نوجوانوںکے حوالے سے حکومت کے سامنے دو بڑے ایشوز ہیں‘ ایک‘ تعلیمی معیار کی بہتری اور دوسرا بیروزگاری میں کمی۔ حکومت یکساں تعلیمی نصاب پر تو پہلے ہی کام کر رہی ہے‘ اس کے ساتھ اسے کچھ مضامین کو جدت پر مبنی نئے مضامین سے تبدیل کرنا ہو گا کیونکہ بعض مضامین میں ایم اے کر کے بھی نوجوان بیروزگار اور اَن پڑھ ہی رہتے ہیں‘ مثلاً :آج اگر کوئی شخص ایم اے اردو‘ پولیٹکل سائنس یا ایم اے صحافت کرتا ہے تو اس کے مستقبل کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ آپ اخبارات اور میڈیا چینلز میں نئے آنے والے نوجوان لڑکے لڑکیوں کو دیکھ لیں‘ یہ سب صحافت میں ماسٹرز کرتے ہیں اور سیدھا اینکر یا کالم نویس بننے کے لئے ٹاپ فائیو چینلز اور اخبارات میں اپلائی کردیتے ہیں۔ ان کے تعلیمی معیار کا یہ حال ہوتا ہے کہ جب انہیں کوئی خبر ترجمہ کرنے کے لئے دی جاتی ہے یا کسی خبر کی سرخیاں نکالنے کے لئے کہا جاتا ہے تو یہ سر کھجانے لگتے ہیں۔ نوے فیصد طلبا تو ایسے ہوتے ہیں جو مہنگائی اور بیروزگاری جیسے عام ایشوز پر ایڈیٹر کی ڈاک کے لئے دو سو الفاظ کا مراسلہ بھی ٹھیک سے نہیں لکھ سکتے۔ آپ ملک کی بڑی جامعات میں زیرتعلیم طلبا کے بھیجے گئے مراسلے دیکھیں تو سر پکڑ کر بیٹھ جائیں ۔ یہ ایک جملہ تک ٹھیک سے نہیں لکھ سکتے ‘ اس کے باوجود یہ مایہ ناز اینکر اور صحافی بننا چاہتے ہیں۔ کیوں؟ کیو نکہ ان کا خیال ہے کہ صحافت انتہائی آسان پیشہ ہے‘ کالم لکھنا انتہائی سادہ سا کام ہے‘ ہزار پندرہ سو لفظ ہی تو لکھنے ہوتے ہیں اور اینکرنگ‘ یہ تو اس سے بھی آسان ہے۔ ایک گھنٹے کا ٹاک شو کرو اور مزے سے لاکھوں روپے کمائو۔ یہ بھیڑ چال صرف میڈیا میں نہیں ‘ اس سے قبل جب ڈاکٹر‘ انجینئر کا دور دورہ تھا سب اسی طرح میڈیکل اور انجینئرنگ یونیورسٹیوں کی طرف بھاگتے تھے‘ لیکن آہستہ آہستہ یہ شعبہ بھی زوال پذیر ہو گیا۔ ڈاکٹر سڑکوں پر ہڑتالیں کرتے دکھائی دینے لگے اور انجینئر نوکری نہ ملنے پر مڈل ایسٹ کی طرف بھاگنے لگے تو لوگوں کا دھیان اس طرف سے ہٹ گیا۔ ہمارے نوجوانوں کا مسئلہ یہ ہے کہ یہ وہ کام نہیں کریں گے جو یہ کر سکتے ہیں‘ جس کا انہیں شوق ہے اور جس میں یہ آگے جا سکتے ہیں‘ بلکہ یہ اس کام کے پیچھے بھاگیں گے جس کے بارے میں کوئی انہیں یہ بتائے گا کہ اس میں فلاں لاکھوں کروڑوں کما رہا ہے۔ نوجوانوں کی کثیر تعداد ایسی ہے جو صرف ایم اے کی ڈگری لینا کافی سمجھتی ہے ‘چاہے وہ کسی مضمون میں ہی کیوں نہ ہو۔ وہ رٹے مار کر ڈگری تو لے لیتے ہیں لیکن جب نوکری نہیں ملتی تو پھر مایوس ہو جاتے ہیں۔ وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود جہاندیدہ شخصیت ہیں‘ انہیں چاہیے وہ ہر شہر اور ہر تحصیل میں کیریئر کونسلنگ سنٹرز قائم کریں جہاں پر طلبا میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کے بعد آئیں اور اپنے اپنے رجحا ن کے مطابق مضامین کا انتخاب کریں۔ اس سے نوجوان بغیر وقت ضائع کئے درست ٹریک پر آ سکیں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ حکومت کو فری لانسنگ سے متعلقہ شعبوں کو ایسے روایتی مضامین کی جگہ نصاب میں شامل کرنا ہو گا‘ جن کی مدد سے نوجوان موجودہ دور کی ضروریات کے مطابق تعلیم حاصل کریں اور ایکٹو مارکیٹ کا حصہ بن سکیں۔فری لانسنگ کے کچھ ایسے مضامین ہیں جو چار پانچ برس قبل تک شارٹ کورسز کے طور پر جانے جاتے تھے اور جنہیں کر کے لوگ چھوٹے موٹے کام شروع کر کے آمدنی حاصل کرتے تھے‘ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ان مضامین کا دائرہ وسیع ہوتا چلا گیا‘ دنیا کی بڑی بڑی یونیورسٹیوں نے ان میں بیچلرز‘ ماسٹرز اور پھر پی ایچ ڈی کی ڈگریاں دینا شروع کر دیں‘ جس کانتیجہ یہ نکلا کہ وہی نوجوان جو بیروزگاری کی طرف راغب تھے‘ ان کا نہ صرف قبلہ درست ہو گیا بلکہ وہ ملکی معیشت میں زرمبادلہ لانے کا باعث بننے لگے۔ مثلاً آپ نے ڈیجیٹل میڈیا مارکیٹنگ کا نام سنا ہو گا۔ پاکستان میں یہ نام اب بھی نیا سا لگتا ہے لیکن بھارت اور دیگر ایسے ممالک میں جہاں انفارمیشن ٹیکنالوجی کا دور دورہ ہے‘ وہاں یہ ایک میگا سبجیکٹ بن چکا ہے۔ٹیکنالوجی کی وجہ سے وہاں بھی ہر چیز کا انداز بدل رہا ہے۔ ہر چیز کے ساتھ ای لگ رہا ہے۔ ای گورنمنٹ‘ ای مارکیٹنگ‘ ای سروسز‘ ای پے منٹ وغیرہ وغیرہ۔ آپ خود سوچیں جب سب کچھ ای پلیٹ فارم پر منتقل ہو رہا ہے تو پھر اس پلیٹ فارم کو چلانے کے لئے بھی لامحالہ ایسے اذہان درکار ہوں گے جو ان باریکیوں کی سمجھ بوجھ رکھتے ہوں چنانچہ جن ممالک میں سارا نظام الیکٹرانک ہو چکا ہے وہاں پر ایم بی اے اِن مارکیٹنگ کی بجائے ایم بی اے اِن ڈیجیٹل میڈیا مارکیٹنگ کروایا جا رہا ہے ۔ آپ فیس بک‘ انسٹاگرام یا کوئی موبائل ایپ کھولیں تو آپ کو اس میں چھوٹے چھوٹے اشتہار چلتے دکھائی دیں گے‘ یہ سب ڈیجیٹیل میڈیا مارکیٹنگ ہے‘یہ کھربوں ڈالر کی معیشت بن چکی ہے اور اس کو سمجھنے اور کرنے کے لئے مختلف حکمت عملی اور نصاب درکار ہیں۔ چنانچہ موجودہ حکومت کو بھی حکمت عملی تبدیل کرنا ہو گی اور الیکٹرانک دنیا میں داخل ہونے کے لئے نوجوانوں کی کھیپ تیار کرنا ہو گی‘ نوجوان چونکہ وزیراعظم عمران خان کے ویسے ہی مداح ہیں تو حکومت کے لئے یہ کام چنداں مشکل نہ ہو گا۔
نوجوانوں کے لئے حکومت کا دوسرا بڑا چیلنج بیروزگاری میں کمی لانا ہے۔یہ کام فری لانسنگ کے ذریعے جلد ممکن ہے۔لوگ پوچھتے ہیں ہم فری لانسنگ کرنا چاہتے ہیں لیکن ہم گائیڈ کریں تو میں ان کی خدمت میں عرض کر دوں کہ پاکستان میں فری لانسنگ کی تربیت سرکاری سطح پر ای روزگار اور ڈیجی سکلز کے ذریعے ہو رہی ہے۔ اگر آپ محدود سیٹوں کی وجہ سے ان پروگراموں میں داخلہ نہیں لے پاتے تو مایوس ہونے کی ضرورت نہیں۔ اس وقت ننانوے فیصد فری لانسر اگر کام حاصل کر رہے ہیں تو یہ سب کسی یونیورسٹی سے نہیں پڑھے ہوئے بلکہ گوگل‘ بلاگز اور یوٹیوب ان کے استاد تھے‘ انہی کے ذریعے انہوںنے فری لانسنگ کے بارے میں معلومات حاصل کیں‘
شروع شروع میں انہیں بھی ناکامیاں ملیں لیکن مسلسل لگن سے یہ کامیابی کی طرف بڑھتے گئے۔ مجھے ایک خاتون نے ای میل میں لکھا کہ اس نے فری لانسنگ کی معلومات آن لائن حاصل کیں اور اب مختلف ویب سائٹس کے لئے کانٹینٹ رائٹنگ کر کے وہ تیس ہزار ماہانہ کما رہی ہے۔ اس کے مطابق وہ چھوٹے بچوں اور گھر کوبھی سنبھالتی ہے اس لئے زیادہ وقت نہیں دے پاتی‘ گھر بیٹھ کربہرحال یہ معقول رقم ہے جس کے لئے اسے کہیں جانا نہیں پڑتا۔ اس کی کہانی بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ جب تک حکومتی سطح پر کوئی بڑا فری لانسنگ پروگرام شروع نہیں ہو جاتا تب تک آپ ہاتھ پہ ہاتھ دھرے تو نہیں بیٹھ سکتے۔ یہ خاتون اس کی ایک مثال ہے۔ ایسے درجنوں افراد مجھے بتاتے ہیں کہ انہوں نے کام شروع کر لیا ہے جبکہ بیشتر افراد شاید شارٹ کٹ چاہتے ہیںجو اس فیلڈ میں بھی ممکن نہیں۔اس دور میں گوگل آپ کا بہترین استاد ہے۔ یوٹیوب پر ہر طرح کے لیکچر اور ایسی ویب سائٹس کی معلومات موجود ہیں‘ جہاں آپ اکائونٹ بنا کر کام شروع کر سکتے ہیں۔ شروع میں ممکن ہے آپ کو ایک دو ماہ مفت کام کرنا پڑے‘ لیکن ایک مرتبہ آپ کی پروفائل بن گئی اور آپ نے پانچ پانچ ڈالر کے تین چار آرڈر بھی کر لئے تو آپ کا اعتماد بھی بڑھ جائے گا اور آپ کو کام بھی ملنا شروع ہو جائے گا۔ اس سے بھی پہلے آپ کو یہ دیکھنا ہو گا کہ آپ میں وہ کون سے ہنر ہیں جو آپ آزما سکتے ہیں ۔ کیا آپ اچھوتے گرافکس‘اینی میشن اور لوگوز ڈیزائن کر سکتے ہیں‘مختلف زبانوں میں تراجم کر سکتے ہیں‘ اکائونٹس کی بیلنس شیٹس بنا سکتے ہیں‘ انگریزی سن کر اس کو ٹائپ کر سکتے ہیں‘ ویب سائٹس یا موبائل ایپ ڈیزائن کر سکتے ہیں‘ پروگرامنگ اور ڈیجیٹل مارکیٹنگ کر سکتے ہیں‘ ویڈیوز پر وائس اوور کر سکتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ اس میں سے جو کام آپ بہتر کر سکتے ہیں وہ کریں‘ اگر نہیں آتا تو کسی کمپیوٹر اکیڈمی سے سیکھیں ‘ کام کا معیار بہتر کریں اور پھر فری لانسنگ کے لئے کوشش کریں‘ آپ کو کام بھی مل جائے گا اور ڈالر بھی ملنے لگیں گے‘ لیکن اگر آپ صرف یہ سوچیں گے کہ بنا کچھ کئے اور سر کھپائے آپ کو چند دنوں میں گھر بیٹھے آمدن ہونا شروع ہو جائے گی تو یہ آپ کی بھول ہے۔ ایسے لوگوں کیلئے بہتر ہے کہ وہ یوٹیوب پر کامیاب فری لانسرز کے چند انٹرویوز سن لیںتاکہ انہیںاندازہ ہو سکے‘ اس میدان میں مشکلات کیا کیا پیش آتی ہیں اور ڈالر کیسے ملتے ہیں۔