٰ تعلیم کیلئے اپلائی کر سکتا ہے۔ عمار احمد کی یہ حیران کن کامیابی مجھے ایسے وقت میں معلوم ہوئی جب میرے سامنے ٹی وی پر یہ خبر چل رہی ہے کہ سینکڑوں پی ایچ ڈی مرد و خواتین ڈاکٹرز نے بیروزگاری سے تنگ آ کر بنی گالہ میں سڑک بند کر دی ہے اور جب ملک کی تمام سرکاری یونیورسٹیاں زوال کا شکار ہیں‘ کسی کے کیمپس بند ہو رہے ہیں‘ کوئی اپنے طالب علموں کو ڈگریاں جاری نہیں کر رہی‘ کسی یونیورسٹی کا کیمپس منسوخ ہونے پر طلبا آئے روز کینال روڈ بند کر رہے ہیں‘ حتیٰ کہ سینکڑوں ایکڑ اراضی پر بنی ایک یونیورسٹی میں بھی آئے روز طلبا گروپوں کے تصادم یونیورسٹی کا معیار کھول کر دکھا دیتے ہیں۔ ان میں بیروزگار پیدا کرنے کی مشینیں لگی ہوئی ہیں جو یہ تک دیکھنے کی زحمت نہیں کرتیں کہ وہ جو پروگرام کروا رہی ہیں ان کی مانگ ہے بھی یا نہیں۔ افسوس اس بات پر بھی ہے کہ انجینئرنگ کی ایک یونیورسٹی بھی پہلے جیسی نہیں رہی۔ میرے ایک عزیز نے وہاں ایک ایسا شاندار پروجیکٹ کیا جو بیرون ملک کیا جاتا تو اسے نوبل انعام مل چکا ہوتا۔ اس نے آئی ٹرپل ای کے سالانہ عالمی سائنسی مقابلے میں دنیا بھر میں اول پوزیشن حاصل کی۔ اس نے سیڑھیوں پر چڑھنے اور اترنے والی الیکٹرانک سنسرز سے چلنے والی ویل چیئر بنائی جو بالخصوص ترقی پذیر ممالک میں کروڑوں معذور لوگوں کے کام آ سکتی ہے۔ کیا آپ جانتے ہیں وہ ویل چیئر اس وقت کہاں ہے؟ وہ اس وقت اس یونیورسٹی کے گودام میں کاٹھ کباڑ کے ڈھیر تلے پڑی ہے کیونکہ یونیورسٹی کے پاس ایسا کوئی نظام‘ دماغ یا فنڈ ہی نہیں جس کے ذریعے وہ اس منصوبے کو مارکیٹ کر سکے‘ جبکہ آئی ٹی یونیورسٹی میں طالب علموں نے ایسے منصوبے مکمل کر لئے ہیں جو واسا سمیت دیگر اداروں میں عوامی مشکلات کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہو رہے ہیں۔ کئی مزید منصوبوں پر کام جاری ہے جن میں سب سے دلچسپ اور اہم دودھ کے معیار اور خالص ہونے کا پتہ دینے والی کم لاگت کی ڈیوائس ہے جو ہر شہری کو دستیاب ہو گی۔
اگر ہم عالمی یونیورسٹیوں کی بات کریں تو پہلے چار نمبروں پر امریکی یونیورسٹیاں ہیں۔ پانچویں سے آٹھویں نمبر پر برطانوی جبکہ گیارہویں نمبر پر سنگاپور کی نین ینگ ٹیکنالوجی یونیورسٹی ہے۔ اسی طرح پندرہویں نمبر پر بھی سنگاپور کی ہی نیشنل یونیورسٹی ہے۔ چین کا پچیسواں نمبر ہے‘ جبکہ جاپان کی یونیورسٹی آف ٹوکیو اٹھائیسویں نمبر پر ہے۔ میں نے گزشتہ قسط میں انڈین انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کا ذکر کیا تھا۔ یہ ایک سو بہترویں نمبر پر ہے۔ دنیا کی پہلی سات سو یونیورسٹیوں میں پاکستان کی ایک بھی یونیورسٹی نہیں۔ اگر پہلی ایک سو یونیورسٹیوں کا جائزہ لیں تو ان میں کثیر تعداد ٹیکنالوجی سے متعلقہ یونیورسٹیوں کی ہے۔ یہ یونیورسٹیاں سالانہ ہزاروں کی تعداد میں ریسرچ پیپر شائع کرتی ہیں۔ اسی تحقیق کی بنیاد پر ایجادات ہوتی ہیں‘ ملکی معیشت کا پہیہ چلتا ہے اور یونیورسٹیوں کی درجہ بندی ہوتی ہے۔ ویسے بھی دنیا بھر میں ٹیچنگ یونیورسٹیوں کی تعداد کم ہو رہی ہے۔ صرف تھیوری پڑھ کر اور رٹے لگا کر نمبر لینے کا اب کوئی فائدہ نہیں۔ پاکستان میں جو بیروزگاروں کی بڑی تعداد نظر آتی ہے‘ اس کی ایک وجہ ان کا تحقیقی کام نہ ہونا ہے۔ آج کے دور میں صرف ڈگری کی بنیاد پر آپ کو دنیا میں کہیں بھی روزگار نہیں مل سکتا۔ آپ جتنا مرضی اچھا سی وی بنا لیں جب تک اس میں آپ کے پروجیکٹس اور معیاری ریسرچ پیپرز کا ذکر نہیں ہو گا‘ یہ کاروباری کمپنیوں کی دلچسپی نہیں حاصل کر سکیں گے۔ ویسے بھی دنیا میں کئی شعبے آپس میں اکٹھے ہو رہے ہیں۔ ایسے ماہرین کی مانگ زیادہ ہے جو ایک سے زیادہ شعبوں میں مہارت رکھتے ہوں۔ مصنوعی ذہانت کی حامل ٹیکنالوجی بھی تیزی سے فروغ پا رہی ہے۔ آئندہ چند برسوں میں آپ کو پاکستان میں بھی کئی اداروں میں استقبالیہ پر انسانوں کی بجائے روبوٹ نظر آئیں گے۔ ایسا ہی ایک روبوٹ ارفع سافٹ ویئر پارک میں بھی موجود ہے جو لوگوں کی خود کار انداز میں رہنمائی کرتا ہے۔ اسی طرح اسلام آباد میں قائم نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے طالب علم بھی ٹیکنالوجی کی نت نئی ڈیوائسز بنا رہے ہیں۔ میں نے یہاں کے جتنے طالب علموں کے بارے میں سنا‘ سب کے سب بہت اچھے اداروں میں جاب کر رہے ہیں۔ یہاں طالب علموں کو مختلف ممالک میں تعلیمی دوروں پر بھی بھیجا جاتا ہے‘ جہاں وہ عملی طور پر اپنی تعلیمی مہارت کا استعمال کر سکتے ہیں۔
وزیر اعظم ہائوس میں جو بھی یونیورسٹی قائم کی جائے‘ اس میں تحقیق کو اوّلین اہمیت دی جانی چاہیے۔ معیاری تحقیقی مقالہ جات مقامی اور عالمی توجہ کے حامل ہوں تو اس سے نا صرف متعلقہ طالب علم کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے بلکہ یونیورسٹی کے ساتھ ساتھ ملک کا نام بھی عالمی سطح پر اُجاگر ہوتا ہے۔ آئی ٹی یونیورسٹی کی فیکلٹی اب تک تقریباً سات سو ریسرچ پیپر پبلش کر چکی ہے، جبکہ ایک کروڑ سات لاکھ ڈالر کی غیر ملکی اور مقامی گرانٹ حاصل ہوئی ہے۔ کسی بھی تعلیمی ادارے کے معیار کا ایک اندازہ اس میں داخلوں کی درخواستوں کی تعداد اور قبولیت کی شرح سے لگایا جا سکتا ہے۔ سالِ رواں یہاں چھبیس ہزار طلبا نے چار سو سیٹوں کیلئے اپلائی کیا‘ جبکہ داخلہ حاصل کرنیوالوں کی شرح دو اعشاریہ دو فیصد رہی۔ اسی طرح کسی یونیورسٹی کی ساکھ کا اندازہ اس کے فارغ التحصیل طلبا سے بھی لگایا جا سکتا ہے۔آئی ٹی یونیورسٹی کا جو پہلا 139 طلبہ کا بیچ پاس آئوٹ ہوا‘ اس میں سے 24 نے ماسٹرز اور پی ایچ ڈی میں داخلہ لے لیا‘ 61 ملکی و غیر ملکی آئی ٹی کمپنیوں سے منسلک ہو چکے‘ 30 ہونہار طلبا کو آئی ٹی یونیورسٹی نے ہی بطور ریسرچ ایسوسی ایٹ بھرتی کر لیا‘ 17 نے اپنی ذاتی آئی ٹی کمپنیاں بنا لیں جبکہ صرف سات طالبات ایسی ہیں جو شادی کی وجہ سے مصروفیات برقرار نہ رکھ پائیں۔ فارغ التحصیل طلبا پچاس ہزار سے پانچ لاکھ تک کا پُرکشش مشاہرہ لے رہے ہیں۔ یہ ایسی یونیورسٹی کا غیر معمولی نتیجہ ہے‘ جو صرف پانچ برس قبل قائم ہوئی‘ اور جس کے طلبا کی پہلی کھیپ نے انتہائی کارآمد اور کامیاب زندگی کا آغاز کیا اور جس نے یو ایس ایڈ کے تحقیقی پروگرام میں پونے چار لاکھ ڈالر کی تحقیقی گرانٹ جیتی۔ دنیا بھر میں اس وقت آن لائن ایجوکیشن فروغ پا رہی ہے۔ اس مقصد کیلئے آئی ٹی یونیورسٹی نے انٹرنیشنل پروگرام EDX کے ساتھ اشتراک کیا‘ جس کے ذریعے پاکستان میں پہلی ڈیجیٹل یونیورسٹی متعارف کرائی گئی۔ اس پروگرام کی وجہ سے یہاں طلبا ایم آئی ٹی جیسی یونیورسٹیوں کے کورسز پاکستان میں بیٹھ کر پڑھ سکیں گے‘ اور آن لائن امتحان دے کر متعلقہ یونیورسٹی کی ڈگری بھی حاصل کر سکیں گے۔ EDX کے ساتھ اس وقت ایم آئی ٹی‘ ہارورڈ‘ برکلے‘ بوسٹن یونیورسٹی اور مائیکروسافٹ‘ آئی بی ایم‘ سمیت 126مستند عالمی یونیورسٹیاں اور ادارے رجسٹرڈ ہیں۔ آئی ٹی یو کی طرح امریکہ کی ایم آئی ٹی یونیورسٹی بھی چھوٹی چھوٹی مختلف عمارتوں میں منقسم ہے لیکن دنیا کی صف اول کی یونیورسٹی شمار کی جاتی ہے اور یہاں کے طلبا دنیا کی سمت اور قبلہ تک تبدیل کر رہے ہیں؛ چنانچہ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ کسی بھی معیاری یونیورسٹی کو کھڑا کرنے کیلئے جگہ اور سرمایہ نہیں بلکہ کمٹمنٹ‘ ویژن اور جدید سوچ درکار ہوتی ہے۔ وزیر اعظم ہائوس کو یونیورسٹی بنانے کا فیصلہ کر کے وزیر اعظم عمران خان نے کروڑوں عوام کے دل جیت لئے ہیں۔ اگر جناب عمران خان ایک مرتبہ آئی ٹی یونیورسٹی لاہور کا دورہ کر لیں اور اپنی آنکھوں سے یہاں کی تعلیمی رفتار‘ تحقیقی معیار اور فیکلٹی اور طلبا کی ساکھ ملاحظہ کر لیں تو انہیں فیصلہ کرنے میں آسانی ہو گی۔ وزیر اعظم ہائوس میں خان صاحب کی سوچ کے مطابق سائنس‘ ٹیکنالوجی اور انجینئرنگ کی ایک شاندار ورلڈ کلاس ریسرچ یونیورسٹی بن گئی تو یہ وزیر اعظم کا اس ملک‘ اس کی معیشت اور اس کے طلبہ پر بہت بڑا احسان ہو گا۔