میں کمرے میں داخل ہوا تو عجیب منظر دیکھا۔ دس سے پندرہ افراد ایک قطار میں کھڑے تھے۔ سامنے میز کرسی پر ایک بارعب افسر براجمان تھے۔ یہ باری باری ان لوگوں سے مخاطب تھے۔ میں ان کی بات چیت میں مخل ہونے کی بجائے دیوار کے ساتھ لگی کرسیوں پر جگہ دیکھ کر بیٹھ گیا۔ وہ اپنے سٹاف کے ساتھ گفتگو میں اتنے محو تھے کہ انہیں میرے اندر داخل ہونے کا علم بھی نہ ہوا۔ ان کی میز پر درخواستیں سامنے کھڑے افراد سے متعلق تھیں۔ وہ ایک ایک درخواست پڑھتے‘ اس میں موجود شخص کا نام بولتے تو سامنے کھڑا شخص ان سے مخاطب ہو جاتا۔ انہوں نے ایک شخص کا نام بولا‘ رمضان‘ یہ رمضان کون ہے۔ ایک شخص نے ہاتھ کھڑا کیا‘ جی میں ہی رمضان ہوں۔ اچھا تو تمہیں دس دن کی چھٹی چاہیے۔ تم تو پہلے ہی آٹھ دسمبر سے غیر حاضر ہو۔ جی وہ دراصل میرا ہرنیا کا آپریشن ہوا ہے۔ وہ بولے‘ مگر ہرنیا کے آپریشن میں تو بندہ پانچ چھ دن میں ٹھیک ہو جاتا ہے۔ انہوں نے ایک ڈاکٹر کو فون ملایا اور پوچھا: ہرنیا ریکوری میں کتنے دن لگتے ہیں۔ ڈاکٹر نے بتایا ایک سے دو ہفتے۔ وہ بولے‘ تمہیں دو ہفتے ہو چکے ہیں پھر بھی تم دس دن اور چھٹی لینا چاہتے ہو‘ پھر انہوں نے اس کے ٹرانسفر آرڈر لکھے اور پی اے سے کہا: انہیں فلاں جگہ بھیج دیا جائے‘ یہ وہاں کام بھی کریں گے اور ٹھیک بھی ہو جائیں گے۔ کاغذات سے ایک اور شخص کا نام پڑھا اور پوچھا: تمہیں دو ہفتے کی چھٹی کیوں چاہیے۔ وہ بولا: میری شادی ہے۔ افسر نے کہا: شادی کا فنکشن دو تین دن چلتا ہے بس اتنی چھٹی ملے گی‘ پہلے ہی سٹاف کم ہے‘ سب کو ان کی خواہش کے مطابق چھٹی دے دی تو پھر سڑکوں پر ٹریفک کون کنٹرول کرے گا۔ پانچ منٹ کے اندر اندر انہوں نے باقی دس بارہ لوگوں کو بھی بھگتا دیا۔ ان میں زیادہ تر وقت پر ڈیوٹی نہیں کرتے تھے‘ کوئی بغیر اجازت رخصت پر تھا اور کوئی مختلف بہانوں سے مزید چھٹی کرنا چاہتا تھا۔ افسر نے تمام لوگوں کو قانون اور ضابطے بتائے اور کسی کو بھی ریلیکسیشن دینے سے انکار کر دیا۔ جیسے ہی آخری شخص کمرے سے باہر نکلا تو افسر کی نظر مجھے پر پڑی۔ وہ اپنی سیٹ سے اٹھے اور گرمجوشی سے مصافحہ کیا۔ یہ میری چیف ٹریفک آفیسر کیپٹن ریٹائرڈ لیاقت علی ملک سے پہلی ملاقات تھی۔
گزشتہ چھ ماہ سے لاہور شہر میں ٹریفک کی صورت حال میں کافی بہتری دیکھنے میں آئی ہے۔ پہلے جن شاہراہوں اور چوکوں پر وارڈن کبھی کبھار نظر آتے تھے‘ وہاں اب وارڈن نہ صرف موجود ہوتے ہیں‘ بلکہ چاق چوبند ڈیوٹی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ چند ہفتوں سے ہیلمٹ کی مہم چلی ہوئی ہے اور آج اگر آپ کسی بھی شاہراہ پر دیکھیں تو آپ کو نوے فیصد سوار ہیلمٹ پہن کر موٹر سائیکل چلاتے دکھائی دیں گے۔ ہیلمٹ کی پابندی سے نہ صرف سر کی چوٹوں کے واقعات میں نمایاں کمی آئی ہے بلکہ سانس‘ دمے اور سموگ سے بچائو کے باعث لوگوں کی صحت بہتر اور ہسپتالوں میں خواہ مخواہ کا رش بھی کم ہوا ہے۔ لائسنس بنوانے کے لئے بھی مکمل طور پر ضابطوں پر عمل کیا جا رہا ہے اور ماضی کے برعکس اب ڈرائیونگ ٹیسٹ دئیے بغیر لائسنس جاری نہیں ہوتا۔ یہ ساری تبدیلیاں اس سال جون سے آنا شروع ہوئیں کیونکہ جون میں ہی لیاقت علی ملک سی ٹی او لاہور مقرر ہوئے تھے۔ انہوں نے آتے ہی سب سے پہلے اِن ہائوس بہتری لانے کا آغاز کیا‘ اور ٹریفک وارڈنز کو نظم و ضبط کے ساتھ ڈیوٹی کرنے کی تربیت دی۔ یہ بتا کر حیران کر دیا کہ یہاں ایک وارڈن تھا جس کا والد غالباً وکیل تھا‘ وہ وارڈن کئی کئی مہینے اپنی ڈیوٹی سے غیر حاضر رہتا‘ لیکن تنخواہ پوری وصول کرتا۔ سی ٹی او بتاتے ہیں کہ انہوں نے اسے شو کاز نوٹس دیا تو اس کے والد نے سی ٹی او کے خلاف کیس دائر کر دیا۔ اس ملک کی بدقسمتی دیکھئے کہ ایک شخص جو سرکار کا ملازم ہے‘ عوام کی خدمت پر جسے مامور ہونا چاہیے وہ ڈیوٹی کرنے کی بجائے گھر بیٹھے تنخواہ وصول کرنا چاہتا ہے اور اس کے والد صاحب اس کی اس چوری چھپانے میں نا صرف اس کے ساتھ ہیں بلکہ اس کے لئے قانون کا بھی سہارا لئے ہوئے ہیں۔ ایسے گُھس بیٹھیوں اور گھوسٹ ملازمین کی وجہ سے ہی ہمارے ادارے تباہ ہو چکے ہیں۔ اگر ماضی میں ٹریفک کے محکمے میں اس طرح کی بھرتیاں کی گئی ہیں تو پھر پی آئی اے اور سٹیل ملز جیسے اداروں میں کس قدر لوگ گھر بیٹھے تنخواہ لے رہے ہوں گے۔ میری لیاقت ملک صاحب سے ملاقات کوئی ڈیڑھ گھنٹہ جاری رہی اور یقین کریں ان ڈیڑھ گھنٹوں میں انہیں کوئی چالیس سے پچاس کالیں ایسی آئیں جن میں ان پر کسی نہ کسی ادارے یا شخصیت کی جانب سے دبائو ڈالنے کی کوشش کی گئی لیکن انہوں نے ہر ایک کو صاف اور سیدھا جواب دیا اور کہا کہ اصولوں سے ہٹ کر کوئی اقدام نہیں کریں گے اور اس کے لئے وہ کوئی بھی قیمت ادا کرنے کو تیار ہیں۔ چند روز قبل چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ اپنا ڈرائیونگ لائسنس بنوانے کے لئے عام عوام کی طرح ٹریفک دفتر میں تشریف لائے اور ٹوکن لے کر اپنی باری پر لائسنس بنوایا۔ اس طرح کی مثالیں ہم ماضی میں کم ہی دیکھتے تھے۔ ماضی میں تو تمام عملہ سامان سمیت ایسی شخصیات کے پاس خود حاضر ہوتا تھا لیکن اب ایسا ہوتا نظر نہیں آتا۔
ٹریفک مسائل کی ساری ذمہ داری محکمے پر نہیں ڈالی جا سکتی۔ بھارت میں اگر آٹھ سو افراد کے لئے ایک ٹریفک وارڈن ہے‘ تو پاکستان میں چودہ سو لوگوں کے لئے ایک وارڈن ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ ٹریفک والوں کو نہ تو ان کی ضرورت کے مطابق سامان‘ گاڑیاں اور بجٹ دیا جاتا ہے اور نہ ہی ان پر فالتو بوجھ ڈالنے سے گریز کیا جاتا ہے۔ اس کے برعکس موٹر وے اور نیشنل ہائے پولیس کو ہر سال نئی گاڑیاں اور جیپیں ملتی ہیں‘ ان کے افسران اور ملازمین کی تنخواہیں بھی زیادہ ہیں‘ انہیں بونس اور چھٹیاں بھی ملتی ہیں اور موٹروے پر ٹریفک کا دبائو اور جلسے جلوس وغیرہ بھی نہیں ہوتے لیکن وارڈن کم تنخواہ کے ساتھ سڑکوں پر دھواں‘ گرمی ‘ سردی اور سموگ کا مقابلہ کرتے ہیں۔ ٹریفک عملہ کے دفاتر میں جائیں تو یہ باتھ روموں میں بیٹھ کر کمپیوٹر اور ٹوٹی پھوٹی میزوں کرسیوں پر کام کرنے پر مجبور ہیں۔ تیرہ تیرہ سال سے آج بھی وہی زنگ آلود گاڑیاں ڈرائیونگ ٹیسٹ سنٹرز میں موجود ہیں‘ جن کا پٹرول بھی وارڈنز کو اپنی جیب سے ڈلوانا پڑتا ہے۔ لاہور میں نو نو کلومیٹر طویل سگنل فری سڑکیں تو بنا دی گئیں لیکن ان کے آخر میں انتہائی تنگ پل‘ جیسا کہ قینچی پل‘ کھلے نہ کئے گئے جس کی وجہ سے پیچھے سے آنے والی طویل ٹریفک یکدم تنگ جگہ آنے پر روزانہ جام ہونا شروع ہو گئی۔ یہ منصوبہ بندی کا فقدان تھا یا سراسر نا اہلی‘ تاہم اس کا خمیازہ اور اس کی گالیاں بھی سی ٹی او سے لے کر ٹریفک وارڈنز کو سننا پڑتی ہیں۔ اوپر سے ہر روز وی آئی پی رُوٹس‘ جلسے‘ جلوسوں اور دھرنوں نے ٹریفک کا نظام درہم برہم کر رکھا ہے اور اس کا قصور وار بھی ٹریفک والوں کو ہی ٹھہرایا جاتا ہے۔ کہیں ایکسیڈنٹ ہو جائے تو گاڑیاں یا ملبہ ہٹانے کے لئے مشینری بھی انہیں میسر نہیں‘ غلط پارکنگ پر گاڑی اٹھائی جائے تو اسے رکھنا کہاں ہے وہ جگہ بھی مہیا نہیں۔ ان ساری مشکلات اور وسائل کی عدم دستیابی کے باوجود مجھے لیاقت علی ملک انتہائی پرعزم اور پرجوش دکھائی دئیے۔ انہوں نے مجھے اگلے مہینوں کے پلان بھی دکھائے کہ کس کس طرح وہ ہر مہینے ایک نئے ٹاسک پر عمل درآمد کروائیں گے۔ میری ان سے ایک گزارش ہے کہ ہیلمٹ کی پابندی اچھا اقدام ہے لیکن یہ جو گاڑیوں میں لگی ہائی انٹینسیٹی لیمپ والی بتیاں آنکھوں کو اندھا کر رہی ہیں ان کے خلاف ایکشن اسی طرح لیا جائے جیسے ہیلمٹ یا ٹوکن ٹیکس کے حوالے سے ایکشن لیا جاتا ہے۔ صوبائی حکومت اگر پروٹوکول انتہائی کم کر دے‘ ٹریفک کے محکمے کا سروس سٹرکچر موٹر ویز کے برابر لے آئے‘ اسے بھی اچھی گاڑیوں‘ اچھے فرنیچر اور جدید آلات سے لیس کر دے تو جس طرح عوام موٹر وے پر شوق سے قانون پر عمل کرتے ہیں‘ وہ شہر کی سڑکوں پر بھی قانون کا از خود احترام کرنے لگیں گے‘ جس سے ٹریفک کے دبائو اور نظم و ضبط میں زبردست تبدیلی آ جائے گی اور یہ کام عمران خان کے بقول سیاست کے وسیم اکرم‘ وزیر اعلیٰ عثمان بزدار بآسانی کر سکتے ہیں۔