وزیراعظم عمران خان کو ریلوے سٹیشن پر پہلے پناہ گاہ منصوبے کا افتتاح کرتے دیکھا تو میجر رشید وڑائچ یاد آ گئے۔ کیا صاف گو اور جی دار انسان تھے۔ جس انداز میں عمران خان سڑک کنارے پڑے غریبوں اور مسکینوں کے لئے منصوبے شروع کر رہے ہیں‘ یہ شخص بھی ان مصیبت کے ماروں کے لئے ایسی ہی تڑپ رکھتا تھا۔ یہ فرشہ نما انسان سرد راتوں میں چوبرجی چوک میں پڑے سینکڑوں لوگوں پر جا کر آدھی رات کو کمبل ڈالتا اور واپس آ کر ان کے لئے صبح کے ناشتے کی تیاری میں لگ جاتا۔ ایک دن پوچھا: ان کاموں کے لئے وقت کیسے نکالتے ہیں؟ بولے‘ شام کو آ جانا اور خود اپنی آنکھوں سے دیکھ لینا۔ نہر کنارے واقع چھوٹے لیکن خوبصورت گھر میں مقیم تھے۔ ڈھائی تین مرلے کی اس جگہ کو کس قدر خوبصورتی سے استعمال کیا گیا تھا۔ نیچے ڈرائنگ روم‘ کچن اور ایک چھوٹا سا کمرہ تھا جسے وہ اپنے دفتر کے طور پر استعمال کرتے تھے۔ ساتھ والی عمارت کے تہہ خانے میں کیڈٹ کالج میں داخلے کے لئے طالب علموں کو تربیت دینے کے حوالے سے اکیڈمی چلاتے۔ روایتی تربیت سے ہٹ کر سیدھی اور صاف بات کرنے کے عادی تھے اس لئے آرمڈ فورسز جوائن کرنے والے طلبا کی بڑی تعداد ان کی اکیڈمی میں ضرور داخلہ لیتی۔ مجھے ساتھ لے کر وہ کمرے سے باہر آ گئے اور صحن کے ایک کونے میں جا کر رُک گئے‘ جہاں پر دو بڑی پتیلیاں چولہے پر رکھی تھیں۔ قریب ہی کھانے پینے کا دیگر سامان پڑا تھا۔ پلاسٹک کے برتن اور کپ وغیرہ بھی بڑی تعداد میں موجود تھے۔ بتانے لگے: یہاں دو سو لوگوں کے ناشتے کا انتظام ہو رہا ہے۔ یہ کام میں اور میرا ڈرائیور مل کر کرتے ہیں۔ ایک کُک بھی رکھا ہوا ہے لیکن وہ آج کل چھٹی پر ہے لیکن ہم کبھی غریبوں کو ناشتے کی چھٹی نہیں ہونے دیتے۔ میں اکیلا ہوں تب بھی کچھ نہ کچھ لے جاتا ہوں۔ بڑی پتیلیوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے بولے: ان میں چائے تیار ہوتی ہے اور یہ ساتھ جو برتن موجود ہیں ان میں حلوہ اور چنے تیار ہوتے ہیں۔ چنے اور حلوے کی تیاری رات کو ہی شروع ہو جاتی ہے جبکہ چائے صبح چار بجے تیار کر لی جاتی ہے۔ پھر سارے سامان کو ایک کھلی پک اپ میں رکھ کر ہم سورج نکلنے سے قبل ہی چوبرجی چوک پہنچ جاتے ہیں۔ یہ بتاتے ہوئے وہ رُک گئے اور پھر بولے: تم صبح آنا اور خود اپنی آنکھوں سے سارا منظر دیکھنا۔ میں بتائوں گا تو شاید تمہیں یقین نہ آئے۔ میں نے ہامی بھر لی۔ اتنی جلدی اٹھنے کا میں عادی نہ تھا لیکن کیا کرتا میجر صاحب سے وعدہ جو کر لیا تھا۔ صبح پو پھٹنے سے پہلے چوبرجی چوک پہنچا تو عجیب منظر دیکھا۔ سٹریٹ لائٹس کی دھیمی روشنی میں سینکڑوں لوگ ایک قطار میں کھڑے تھے۔ ان میں زیادہ تعداد مزدوروں کی تھی۔ کچھ نشئی ہوں گے اور کچھ دیہاڑی دار بھی۔ ان کی مفلوک الحالی کااندازہ ان کے کپڑوں سے بھی لگایا جا سکتا تھا۔ کوئی ایسا نہ تھا جس کے کپڑوں میں پیوند نہ لگا ہو۔ پھٹے پرانے کپڑے پہنے اور چادریں لپیٹے یہ اپنی اپنی باری کے انتظار میں کھڑے تھے۔ ان کے آگے ایک پک اپ اور ایک کرولا گاڑی تھی۔ میجر صاحب گاڑی میں بیٹھے تھے۔ میں نے انہیں سلام کیا تو وہ باہر آ گئے۔ مجھ سے گلے ملے اور مجھے ساتھ لے کر قطار کی جانب چل پڑے۔ مجھے بتانے لگے: دیکھو ہم کس طرح راتوں کو گرم بستروں میں لحاف لے کر سوتے ہیں‘ گرم کپڑے پہنتے ہیں‘ جب جی چاہا گرما گرم چائے‘ کافی اور سوپ پی لیتے ہیں اور سردی سے بچنے کے لئے ہیٹر چلا لیتے ہیں لیکن یہ لوگ‘ دیکھو انہیں تو کچھ بھی میسر نہیں۔ اگر ہمیں اللہ نے اتنا دیا ہے تو کیا ہم اتنا بھی نہیں کر سکتے کہ اس میں سے ایک کپ چائے اور دو نانوں کے پیسے نکال کر انہیں ناشتہ ہی کروا دیں۔ کہنے لگے: میں نے نہ تو کوئی فائونڈیشن بنائی ہوئی ہے نہ ہی میں کہیں سے چندہ اکٹھا کر کے یہ کام کرتا ہوں بلکہ جو مجھے اللہ نے دیا ہے اس میں سے خرچ کر دیتا ہوں۔ کہنے لگے‘ تم حیران ہو گے کہ یہ چپ چاپ قطار میں کیسے لگے ہیں۔ یہ بھی میری فوجی تربیت کا نتیجہ ہے۔ میجر صاحب نے ڈرائیور کو آواز دی۔ ڈرائیور نے کام شروع کر دیا۔ وہ ایک شاپر میں ایک تھیلی چنے کی ڈالتا‘ دو نانوں پر تھوڑا سا حلوہ رکھتا اور قطار میں لگے مزدور کو تھما دیتا۔ مزدور آگے بڑھتا‘ پک اپ پر موجود بالٹی سے پلاسٹک کے ایک کپ میں چائے انڈیلتا اور آگے بڑھ جاتا۔ یہ عمل کوئی چالیس منٹ میں مکمل ہو گیا۔ دو اڑھائی سو لوگ فٹ پاتھ اور گرین بیلٹ پر ایک ترتیب سے بیٹھے اور پیٹ بھر کے ناشتہ کرنے لگے۔ کوئی دوبارہ بھی آ جاتا تو اس وقت تک اسے دیتے جب تک اس کا پیٹ نہ بھر جاتا۔ پھر سب میجر صاحب سے مصافحہ کرتے اور انہیں دعائیں دیتے کام کو نکل جاتے۔ میں نے میجر صاحب سے پوچھا: آپ یہ کام کب تک جاری رکھیں گے۔ وہ مسکرائے اور بولے: جب تک زندگی ہے تب تک ۔اس ملاقات کے بعد کئی سال تک وہ یہ نیکی بانٹتے رہے اور بالآخر فروری کی ایک سردرات کو قضائے الٰہی سے انتقال کر گئے۔ میں ان کے گھر جنازے پر پہنچا تو دیکھا‘ ایک بڑی تعداد ان کے گھر کے باہر ایسے مسکینوں اور بیوائوں کی تھی جن کی وہ خفیہ کفالت کرتے تھے اور کسی کو علم تک نہ تھا۔ وہ ان کی مالی مدد ہی نہیں کرتے تھے بلکہ ان میں قرآن مجید کے عربی اردو ترجمے کے نسخے بھی مفت تقسیم کرتے تھے۔ میں نے اپنی آنکھوں سے ایک دن ایک گاڑی میں سے قرآن مجید کے سینکڑوں نسخے اترتے دیکھے تھے۔ وہ کہتے: میں چاہتا ہوں‘ لوگوں کے پیٹ کے ساتھ ساتھ ان کی روح کا بھی سامان کرتا جائوں۔
آج میجر رشید وڑائچ تو ہم میں نہیں لیکن عمران خان کو دیکھ کر اطمینان ہو چلا ہے کہ حکومت میں بھی ان غریبوں اور بے آسرا لوگوں کے سر پر سایہ کرنے والا موجود ہے۔ ہم موجودہ حکومت میں لاکھ غلطیاں نکال سکتے ہیں لیکن ہمیں ماننا پڑے گا کہ چند ایسے کام جو خان صاحب نے کئے‘ وہ واقعی ریاست مدینہ کی یاد دلاتے ہیں۔ ہم بڑی بڑی پوش آبادیوں میں رہتے ہیں لیکن ہر پوش آبادی کے قریب ایک گندا نالہ ضرور ہوتا ہے اور اس نالے کے کنارے آپ کو سینکڑوں خاندان بچوں عورتوں سمیت کھلے آسمان تلے کوڑے کے ساتھ سوتے دکھائی دیں گے۔ کبھی ان کے بارے میں کسی نے سوچا‘ نہ ہی انہیں انسان سمجھا۔ نہ ان لوگوں کے پاس چھت ہے‘ نہ روزگار اور نہ ہی بیت الخلا۔ لاہور میں اچھرہ‘ چوبرجی‘ دربار‘شاہدرہ اور ریلوے سٹیشن پر پانچ پنا ہ گاہیں قائم کی جائیں گی جن میں کھلے آسمان تلے سونے والے بے آسرا لوگ سر چھپا سکیں گے۔ اس منصوبے کے پیچھے وزیراعلیٰ عثمان بزدار کا بڑا ہاتھ ہے کیونکہ وہ خود ایسے پسماندہ علاقے سے تعلق رکھتے ہیں جہاں ایسی بنیادی سہولیات بھی خواب لگتی ہیں۔ شیلٹر ہوم بنانے سے احسا س اور رحم کا جذبہ اُجاگر ہو گا اور انہیں دھتکارتے اور نظر انداز کرتے وقت ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ نشئی‘خواجہ سرا‘ معذور اور سڑک کنارے پڑے لوگوں کو بھی اتنی ہی بھوک اور سردی لگتی ہے جتنی کہ ہمیں اورہمارے بچوں کو۔
وزیر اعظم نے جن لوگوں کے لئے یہ مسافر خانے تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا ہے ان میں سے اکثریت کو یہ بھی پتہ نہیں ہو گا کہ ان کا ووٹ کہاں بنا ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایسے لوگوں کا بڑے سے بڑا خواب دو وقت کی روٹی حاصل کرنا ہوتا ہے۔ ان کا سارا دن اسی کوشش میں گزر جاتا ہے کہ کسی طرح انہیں اتنا کھانا میسر آ جائے کہ ان کے بچوں کا پیٹ بھر جائے اور وہ بھوکے نہ سوئیں۔ یہ موبائل‘ مہنگے کپڑے‘ پلاٹ‘گاڑیاں یہ سب ان کی سوچوں کے محور سے باہر ہیں۔ وزیراعظم کا ایسے لوگوں کے لئے مسافر خانے تعمیر کرنا یہ بھی ثابت کرتا ہے کہ انہیں اپنے ووٹ بینک سے غرض نہیں بلکہ وہ یہ فلاحی کام مخلوق خدا کی خدمت اور عبادت سمجھ کر‘ کر رہے ہیں۔اگر وزیراعظم عمران خان اور میجر رشید مرحوم والا یہ جذبہ اشرافیہ اور صاحب استطاعت طبقے میں سرایت کر جائے تو اس ملک میں کوئی غریب نہ تو سرد راتوں میں سڑک کنارے ٹھٹھرتا ہوا موت سے جا ملے اور نہ ہی اسے سارا سارا دن بچوں کا پیٹ بھرنے کے لئے در در کی ٹھوکریں اور گالیاں کھانی پڑیں۔