وہ چودہ برس کی معصوم سی بچی تھی۔ ایک دن سکول سے لوٹی تو گھر کی دہلیز پر ایک رقعہ پڑا تھا‘ اس کے بدن میں خوف اور سرسراہٹ کی لہر دوڑ گئی‘ اس نے لرزتے ہاتھوں رقعہ اٹھا لیا۔ وہ طالبان کے زیرِ قبضہ افغانستان کے جنوبی حصہ میں اپنے والدین کے ہمراہ مقیم تھی۔ طالبان نے سلطانہ کو دھمکی دی کہ اگر وہ دوبارہ سکول گئی تو اس کے چہرے پر تیزاب پھینک دیں گے۔ سلطانہ سکول تو نہ گئی لیکن علم کی ضد سے باز نہ آئی۔ اس نے اپنے والد سے کہا کہ وہ کام سے واپسی پر اس کے لئے تعلیمی کتب و جرائد لایا کریں۔ ایک دن اس کا والد اس کیلئے ٹائم میگزین لے آیا۔ سلطانہ کے پاس پشتو سے انگریزی کی ڈکشنری موجود تھی۔ اس کی مدد سے اس نے ٹائم میگزین میں ایک انٹرویو پڑھا جو کسی غیر نفع بخش اور آن لائن مفت تعلیم دینے والے ادارے خان اکیڈمی کے بارے میں تھا۔ سلطانہ نے اپنے والد سے کہا کہ وہ سکول تو نہیں جائے گی لیکن اگر اس کیلئے کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کا بندوبست ہو جائے تو اس کا کام ہو جائے گا۔ سلطانہ کے والد نے چھ ماہ میں دونوں چیزوں کا انتظام کر دیا۔ اب سلطانہ دیواروں کی قید اور طالبان کی پہنچ سے آزاد ہو چکی تھی۔ سکول چھوڑے اسے ایک برس بیت چکا تھا۔ سلطانہ اپنے تعلیمی نقصان سے بہت پریشان تھی۔ اس نے انٹرنیٹ آن کیا اور خان اکیڈمی کی ویب سائٹ اور یوٹیوب پورٹل پر پہنچ گئی۔ اب اس کا کام آسان ہو چکا تھا۔ خان اکیڈمی پر وہ سارے لیکچر موجود تھے جو وہ سکول میں مِس کر چکی تھی‘ اس نے اکیڈمی کی مدد سے اپنی انگریزی بہتر کی‘ مضامین کو ویڈیوز اور آڈیو لیکچرز کی مدد سے سمجھا اور چند ہی برسوں میں ریاضی‘ کیمسٹری‘ فزکس اور بیالوجی میں دسترس حاصل کر لی۔ اس دوران اس کی انٹرنیٹ پر امریکہ میں مقیم ایک لڑکی سے دوستی ہو گئی۔ وہ سلطانہ کے علمی جذبے کی مداح نکلی۔ اس نے سلطانہ کو امریکہ آنے اور اعلیٰ یونیورسٹی میں داخلہ دلوانے کیلئے مدد کی ہامی بھر لی۔ اس نے ایک ویب سائٹ بنائی اور سلطانہ کے لئے چیرٹی اکٹھی کرنا شروع کر دی؛ تاہم صرف فنڈز اس مقصد کیلئے ناکافی تھے۔ سلطانہ کے امریکی یونیورسٹی میں داخلے کیلئے SAT کا کورس پاس کرنا لازمی تھا‘ اور اس کیلئے ضروری تھا کہ وہ کسی منظور شدہ سنٹر میں جائے جو افغانستان میں موجود نہیں تھا۔ اس مقصد کیلئے سلطانہ نے اپنی جان پر کھیلنے کا فیصلہ کیا۔ وہ رات کے اندھیرے میں نکلی اور تیس گھنٹے کے پُرخطر سفر کے بعد خفیہ طریقے سے پاکستان پہنچ گئی‘ SAT کا امتحان دیا‘ کامیاب ہوئی‘ واپس افغانستان پہنچی اور امریکی یونیورسٹی کے لئے اپلائی کر دیا‘ لیکن اس کی درخواست مسترد کر دی گئی۔ اس نے دوبارہ درخواست دی پھر مسترد ہوئی۔ تیسری بار اس کی درخواست قبول ہوئی اور وہ امریکہ پہنچ گئی اور اس وقت دنیا کی نمبر ون یونیورسٹی میساچیوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی میں فزکس کی اعلیٰ تعلیم و تحقیق میں مصروف ہے۔
جس اکیڈمی نے نہتی لڑکی کو طالبان کی بندوقوں کے سائے سے نکال کر دنیا کی بہترین مادر علمی تک پہنچا دیا‘ اس کی کہانی بھی بڑی دلچسپ ہے۔ یہ 2001ء کی بات ہے۔ پچیس سالہ بنگلہ دیشی نژاد سلمان خان کو اس کی کزن نادیہ کا فون آیا۔ نادیہ اس سے ریاضی اور سائنس کی کچھ پیچیدگیاں سمجھنا چاہتی تھی۔ نادیہ بنگلہ دیش میں تھی جبکہ سلمان خان امریکہ میں۔ سلمان نے کمپیوٹر پر کچھ لیکچر ویڈیوز کی شکل میں بنائے اور نادیہ کو بھجوا دئیے۔ نادیہ کے ساتھ مزید طالب علم جڑتے چلے گئے اور سلمان انہیں ویڈیوز بنا کر بھیجتا رہا۔ 2005ء میں جب یوٹیوب لانچ ہوئی تو سلمان خان نے خان اکیڈمی کے نام سے چینل بنا کر اپنی تعلیمی ویڈیوز یوٹیوب پر رکھ دیں اور ساتھ ہی ایک ویب سائٹ بھی بنا دی۔ چند ہی برسوں میں ان لیکچرز کی طلب اتنی بڑھ گئی کہ طلبا مزید کا تقاضا کرنے لگے۔ سلمان خان اس وقت ایک امریکی اکائونٹنگ فرم میں ملازم تھا۔ 2009ء میں اس نے ملازمت سے استعفیٰ دیا اور مکمل طور پر خان اکیڈمی سے منسلک ہو گیا۔ ابتدا میں اس نے ریاضی اور سائنس کے مضامین کی ویڈیوز رکھیں جنہیں بعد ازاں معاشیات‘ سیاسیات ‘ آرٹس اور دیگر مضامین تک پھیلا دیا۔ سلمان خان چونکہ خود ایم آئی ٹی اور ہارورڈ کا تعلیم یافتہ تھا؛ چنانچہ اس نے ویسے ہی معیاری لیکچرز بنائے جیسے ان یونیورسٹیوں میں پڑھائے جاتے تھے۔ اس بنا پر خان اکیڈمی کی مقبولیت اس قدر بڑھ گئی کہ آج اس کے سبسکرائبرز کی تعداد چوالیس لاکھ تک پہنچ چکی ہے‘ اس چینل پر سات ہزار سے زائد مختلف تعلیمی ویڈیوز موجود ہیں‘خان اکیڈمی کا مرکزی دفتر کیلیفور نیا میں ہے‘ اس کا تعلیمی مواد انگریزی‘ ہسپانوی‘ پرتگالی‘ ترکش‘ فرانسیسی اور بنگالی سمیت 26 زبانوں میں موجود ہے اور سب سے اہم یہ ہے کہ یہ تمام مواد مکمل طور پر مفت دستیاب ہے۔ سلمان خان کی اس کاوش پر ٹائم میگزین اسے دنیا کی ایک سو موثر ترین شخصیات میں شامل کر چکا ہے‘ جبکہ اس کے چینل سے فائدہ اٹھانے والوںکے مطابق سلمان خان نوبل انعام کا حق دار ہے۔
اب ہم پاکستان کی طرف آتے ہیں۔ ساڑھے چار برس قبل پاکستان میں سرکاری طور پر ایک ویب سائٹ ای لرن کا آغاز ہوا۔ یہ ویب سائٹ پنجاب آئی ٹی بورڈ نے محکمہ سکول ایجوکیشن کے لئے بنائی تھی جس پر سائنس اور ریاضی کی کتب ڈیجیٹائز کر کے رکھی گئیں۔ جن طلبا کو سکول میں لیکچر سمجھ نہیں آتا یا جو سکول نہیں جاتے‘ ای لرن کی ویب سائٹ میں ان کی علمی مشکلات دور کرنے کا تمام تر سامان موجود ہے؛ تاہم بچوں میں موبائل کے بڑھتے استعمال کو دیکھتے ہوئے ضروری تھا کہ ایک موبائل ایپ بھی لانچ کی جائے تاکہ بچے موبائل کو صرف گیم کھیلنے اور ویڈیوز دیکھنے کی بجائے تعلیمی مقاصد کیلئے بھی استعمال کریں؛ چنانچہ چند روز قبل ایک پریس کانفرنس میں پنجاب آئی ٹی بورڈ کے چیئرمین ڈاکٹر عمر سیف نے اینڈرائڈ موبائل فونز کیلئے ای لرن ایپ متعارف کروائی‘ جس میں چھٹی سے بارہویں جماعت تک کے بچوں کیلئے ریاضی اور سائنسی مضامین کی 28 نصابی کتابیں ڈیجیٹل صورت میں موجود ہیں‘ اس میں مختلف موضوعات پر 13 ہزار ویڈیوز‘ 2 ہزار آڈیوز اور کوئز رکھے گئے ہیں‘ اور یہ ای لرن ایپ گوگل پلے سٹور پر مفت دستیاب ہے۔ بنیادی طور پر ریاضی اور سائنس ہی وہ مضامین ہیں جن کی ٹیوشنز پڑھی جاتی ہیں۔ اگر کوئی اپنے بچے کو ٹیوشن نہیں پڑھانا چاہتا تو اس کے لئے یہ ایپ بہترین ہے۔ والدین اس ایپ کی مدد سے خود بھی بچوں کو پڑھا سکتے ہیں۔ یہ بھی کم لوگ جانتے ہیں کہ پنجاب کے آٹھ سرکاری سکولوں میں اس وقت کلاس رومز میں بلیک بورڈ کی بجائے بڑی بڑی ایل ای ڈی سکرینیں نصب ہیں جہاں اساتذہ موبائل ٹیب کی مدد سے طلبا کو جدید انداز سے پڑھا رہے ہیں۔ آپ حیران ہوں گے کہ لاہور میں سنٹرل ماڈل لوئر مال جو کبھی ٹاٹ سکول کے طور پر مشہور تھا‘ وہاں آج طلبا کو ویڈیو سکرینوں اور ٹیب کی مدد سے تعلیم دی جاتی ہے۔ ایک سروے کے مطابق جن سکولوں میں یہ ٹیکنالوجی میسر ہے وہاں کے نتائج روایتی سکولوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ بہتر آئے ہیں۔ ان سکولوں میں ٹیکنالوجی کے اخراجات کا جائزہ لیا گیا تو معلوم ہوا کہ اس طریقہ تعلیم پر لاگت صرف نو روپے فی بچہ فی مہینہ آتی ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ای لرن ویب سائٹ اور ایپ پاکستان میں تعلیم کے انداز کو کم لاگت اور انقلابی انداز میں تبدیل کر رہی ہے۔ یہ پاکستان کی اپنی خان اکیڈمی بن چکی ہے اور چونکہ اس میں پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈز کی منظور شدہ کتابیں شامل کی گئی ہیں‘ اس لئے بچے ان سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کر کے امتحانات میں شاندار کامیابی بھی حاصل کر سکتے ہیں۔
خان اکیڈمی اور ای لرن جیسے منصوبوں کے بعد اب والدین اور بچوں کے پاس یہ بہانہ نہیں رہا کہ ان کے پاس ریسورسز کی کمی ہے‘ یا کلاس میں استاد ٹھیک طرح سے نہیں سمجھاتا۔ اب ہر گھر میں موبائل اور انٹرنیٹ موجود ہے لہٰذا فرار کی کوئی گنجائش نہیں‘ اور جو لوگ ابھی تک آن لائن ایجوکیشن کی اہمیت کو نہیں سمجھ پائے‘ وہ ایک پل کے لئے سوچیں‘ اگر خان اکیڈمی نہ ہوتی‘ اگر آن لائن نصابی مواد موجود نہ ہوتا تو کیا جنگ زدہ تباہ حال افغانستان سے نکل کر سلطانہ جیسی بچیاں امریکہ کی ایم آئی ٹی یونیورسٹی تک پہنچ پاتیں؟ کیا وہ طالبان کے ہاتھوں تیزاب گردی کا شکار نہ ہو چکی ہوتیں؟