آپ کو یونہی بیروزگار رہنا ہے یا فری لانسنگ اور ای روزگار کے ذریعے اپنی زندگی بنانی ہے‘ فیصلہ آپ نے خود کرنا ہے۔
لاہور میں لارنس روڈ پر باغ جناح کے بالکل سامنے امتحانی مرکز واقع ہے جہاں میٹرک سے لے کر میڈیکل اور انجینئرنگ تک کے انٹری ٹیسٹ اور دیگر امتحانات لیے جاتے ہیں۔ جس روز یہاں کوئی امتحان ہوتا ہے تو چائنا چوک سے لے کر چڑیا گھر تک ٹریفک بلاک ہو جاتی ہے اور ہر طرف گاڑیاں اور موٹر سائیکلیں بھر جاتی ہیں۔گزشتہ صبح بھی یہاں امتحان ہو رہا تھا اور طلبا اور ان کے والدین کی بڑی تعداد موجود تھی۔میں نے ایک معمر خاتون سے پوچھا کہ آج کس چیز کا امتحان ہے تو اس نے بتایا کہ ایک سرکاری محکمے میں پچاس کے قریبی اسامیاں آئی ہیں جن کے لئے تحریری امتحان ہو رہا ہے۔کہنے لگیں‘ ہم سرگودھا میں مقیم ہیں اور گزشتہ رات اپنے رشتہ داروں کے ہاں کامونکی میں گزار کر آج علی الصباح یہاں امتحان کیلئے پہنچے ہیں۔ میری بیٹی نے Stats میں ماسٹرز کیا ہوا ہے اور وہ سرکاری نوکری کی خواہشمند ہے۔ میں نے پارکنگ سٹینڈ پر نظر دوڑائی۔ چار پانچ ہزار بائیکس اور گاڑیاں ہوں گی گویا یہ ہزاروں لوگ پچاس اسامیوں کے امیدوار تھے۔ خاتون کہنے لگی: میری بیٹی نے یونیورسٹی کے جس بیچ میں ماسٹرز کیا تھا‘ اس سے تین بیچ پرانے لڑکے لڑکیوں کو بھی ابھی تک کہیں نوکری نہیں ملی؛ تاہم امید کے سہارے ہم کوشش کئے جا رہے ہیں۔
اب میں آپ کو لاہور کے سلیمان یامین کی کہانی سناتا ہوں۔ سلیمان نے بھی چھ سال قبل لاکھوں طلبا کی طرح یہ سوچ کر ایم اے کیا تھا کہ تعلیم مکمل کرتے ہی فٹا فٹ نوکری مل جائے گی؛ تاہم پاکستان کی سب بڑی سرکاری یونیورسٹی سے پبلک ایڈمنسٹریشن میں ماسٹرز کرنے کے بعد اسے نجی کمپنیوں میں چھوٹی موٹی نوکریاں تو ملیں لیکن ان میں گزر بسر انتہائی مشکل تھی۔ ایک سال قبل اچانک نوکری ختم ہوئی تو دن کاٹنے مشکل ہو گئے۔ ایسے میں کسی نے فری لانسنگ کا مشورہ دیا اور ای روزگار پروگرام کا بتایا۔ ای روزگارپنجاب آئی ٹی بورڈ کا سرکاری فری لانسنگ تربیتی پروگرام ہے‘ جو دو سال قبل شروع کیا گیا تھا۔ اس کے ڈائریکٹر جنرل ساجد لطیف ہیں اور اس پروگرام سے اب تک پانچ ہزاربیروزگار لڑکے لڑکیاں تربیت حاصل کر کے سات کروڑ روپے سے زائد رقم کما چکے ہیں۔ ای روزگار کے پنجاب بھر میں 25سنٹر کام کر رہے ہیں۔ صرف لاہور میں چار سنٹر موجود ہیں‘ جن میں سے ایک لاہور کالج فار ویمن صرف خواتین کے لئے مخصوص ہے‘ جبکہ انجینئرنگ یونیورسٹی‘ تیانجن یونیورسٹی اور پنجاب یونیورسٹی میں قائم سنٹرز میں مرد و خواتین ایک ساتھ تربیت حاصل کر سکتے ہیں۔ اس پروگرام میں داخلے کے لئے ماسٹرز ڈگری‘ پینتیس سال کی عمر اور بیروزگاری کی شرائط تھیں۔ سلیمان نے ٹیسٹ اور انٹرویو پاس کر لیا اورپنجاب یونیورسٹی سنٹر میں تین ماہ کے تربیتی کورس میں داخلہ لے لیا۔ یہاں ہفتے میں پانچ دن کلاسیں ہوتی تھیں جن میں انسٹرکٹر طلبا کو انٹرنیٹ سے تکنیکی‘ غیر تکنیکی اور کری ایٹو ڈیزائن کے شعبوں میں کام کر کے پیسے کمانے کے طریقے بتاتے تھے۔ سلیمان نے دل لگا کر محنت کی اور تین ماہ کی تربیت کے دوران ہی آن لائن آمدنی شروع کر لی۔ہر ای روزگار سنٹر کے طلبا کا آپس میں کارکردگی کا ایک مقابلہ ہوتا ہے۔ سلیمان نے اس میں پہلی پوزیشن حاصل کی۔ اس کے علاوہ پنجاب بھر کے پچیس ای روزگار سنٹرز میں پوزیشن لینے والے طلبا کے مابین مقابلے میں بھی سلیمان نے اول پوزیشن حاصل کی۔ یہاں سے سلیمان ارفع ٹیکنالوجی پارک میں جاری سٹارٹ اپ پراجیکٹ پلان نائن میں آ گیا۔ پلان نائن پنجاب انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ کا منصوبہ ہے جہاں طلبا گروپ کی شکل میں چھ ماہ کے لئے کسی جدت پر مبنی منصوبے پر کام کرتے ہیں۔ اس منصوبے کو باقاعدہ کاروباری نفع بخش کمپنی کی شکل دینے کے لئے ان کی بھرپور مالی‘ قانونی اور تربیتی معاونت کی جاتی ہے اور ان کے منصوبے کو ملکی و غیر ملکی سرمایہ کاروں کے سامنے رکھا جاتا ہے‘ جس کے بعد یہ منصوبہ باقاعدہ کاروباری شکل اختیار کر جاتا ہے۔ پلان نائن سے اب تک ایک سو ساٹھ گروپس گریجوایٹ ہو چکے ہیں اور سات ارب سے زائد کا ریونیو کما چکے ہیں جبکہ کئی کمپنیاں عالمی سطح پر نمو پا چکی ہیں۔ سلیمان چونکہ سائبر سکیورٹی میں مہارت رکھتا تھا؛ چنانچہ اس نے اپنے دیگر چار ساتھیوں کے ساتھ مل کر انٹرنیٹ سکیورٹی کا سٹارٹ اپ شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔ملک بھر کے آٹھ سو سے زائد گروپس میں سے دس گروپس منتخب کیے گئے‘ جن میں سلیمان کا گروپ بھی شامل تھا۔ سلیمان کو اس گروپ میں کام کرتے ہوئے تین ماہ ہو گئے ہیں اور وہ ویب سائٹس اور انٹرنیٹ پورٹلز کی سکیورٹی پر کام کر رہا ہے۔ گزشتہ ماہ پاکستان کے ایک بینک پر سائبر حملہ ہوا اور صارفین کے کروڑوں روپے چرا لئے گئے تو سلیمان نے مختلف فورمز اور میڈیا پر اپنی خدمات پیش کیں۔ ٹی وی چینلز سائبر سکیورٹی کے معاملے میں سلیمان کے دھڑا دھڑ انٹرویوز کرنے لگے۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہو گی کہ پاکستان کے تقریباً تمام بڑی ایکسپورٹ کمپنیوں کا اہم ڈیٹا بھارتی کمپنیوں نے چوری کر کے ڈیپ ویب میں رکھا ہوا ہے‘ جہاں بھارتی ہیکرز پیسے لے کر عالمی منڈی میں یہ ڈیٹا فروخت کر دیتے ہیں۔سلیمان کا سٹارٹ اپ پاکستان کے ایسے کاروباری اداروں کی ویب سائٹس اور اہم ڈیٹا کو محفوظ بنانے کیلئے خصوصی سروسز مہیا کر رہاہے۔ چنانچہ سلیمان یامین جو ایک سال قبل بیروزگار تھا‘ اب نہ صرف ای روز گار اور پلان نائن کے ذریعے اچھی خاصی آمدن کما رہا ہے بلکہ آئندہ چند برسوں میں تین سو لوگوں کو روزگار دینے کا ارادہ بھی رکھتا ہے۔ یہ سلیمان کے بیروزگاری سے انٹرپرینور شپ کے ایک سالہ سفرکی چھوٹی سی داستان تھی۔
سلیمان کی طرح کے لاکھوں نوجوان ایسے ہوں گے جو اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں اورذہانت اور تجربے میں اعلیٰ مقام رکھتے ہیں‘لیکن وہ یا تو بے روزگار ہوں گے یا پھر نوکری اور تنخواہ میں ان کا گزارا نہیں چل رہا ہو گا اور ایسا صرف پاکستان میں نہیں ہو رہا‘ آج کل پوری دنیا میں روایتی نوکریوں کا رجحان تیزی سے کم ہو رہا ہے اور کاروباری ادارے فری لانسنگ کی طرف متوجہ ہو رہے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق امریکہ میں اس وقت چوبیس فیصد افراد نوکریاں چھوڑ کر فری لانسنگ کر رہے ہیں اور یہ تعدادصرف نو سال بعد دو گنا ہو جائے گی۔ اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ نوکری دینے والے بھی کم ہو جائیں گے اور وہ بھی فری لانسنگ پر ہی بھروسہ کریں گے حتیٰ کہ اخباروں اور ٹی وی چینلوں کے سب ایڈیٹر‘پیچ میکر‘ وائس اوور اور گرافکس اینی میشن ایکسپرٹس‘ رپورٹرز اور نان لینئر ایڈیٹرز وغیرہ بھی فری لانسرز ہی ہوں گے اور گھروں سے خبریں اور آڈیو ویڈیو پیکیج بنا کر اور صفحے تیار کر کے ٹی وی چینلز اور پرنٹنگ پریس کو بھیج دیا کریں گے اور اخبار چھاپنے اور ٹی وی چلانے کی لاگت انتہائی کم ہو جائے گی جو میڈیا مالکان کیلئے تو اچھی خبر ہو گی ہی ساتھ میں ملازمین کے لئے بھی کمائی کے نئے مواقع لائے گی کیونکہ اس طرح ملازمین صرف ایک اخبار یا ٹی وی کی بجائے گھر بیٹھ کر پوری دنیا کے اخبارات اور اداروں کے لئے کام کر کے پیسے کما سکیں گے۔ امریکہ اور برطانیہ جیسے جدید ممالک میں بھی قانون کی رُو سے ملازموں کو تنخواہ کے علاوہ کئی طرح کی مراعات دینا پڑتی ہیں جن میں میڈیکل الاؤنس‘ ہاؤس رینٹ‘ یوٹیلٹی الاؤنس پنشن وغیرہ شامل ہیں۔اس کے علاوہ دفتر میں بیٹھنے کے اخراجات‘ فرنیچر‘ بجلی اے سی کے بل وغیرہ کے اخراجات بھی شامل ہوتے ہیں‘ جبکہ فری لانسنگ میں ادارے آن لائن جتنا کام کرواتے ہیں اتنے پیسے ادا کر کے کام وصول کر لیتے ہیں۔بظاہر اس میں کام کرنے والوں کی سکیورٹی کم دکھائی دیتی ہے‘ لیکن دوسری طرف ان کیلئے کام کے مواقع ہزار گنا بڑھ جاتے ہیں‘ وہ پوری دنیا کے ساتھ منسلک ہو جاتے ہیں اور جس قدر چاہے پیسہ کما سکتے ہیں‘ جو نوکری میں بہرحال ممکن نہیں اور یقین جانئے فری لانسنگ کا انٹرنیٹ پر اتنا کام میسر ہے کہ آپ کی اگلی سات نسلیں دن رات کام کرتی رہیں تو بھی کام ختم ہونے کو نہیں آئے گا۔ وزیراعظم عمران خان انفارمیشن ٹیکنالوجی کے فروغ کیلئے پرعزم ہیں۔ وہ اگر ای روزگار اور پلان نائن جیسے منصوبوں کا بجٹ بڑھا کر اس کا دائرہ کار ملک کے کونے کونے تک پھیلا دیں تو دو تین برسوںمیں ایک کروڑ افراد بڑی آسانی کے ساتھ برسرروزگار ہو سکتے ہیں۔