حکومت کے پہلے سو دنوں کو اگر مہینوں میں منتقل کریں تو یہ تین ماہ دس دن بنتے ہیں۔ ایمانداری سے دیکھا جائے تو تین ماہ میں تین مرلے کا گھر بھی بمشکل ہی مکمل ہوتا ہے لیکن ہمارے کچھ مہربان سات لاکھ مربع کلومیٹر پر پھیلے‘ بائیس کروڑ عوام پر مبنی ستر برس سے قائم ملک کو صرف سو دنوں میں یکسر بدلا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں۔ وہ بھی ایسے ملک کو جہاں صرف ایک سیاسی جماعت تیس برس سے زائد برسر اقتدار رہی اور دوسری سیاسی جماعت کو باریاں دے کر قومی خزانے لوٹتی رہی۔ لوٹ مار کے اس کلچر نے نہ صرف سیاستدانوں‘اداروں‘ بیوروکریسی بلکہ عوام کو بھی کاہل اور نکما بنا دیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ عوام کی بڑی تعداد آج رات کو سونے سے پہلے سوچتی ہے کہ کاش وہ رات کو سوئیں تو روز صبح اٹھنے سے پہلے سرہانے کے نیچے ڈالر مل جائیں تاکہ وہ بھی حکمرانوں کی طرح زندگی عیش اور آرام سے گزاریں۔ اگر حقائق دیکھیں تو آپ ملک کو چھوڑیں کسی ایک محکمے یا ادارے کو ہی ٹھیک کرنا چاہیں تو دو تین ماہ آپ کو اس کی پیچیدگیاں سمجھنے میں لگ جائیں گے۔ دوسرا یہ کہ ہم لوگ بنیادی طور پر مادی ترقی دیکھنے کے عادی ہو چکے ہیں۔ ماضی کے حکمرانوں نے یہ سبق سنا سنا کر شاید ہمیں یقین دلا دیا ہے کہ اصل ترقی وہ ہوتی ہے جو سڑکوں‘ پلوں اور نیلی پیلی بسوں کی صورت میں نظر آئے۔ ہمارے مرحوم دوست شاعر اسلم کولسری کہتے ہوتے تھے کہ ایسی سڑکوں کو سر پہ مارنا ہے جو کروڑ کروڑ کی گاڑیوں کے شاک خراب ہونے سے بچانے کے لئے بنائی جائیں جبکہ انہی کے کنارے ساری رات غریب سردی سے کانپتے ٹھٹھرتے رہیں۔ ایسے لوگوں کو ماضی میں واقعی کیڑے مکوڑوں سے زیادہ کی اہمیت حاصل نہ تھی جن کے لئے وزیراعظم عمران خان نے پناہ گاہیں بنا دی ہیں۔پہلے سو دنوں میں چند ایسے کام ہوئے ہیں جن سے حکومت کی سمت کا صاف پتہ چلتا ہے اور سب جانتے ہیں کہ اگر سمت درست ہو تو سفر جلد یا بدیر بہرحال اپنی منزل پر جا کر ختم ہوتا ہے۔ اگر کسی نے اسلام آباد جانا ہو تو وہ ملتان کی طرف رخ کرنے سے تو کبھی نہیں پہنچ پائے گا۔ ماضی میں البتہ یہی ہوتا رہا ہے۔ کسی بھی نئے ادارے ‘ ڈوبتے جہاز یا ملک کی باگ ڈور سنبھالتے ہوئے اس کی سمت اور سانسیں درست کرنا مشکل ترین اور اولین کام ہوتا ہے۔ ویسے بھی لوگوں کی عزت نفس‘ ان کے حقوق اور ان کا اعتماد بحال کرنا مشکل جبکہ سڑکیں اور پل بنانا آسان ہوتا ہے۔ وزیراعظم نے سب سے پہلے فضول خرچی اور عیاشیوں پر پابندی لگائی اور خود سے آغاز کیا۔ وزیراعظم ہائوس کے چار سو ملازمین کو دیگر محکموں میں بھیجا گیا اور خود چند ملازم رکھے۔ وزیراعظم بنتے ہی انہیں پہلاچیلنج خاکے بنانے کے حوالے سے ڈچ پارلیمنٹ میں منعقد ہونے والے مقابلے کی صورت میں درپیش تھا۔ اس مقابلے کے خلاف پاکستان کی چاروں صوبائی اسمبلیوں، قومی اسمبلی اور سینیٹ سے قرارداد منظور کروائی گئی۔ وزیراعظم عمران خان نے اس معاملے کو اقوام متحدہ اور او آئی سی میں لے جانے کا اعلان کیا۔ تحریک انصاف کی محنت رنگ لائی اور ڈچ حکومت نے 30 اگست (تحریک انصاف کی حکومت بننے کے صرف تیرہ دن بعد) کو یہ مقابلہ کینسل کردیا اور پوری دنیا کے تمام بڑے اخباروں میں یہ سرخی لگی کہ پاکستانی حکومت کے احتجاج کی وجہ سے ڈچ پارلیمنٹ میں ہونے والا تصویری مقابلہ کینسل کر دیا گیا ہے۔ یہ تحریک انصاف کی حکومت کی پہلی کامیابی تھی۔
تجاوزات کے خلاف آپریشن دوسرا بڑا چیلنج تھا۔ اربوں روپے کی سرکاری زمینیں قابضین سے چھڑانے کے لئے کراچی سے لے کر خیبر تک جس طرح آپریشن کئے جا رہے ہیں کیا اس سے قبل ایسا کبھی ہوا تھا۔ ماضی میں تو ایسے قبضوں پر آسانی سے سٹے آرڈر مل جایا کرتے تھے اور لوگ چالیس چالیس سال اراضی پر قابض رہتے تھے۔ اب ایک بلڈوزر جاتا ہے اور چند منٹ میں فیصلہ کر دیتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان اپنے ہر خطاب میں ریاست مدینہ کا ذکر کرتے ہیں اور ریاست مدینہ میں اقلیتوں کو برابر کے حقوق حاصل تھے۔ اسی بنا پر انہوں نے سکھ کمیونٹی کے لئے کرتار پور کوریڈور بنانے کا فیصلہ کیا ۔ سکھ یاتریوں کے لیے کرتارپور انتہائی مقدس مقام ہے جہاں سکھوں کے گرو نانک نے اپنی زندگی کے آخری ایام گزارے تھے اور یہیں ان کی سمادھی بھی ہے۔ گرونانک کے حوالے سے ساڑھے پانچ سو سالہ تقریبات ایک سال بعد یہاں منائی جائیں گی جس کے لئے گزشتہ روز خصوصی راہداری کرتار پور کوریڈور کا سنگ بنیاد رکھ دیا گیا ۔ منصوبے کے تحت کرتارپور کوریڈور فیز 1میں ساڑھے 4 کلومیٹر سڑک تعمیر کی جائے گی اور بارڈر ٹرمینل کمپلیکس بھی بنایا جائے گا جبکہ دریائے راوی پر 8سو میٹر طویل پل اور پارکنگ ایریا بھی بنے گا۔ دوسرے فیز میں ہوٹل اور گردوارہ کرتار صاحب کی توسیع کی جائے گی۔ کرتارپور بارڈر کھلنے سے بھارتی سکھ یاتری بغیر ویزا پاکستان آئیں گے۔ اس فیصلے کے بعد بھارتی سکھ خوشی سے نہال ہو گئے ہیں۔ تقسیم ہند کے بعد بیشتر سکھ بھارتی پنجاب میں رہ گئے تھے جبکہ ان کی کئی عبادت گاہیں پاکستان میں موجود ہیں‘ جہاں آنے کے لئے انہیں ویزا اور طویل مسافت طے کرنا پڑتی ہے‘ جبکہ نارووال کے راستے یہاں آنے کے لئے صرف چار کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنا پڑے گا اور ویزے کی پابندی بھی نہیں ہو گی۔ یہ کام بھی وزیراعظم کے پہلے سو دن کے اندر ہی انجام پایا ہے۔بھارت میں دو کروڑ کے قریب سکھ آباد ہیں۔ اس اقدام سے ان کی ہمدردیاں پاکستان کیلئے مزید گہری ہو جائیں گی۔پہلے سو دنوں میں ایک اور بہتر کام یہ ہوا ہے کہ حکومت نے ماضی کے اچھے منصوبوں کو بند نہیں کیا وگرنہ یہاں تو روایت یہ رہی ہے کہ نئی حکومت آ کر سب سے پہلے ماضی کے منصوبوں کی فہرست نکلواتی اور پھر ان کا بجٹ بند کر دیتی ہے۔ موجودہ حکومت نے انتقامی کارروائیوں میں نہ الجھنے کی پالیسی اختیار کی‘ جو اس لئے بھی درست ہے کہ اس طرح وہ اپنے راستے سے ہٹ جاتی۔فی الوقت جو کیس ن لیگ یا پی پی پی کے سیاستدانوں پر چل رہے ہیں یہ سابق ادوار میں بنے۔ ان سو دنوں میں وزیراعظم یا ان کے کسی وزیر مشیر نے ایک بھی چھٹی نہیں کی‘ جبکہ ماضی میں ہر اتوار کو لاہور میں رائے ونڈ روڈ پر رُوٹ لگ جاتے تھے یا حکمران ویک اینڈ مری میں جا کر مناتے تھے۔ وہیں ان کے لئے ہیلی کاپٹر پر سری پائے منگوائے جاتے تھے۔ وزیراعظم ہائوس میں جانے والے گواہ ہیں کہ اب وہاں وہ چائے کے ساتھ بسکٹوں کے لئے ترستے رہتے ہیں جہاں انہیں من پسند کھانے ملتے تھے۔ سادگی کا یہ معیار ماضی میں قائم کیا جاتا تو آج اوپر سے لے کر نیچے تک سب کو یوں عیاشیوں کی عادت نہ پڑی ہوتی۔آج یہ برداشت کرنا پڑ رہا ہے اس لئے بہت سوں کو تکلیف ہو رہی ہے۔ایک اور اہم جو چیز پہلے سو دنوں میں نظر آئی‘ وہ کرپشن میں کمی ہے۔ ہر کوئی اب سو روپے بھی اِدھر اُدھر کرتے وقت سوچتا ہے کہ اگر پکڑا گیا تو کسی نے سفارش نہیں کرنی۔ یہ پیغام سیدھا وزیراعظم سے نیچے کی طرف آیا ہے کیونکہ وزیراعظم نے بھی صاف کہہ دیا ہے کہ ان کی جنگ ہی کرپٹ لوگوں کے خلاف ہے۔ یہی وجہ ہے کرپشن کے حوالے سے انڈیکس میں پاکستان 175سے کم ہو کر116ویں نمبرپر آ گیا ہے۔ ماضی میں بھی یہ انڈیکس اوپر نیچے ہوتا تھا لیکن آٹھ دس درجے سے زیادہ بہتری نہیں آتی تھی ۔ آخر میں عرض ہے کہ کسی نے اگر تنقید کرنی ہے تو آپ اسے نہیں روک سکتے‘ یہ آپ کی اپنی نظریں ہوتی ہیں جو منظر کو اپنی اپنی سوچ کے مطابق دیکھتی ہیں‘ کسی کو گلاس آدھا کم دکھائی دیتا ہے جبکہ کئی اسے آدھا بھرا ہوا کہتے ہیں۔ یہ گلاس پورا کب بھرے گا اس کے لئے تھوڑا صبر اور انتظار ضروری ہے ۔