گزشتہ روز جب اسلام آباد میں پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ کی عمارت میں آگ لگی ہوئی تھی‘ اس وقت میں لاہور میں صوبائی محتسب کے دفتر میں موجود تھا‘ جہاں فائلوں کے متروک اور بوسیدہ نظام سے چھٹکارا پانے اور آتشزدگی کے واقعات میں ریکارڈ کو بچانے کی خاطر ای فائلنگ اینڈ آفس آٹومیشن سسٹم کے اجرا کی تقریب ہو رہی تھی‘ جس کی صدارت صوبائی محتسب نجم سعید اور چیئرمین پی آئی ٹی بی ڈاکٹر عمر سیف کر رہے تھے۔ میں بڑی حیرانی سے ایک طرف موبائل فون پر ٹی وی مناظر میں ایک سرکاری عمارت اور فائل ریکارڈ ضائع ہونے کے خدشات کی خبریں سن رہا تھا‘ تو دوسری طرف ایک سرکاری دفتر کو فائلوں اور کاغذی کارروائیوں سے آزاد ہوتے دیکھ رہا تھا۔ روایتی محکموں میں فائلیں افسروں کے تاخیری ہتھکنڈوں سے بچ جائیں تو آتشزدگی کی لپیٹ میں آ جاتی ہیں‘ آتشزدگی سے بچ جائیں تو ریکارڈ روم میں موجود چوہوں کا شکار بن جاتی ہیں‘ چوہوں سے بچ جائیں تو ان پر پانی گر جاتا ہے اور پانی سے بچ جائیں تو نمی کا شکار ہو کر گل سڑ جاتی ہیں۔ یہ سطور لکھے جانے تک کسی جانی نقصان کی تو اطلاع نہیں ملی لیکن اس نوعیت کے واقعات میں ریکارڈ کے جلنے اور ضائع ہونے کا قوی خدشہ موجود رہتا ہے۔ وفاقی وزیرِ اطلاعات فواد چودھری نے ٹی وی پر آ کر وضاحت کر دی کہ پی آئی ڈی کا تمام تر ریکارڈ محفوظ ہے؛ تاہم کیا ہی اچھا ہو کہ صوبائی محتسب کی طرح ملک کے تمام سرکاری محکموں میں روایتی فائل کلچر کا نظام ختم کرکے الیکٹرانک فائلنگ کا نظام اپنایا جائے جیسا کہ پنجاب آئی ٹی بورڈ نے محتسب پنجاب‘ پولیس لائنز‘ ڈی آئی جی آپریشنز‘ چیف سیکرٹری پنجاب سمیت دیگر بیس سے زائد سرکاری محکموں کے لئے وضع کر رکھا ہے اور کامیابی سے چل رہا ہے۔ اس نظام کی بدولت آگ لگنے سے نقصان کا اندیشہ نہیں ہوتا ‘دفتری امور میں شفافیت اور فعالیت آتی ہے‘ ماضی کے عشروں کے ریکارڈ کو چند سیکنڈ میں تلاش کیا جا سکتا ہے اور دفتر میں سٹیشنری کے بھاری اخراجات سے بچا جا سکتا ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ ایک سال قبل خیبرپختونخوا میں قائم ہونے والے سرکاری ادارے مردان واٹر اینڈ سینی ٹیشن کمپنی نے پی آئی ٹی بی کی مدد سے یہ سسٹم لاگو کر لیا تھا جس کی بدولت آج اس محکمے میں ایک منصوبہ بھی کاغذ پر موجود نہیں‘ نہ ہی وہاں آپ کو بھاری اور بوسیدہ فائلوں کے انبار نظر آئیں گے بلکہ دفاتر میں سارے کا سارا کام کمپیوٹر اور موبائل کی مدد سے کیا جا رہا ہے۔
سرکاری ریکارڈ ایک مرتبہ جل جائے اور اس کی کاپی یا عکسی دستاویزات موجود نہ ہوں تو سوائے پچھتاووں کے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ ایسے واقعات سے سیکھنا انتہائی ضروری ہے کیونکہ یہ ملک مزید ایسے سانحات کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ خدا خدا کرکے ترقیاتی منصوبے شروع ہوتے ہیں‘ اور آتشزدگی کے ایسے واقعات منصوبوں کو اپاہج بنا دیتے ہیں۔ ملک میں قومی اور عوامی اہمیت کے کئی سرکاری منصوبے ایسے ہیں‘ جہاں ابھی تک دفتری کلچر اسی گھسے پٹے فائل کلچر کے انداز میں چل رہا ہے۔ دنیا چاند سے آگے رہائش تلاش کر رہی ہے اور ہمارے ہاں ابھی تک بعض محکموں میں سرکاری بابو فائلوں پر آڑی سیدھی لکیریں کھینچنے میں لگے ہیں۔ روایتی فائل کا نظام تو ترقی پذیر ممالک سمیت پوری دنیا میں متروک ہو چکا ہے۔ اس کی کئی وجوہات ہیں‘ مثلاً یہ کہ فائلوں کا نظام بنیادی طور پر سست روی کا شکار رہتا ہے۔ فائل کئی کئی دنوں تک افسروں کی میز پر پڑی رہتی ہے۔ فائلوں کو جان بوجھ کر سست کیا جاتا ہے۔ بار بار اعتراض لگائے جاتے ہیں جس کی وجہ سے ان پر ایکشن لینے کی بجائے اعتراض دور کرنے کے لئے واپس بھجوایا جاتا ہے‘ یوں ایک فائل افسروں اور کلرکوں کے ہاتھوں میں فٹ بال بن جاتی ہے جو اس سے اس وقت تک کھیلتے ہیں جب تک ان کا جی چاہتا ہے۔ اس دوران سائل دفاتر کے چکر لگا لگا کر تھک جاتا ہے۔ اسے یہ بھی معلوم نہیں ہو پاتا کہ اس کی فائل کس افسر کی میز پر ہے اور اس پر کس حد تک کارروائی ہو چکی ہے۔ وہ بے چارہ فائل کی کارروائی جاننے کے لئے متعلقہ کلرک کی مٹھی تک گرم کرتا ہے‘ لیکن اس کا بھی اسے خاص فائدہ نہیں ہوتا کیونکہ فائل کا سٹیٹس جان لینا ہی کافی نہیں ہوتا‘ اصل کام اسے آگے چلانا ہوتا ہے‘ جو صرف افسران کی مرضی اور منشا پر منحصر ہے۔ فائلوں کو پہیے لگوانے کے لئے سائل کے جذبات سے کھیلا جاتا ہے‘ اس سے رشوت لی جاتی ہے اور یوں کرپشن کا بازار گرم ہوتا ہے اور جس فائل کو سست کرنا ہو‘ اس کے پہیے جان بوجھ کر پنکچر کر دیے جاتے ہیں۔
میں گزشتہ دنوں ایک سرکاری دفتر میں ایک ڈائریکٹر کے کمرے میں بیٹھا تھا۔ میز پر بوسیدہ فائلوں کا ایک ڈھیر لگا تھا۔ ڈائریکٹر نے پی اے کو بلا کر پوچھا: یہ فائلیں کون یہاں رکھ گیا ہے۔ پی اے نے کہا: ابھی پتہ کرکے بتاتا ہوں۔ وہ لوگ آدھا گھنٹہ اسی سراغ میں رہے کہ یہ فائلیں آخر دے کر کون گیا ہے لیکن کچھ پتہ نہ چلا۔ آخر آدھے گھنٹے بعد ایک کلرک بڑی شانِ بے نیازی سے گھومتا گھماتا آیا اور فائلیں اٹھا کر لے گیا۔ میں نے اس طرح کے مسائل کا حل پنجاب آئی ٹی بورڈ کے تیارکردہ ای فائلنگ اینڈ آفس آٹومیشن سسٹم کے اجرا کی تقریب میں دیکھا ہے۔ یہ نظام اس قدر فول پروف ہے کہ اس کے ہوتے ہوئے نہ سرکاری افسر من مانی کر سکتے ہیں‘ نہ چوہے یا آتشزدگی فائلوں کو اپنا شکار بنا سکتی ہیں‘ اور نہ ہی دفتری امور کو بہانے تراش کر سست روی کا شکار بنایا جا سکتا ہے۔ اب تو ایسے نظام نجی ادارے بھی اپنا چکے ہیں‘ جہاں ہیومن ریسورس کا شعبہ تمام کاغذات کو سکین کرکے کمپیوٹر میں ڈالتا ہے اور وہاں سے ایک آن لائن سافٹ ویئر میں اپ لوڈ کر دیتا ہے‘ جہاں سے کمپنی کا چیئرمین تک جب چاہے متعلقہ شعبے یا ملازم کی کارکردگی دیکھ اور اس پر ایکشن لے سکتا ہے۔ محتسب پنجاب کے دفتر میں جو نظام نافذ کیا گیا ہے اس کے تحت گزشتہ دس برس کے ریکارڈ کو آن لائن کر دیا گیا ہے۔ اب جب بھی کوئی نئی فائل بنانا ہو گی تو وہ آن لائن ہی بنے گی۔ فائل کا نمبر نکلے گا اور اس نمبر کے تحت اس فائل کو جب چاہے تلاش کر لیا جائے گا۔ اس پر کیا ایکشن ہوا‘ کس نے لیا‘ کیا نوٹنگ ہوئی‘ کس نے کتنی دیر تک فائل اپنے پاس روکے رکھی اور اس کا کیا جواز دیا‘ یہ سب اب ایک آن لائن ریکارڈ کا حصہ بن جائے گا۔ خیبرپختونخوا سے آئے سرکاری کمپنی کے چیف ایگزیکٹو ناصر غفور کا کہنا تھا کہ وہ گزشتہ دنوں بیرون ملک تھے اور وہاں سے بھی وہ موبائل فون ایپ کے ذریعے تمام دفتری امور انجام دیتے رہے۔ وگرنہ افسر بیرون ملک چلا جائے تو پیچھے سٹاف ناچنے لگتا ہے کہ موجیں لگ گئیں۔ اس نظام کے تحت کوئی بھی افسر سٹائلس یا الیکٹرانک پین کے حامل موبائل فونز کے ذریعے اپنے دستخط بھی کر سکتا ہے جو آن لائن ریکارڈ کا حصہ بن سکتے ہیں۔ اسی طرح جو فائلیں جن متعلقہ افسروں کو ایکشن یا نوٹنگ کے لئے مارک کی جاتی ہیں ان کا تمام تر عمل اس نظام کے تحت خودکار طریقے سے انجام پاتا ہے۔ کلرک سے لے کر سی ای او تک سب کو اپنی اپنی حدود تک آن لائن رسائی حاصل ہوتی ہے اور یوں سب کی کارکردگی کھل کر سامنے آ جاتی ہے۔
وزیر اعظم عمران خان نے حالیہ دورہ سعودی عرب میں جہاں کامیاب تجارتی معاہدے کئے‘ وہاں اپنے خطاب میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کو مؤثر انداز میں اپنانے کی خواہش کا بھی اظہار کیا۔ وزیر اعظم ملک کو کرپشن سے پاک دیکھنا چاہتے ہیں‘ اس مقصد کیلئے اگر وہ ای فائلنگ کے اس نظام کو سرکاری محکموں میں لازمی طور پر لاگو کرنے کا حکم دے دیں تو اس سے نا صرف پوری کی پوری سرکاری مشینری فعال‘ متحرک اور شفاف ہو سکتی ہے بلکہ آتشزدگی کے واقعات میں ہونے والے غیرمعمولی نقصانات سے بھی بچا جا سکتا ہے اور یہ کام صرف عمران خان ہی کر سکتے ہیں کیونکہ سرکاری اداروں کو بااعتماد بنانا اور کرپشن سے پاک کرنا ان کی زندگی کا مشن بھی ہے اور بائیس برس کی جدوجہد کا مقصد بھی۔