ڈاکٹر عطاالرحمن پاکستان کے ممتاز کیمیا دان ہیں۔ وہ اقوام متحدہ کی کمیٹی برائے سائنس و ٹیکنالوجی کے شریک چیئرمین‘ اسلامی ممالک کی سائنس اکیڈمیز نیٹ ورک کے صدر اور چائنیز سائنس اکیڈمی کے رکن بھی ہیں۔ ڈاکٹر عطاالرحمن نے پاکستان میں اساتذہ کو نیا مقام اور تحقیق کو نیا جنم دیا۔ وہ 2002ء سے 2008ء تک وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی اور چیئرمین ہائیر ایجوکیشن کمیشن رہے۔ اس دوران وزارت سائنس کے ڈویلپمنٹ بجٹ میں چھ ہزار اور ہائر ایجوکیشن کے بجٹ میں ساڑھے تین ہزار فیصد اضافہ ہوا۔ ان کی پالیسی کے ثمرات یوں سامنے آئے کہ آج بھارت کے سالانہ 708 جبکہ پاکستان کے 916 بین الاقوامی تحقیقی مقالہ جات شائع ہو رہے ہیں۔ ڈاکٹر عطاالرحمن کے دور میں اساتذہ کی تنخواہیں سات گنا جبکہ اعلیٰ پروفیشنلز کی تنخواہیں وفاقی وزرا کی تنخواہوں سے چار گنا بڑھا دی گئیں۔ وہ اساتذہ پر ٹیکس کی شرح 35 سے کم کرکے 5 فیصد پر لے آئے تھے۔ ان کے دور میں گیارہ ہزار طلبا کو سرکاری وظیفے پر اعلیٰ تعلیم کیلئے بیرون ملک بھیجا گیا۔ ہر طالب علم کو وطن واپسی سے ایک سال قبل ایک لاکھ ڈالر کی گرانٹ اپلائی کرنے کا موقع دیا گیا تاکہ وہ واپس آ کر سنجیدہ تحقیقی پروگرام شروع کر سکے۔ ڈاکٹر عطاالرحمن کے اس پروگرام کی بازگشت بھارت کے وزیر اعظم من موہن سنگھ تک پہنچ گئی۔ 23 جولائی 2006ء کو نیہا مہتا نے ہندوستان ٹائمز میں آرٹیکل لکھا جس کا عنوان تھا‘ Pak Threat to Indian Science۔ مضمون میں بتایا گیا کہ بھارتی وزیر اعظم کی سائنٹفک ایڈوائزری کونسل کے چیئرمین سی این رائو نے وزیر اعظم من موہن سنگھ کو بریفنگ دی کہ پاکستان نے گزشتہ چند برسوں میں اپنے محققین اور سائنسدانوں کی تنخواہیں کئی گنا بڑھا دی ہیں‘ جس سے پاکستان میں سائنس کا شعبہ انتہائی پرکشش بن گیا ہے‘ صورتحال یہی رہی تو پاکستان جلد چین کے برابر پہنچ جائے گا جو بھارت کیلئے اچھا نہیں ہو گا‘‘۔ بعد ازاں نقل کرتے ہوئے بھارت نے پاکستان کی طرز پر ہائیر ایجوکیشن آف انڈیا کی بنیاد رکھ دی۔
شاندار خبر یہ ہے کہ تعلیم و تحقیق کے میدان میں بھارت کے پسینے چھڑوانے والے ڈاکٹر عطاالرحمن ایک مرتبہ پھر اپنی فارم میں واپس آنے کو ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے انہیں ٹیکنالوجی پر مبنی نالج اکانومی کی ٹاسک فورس کے وائس چیئرمین کی ذمہ داری دی ہے۔ گزشتہ دنوں لاہور کالج برائے خواتین یونیورسٹی میں منعقدہ ایک سیمینار میں ڈاکٹر عطاالرحمن سے ملاقات کا موقع ملا‘ جہاں انہوں نے نالج اکانومی پر انتہائی خوبصورت خطاب کیا۔ پاکستان علم کی ترویج سے کہاں تک جا سکتا ہے‘ اس کی ایک جھلک ڈاکٹر عطاالرحمن نے پروجیکٹرز کی مدد سے دکھائی۔ ڈاکٹر صاحب نے انکشاف کیا کہ دنیا میں قدرتی وسائل‘ تیل و معدنیات پر انحصار کم ہو رہا ہے اور اس کی جگہ نالج اکانومی لے رہی ہے۔ چین اور یورپی ممالک کی مثال دیتے ہوئے بتایا کہ اب اسی ملک کی معیشت ترقی کرے گی جہاں علم و تحقیق پر کام ہو گا۔ سنگاپور‘ جس کی آبادی پچاس لاکھ سے بھی کم ہے اور جو رقبے میں کراچی سے تین گنا چھوٹا ہے‘ کی برآمدات چار سو ارب ڈالر سے زائد ہو چکی ہیں جبکہ پاکستان بائیس کروڑ آبادی کے باوجود صرف 24 ارب ڈالر کی برآمدات تک پہنچ سکا ہے۔ 1960ء سے لے کر 2010ء تک سنگاپور کا برطانیہ سے تقابل کیا جائے تو پتہ چلتا ہے 1960ء میں سنگاپور کی فی کس آمدنی تین ہزار ڈالر تھی جبکہ برطانیہ کی بارہ ہزار ڈالر۔ 2010ء میں سنگاپور کی فی کس سالانہ آمدن پچاس ہزار ڈالر تک پہنچ گئی جبکہ برطانیہ کی بمشکل تیس ہزار ڈالر کو چھو سکی۔ اور آج 93 ہزار ڈالر فی کس آمدنی کے ساتھ سنگاپور دنیا میں ساتویں نمبر پر‘ برطانیہ چوالیس ہزار ڈالر کے ساتھ انتالیسویں جبکہ پاکستان ساڑھے پانچ ہزار ڈالر کے ساتھ 172ویں نمبر پر کھڑا ہے۔ سنگاپور میں نہ تو تیل کی دولت ہے نہ ہی کوئی اور معدنی ذخائر‘ یہ صرف نالج اکانومی کے باعث دنیا پر چھا رہا ہے۔ ڈاکٹر عطاالرحمن نے چین کی مثال دی۔ چین نے اپنے طلبہ کو اعلیٰ تعلیم و تحقیق کیلئے دنیا کی بہترین یونیورسٹیوں میں بھیجنا شروع کیا۔ 2011ء سے 2015ء کے درمیان اکیس لاکھ چینی بیرون ملک اعلیٰ تعلیم کیلئے گئے۔ یہ واپس آئے اور چین کو دنیا کا نمبر ایک ملک بنانے کیلئے جُت گئے۔ یہی وجہ ہے کہ آج ساٹھ فیصد ممالک کی نبض چین کے ہاتھ میں ہے۔
وزیراعظم عمران خان کی اس ٹاسک فورس کا بنیادی مقصد نالج اکانومی کا فروغ ہے۔ یہ فورس ہائی ٹیک الیکٹرانکس اشیا‘ سافٹ ویئرز کی تیاری اور برآمدات پر کام کرے گی‘ ٹیکنیکل ٹریننگ اور اعلیٰ معیار کی زراعت پر زور دے گی اور نئے ابھرنے والے شعبوں مثلاً مصنوعی ذہانت‘ مشین لرننگ‘ اینٹرپرینیورشپ‘ بائیو اور نینو ٹیکنالوجی کے فروغ کیلئے کام کرے گی۔ ایم آئی ٹی‘ ہارورڈ‘ سٹینفرڈ جیسی دنیا کی بہترین یونیورسٹیوں کے کورسز کو ملک بھر کے سکولوں‘ کالجوں اور یونیورسٹیوں کے ساتھ آن لائن نتھی کیا جائے گا‘ جس سے طلبا کے تعلیمی معیار اور ویژن میں زبردست تبدیلی آئے گی۔ ڈاکٹر عطاالرحمن نے کہا: دنیا میں درمیانی سطح کی بجائے ہائی ٹیک ایجادات کے باعث زیادہ ترقی ہوئی ہے اور ہم پاکستان کو اسی طرف لے جانا چاہتے ہیں۔ انہوں نے بتایا: دنیا میں چھپکلی پر تحقیق کی جا رہی ہے کہ جس کی دم کٹ جائے تو دوبارہ اُگ آتی ہے‘ جس مادے کے ذریعے ایسا ہوتا ہے اسے انسانوں میں استعمال کرکے ان میں کٹے ہوئے اعضا بھی دوبارہ اُگائے جا سکیں گے۔ چین کی نانکائی یونیورسٹی نے ایسی ٹیکنالوجی دریافت کی ہے جس کے ذریعے انسان صرف دماغ میں آنے والے خیالات کی مدد سے گاڑی چلا سکتا ہے۔ ڈیلی ٹیلی گراف کے ایک مضمون کے مطابق ایک ایسی الیکٹرانک ٹافی بھی ایجاد ہو چکی ہے جسے زبان سے چھونے سے نابینا افراد دیکھنے کے قابل ہو سکیںگے۔ نیویارک کی ایک لیب میں ایک ایسی ڈیوائس بن چکی ہے جسے کان میں لگانے سے آپ دوسرے شخص کی زبان کا مرضی کا ترجمہ ساتھ ساتھ اپنے کانوں میں سن سکیں گے۔ امریکی فوج مچھر جتنا ڈرون بنا چکی ہے جس پر خفیہ کیمرہ اور مائیک نصب ہے۔ یہ مچھر امریکہ مبینہ طور پر دنیا کے مختلف ممالک میں صدور‘ وزرائے اعظم اور ملٹری لیڈرشپ کے کمروں میں چھوڑتا ہے اور وہاں سے ان کی خفیہ ریکارڈنگز حاصل کی جاتی ہیں۔ ایسے میٹریل بن چکے ہیں جن کی بنی چادر کسی انسان پر ڈال دی جائے تو وہ نظروں سے اوجھل ہو جاتا ہے۔ ایسے الیکٹرانک کپڑے ایجاد ہو چکے ہیں جن کو پہننے کے بعد ان کا رنگ اور ڈیزائن ایک وائس کمانڈ سے تبدیل کیا جا سکتا ہے اور جرمن ماہرین نے ایسا جزو تک تیار کر لیا ہے جس کے ذریعے بڑھاپے کے عمل کو سست کیا جا سکے گا اور انسان طویل عرصے تک جوانی کی زندگی گزار سکے گا۔
عمران خان نے ڈاکٹر عطاالرحمن کا انتخاب کرکے شاندار قدم اٹھایا ہے؛ تاہم میری ان سے درخواست ہے وہ ڈاکٹر عطاالرحمن کو ایک طرف اور پوری کابینہ کو دوسری طرف رکھیں۔ یہ ڈاکٹر صاحب کو ہر وزیر‘ ہر میٹنگ‘ ہر دورے اور ہر کام سے زیادہ اہمیت دیں۔ جس وقت بھی ڈاکٹر عطا وزیراعظم سے بات یا ملاقات کرنا چاہیں ان کی ہاٹ لائن پر بات اور ملاقات کروائی جائے‘ جس طرح کوریا اور آسٹریا میں وزیر تعلیم و سائنس کا درجہ نائب وزیر اعظم کے برابر ہے‘ اسی طرح ڈاکٹر عطا کو بھی نائب وزیر اعظم کا عہدہ دیا جائے۔ وزیر اعظم ایک ایڈوائس کے ذریعے ڈاکٹر عطاالرحمن کی پیش کردہ تجاویز اور اصلاحات کو قانونی درجہ دیں‘ ان کے منصوبوں کیلئے ہر طرح کی لاجسٹکس‘ بجٹ اور مدد ارجنٹ بنیادوں پر فراہم کی جائے‘ حکومت انہیں ایک پرائیویٹ ہیلی کاپٹر اور طیارہ بھی دے‘ ڈاکٹر صاحب اور ان کی ٹیم‘ دونوں جب چاہیں جتنا چاہیں یہ ہیلی کاپٹر اور طیارہ استعمال کریں۔ ماضی میں اگر قوم یہی ہیلی کاپٹر اور طیارے فضول خرچی کے لئے استعمال کرتا دیکھ اور برداشت کر چکی ہے تو آج یہ اس ملک میں تبدیلی لانے کی عمران خان کی خواہش اور ڈاکٹر عطاالرحمن کی کاوشوں کیلئے کیوں اجازت نہیں دے سکتی۔ حکومت کا بنیادی ماٹو بھی تبدیلی لانا ہے اور ڈاکٹر عطا الرحمن تو عشرہ قبل ریسرچ کے میدان کو ری شیپ کر بھی چکے۔ میں یقین سے کہتا ہوں کہ حکومت اگر انہیں فری ہینڈ دے دے‘ انہیں اگلے ساڑھے چار سال کے لئے اعلیٰ سطحی اختیارات فراہم کر دے اور ان کے منصوبوں کیلئے خزانوں کے منہ کھول دے‘ تو ڈاکٹر عطاالرحمن اس ملک کو سنگاپور سے بھی بڑی نالج اکانومی بنا سکتے ہیں۔ یہ اس ملک کی کایا تک پلٹ سکتے ہیں!