یہ واقعہ امیرالمومنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے دور ِمبارک کا ہے۔
دو مسافر کافی چلنے کے بعد تھک گئے تو انہیں شدت سے بھوک محسوس ہوئی۔ وہ ایک سایہ دار درخت کے نیچے اطمینان سے بیٹھ گئے اور اپنے اپنے توشے دسترخوان پر رکھ دئیے۔ ایک کے پاس پانچ روٹیاں تھیں اور دوسرے کے پاس تین۔ ابھی کھانا شروع نہیں کیا تھا کہ ایک تیسرا مسافر پاس سے گزرا‘ اس نے انہیں سلام کیا۔ انہوں نے سلام کا جواب دیا اور اسے کھانے کی دعوت دی۔ وہ بے تکلف ہو کر شریک ہو گیا۔ تینوں نے روٹیاں برابر کھائیں۔ کھانا ختم ہونے کے بعد وہ صاحب کھڑے ہوئے اور ان دونوں کے سامنے آٹھ درہم رکھتے ہوئے کہا‘ میں نے آپ دونوں صاحبان کا جو کھانا تناول کیا ہے‘ اس کے عوض یہ درہم رکھ لیجئے۔ وہ صاحب تو درہم دے کر چلے گئے مگر ان دونوں حضرات کے درمیان بٹوارے کا تنازع کھڑا ہوگیا۔ جن صاحب کی پانچ روٹیاں تھیں ان کا کہنا تھا کہ ''پانچ درہم میرے اور تین تمہارے‘‘ انہوں نے یہ فیصلہ شاید اس لئے کیا کہ وہ سمجھ رہے تھے کہ رقم دینے والے نے آٹھ درہم اسی لئے دئیے کہ ہر روٹی کے عوض ایک درہم دیا جائے۔ اس لئے پانچ روٹیوں کے مالک اپنے حق میں پانچ درہم رکھنا چاہتے تھے اور دوسرے صاحب کو تین روٹیوں کے عوض تین درہم دینا چاہتے تھے۔ مگر دوسرے صاحب تین درہم لینے کے لئے تیار نہیں تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ رقم چونکہ دونوں کو ایک ساتھ دی ہے اس لئے اس کے برابر حصے کیجئے‘ اس طرح میرے حصے چار درہم آنے چاہئیں۔ وہ چار درہم لینے کے لئے بضد تھے۔آخرباہمی گفت و شنید سے مسئلہ حل نہ ہو سکا تو وہ امیر المومنین حضرت علی ؓ کی بارگاہ میں فیصلے کے لئے حاضر ہوئے۔ دونوں نے پورا واقعہ تفصیلاً بیان کر دیا۔ پورا واقعہ سننے کے بعد آپ نے تین روٹی والے سے فرمایا کہ جب تمہارا ساتھی تین درہم تمہیں دینے کے لئے تیار ہے تو تم تین درہم پر راضی ہو جائو لیکن وہ چار پر ہی اڑ گیا۔ آپ نے اس سے فرمایا ویسے وہ تمہیں تین درہم دے کر تم پر احسان کرنا چاہتا ہے ورنہ انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ تمہیں ایک ہی درہم ملنا چاہیے۔ اس شخص نے بہت ہی ادب سے کہا‘ سبحان اللہ اگر انصاف کا یہی تقاضا ہے تو مجھے اس کی وجہ بتائیے میں قبول کر لوں گا۔ حضرت علیؓ نے اسے سمجھاتے ہوئے فرمایا: روٹیاں آٹھ تھیں اور کھانے والے تین۔ ظاہر ہے کہ تین پر آٹھ برابر تقسیم نہیں ہو سکتے۔ اس لئے مانا یہ جائے گا کہ سب نے برابر روٹیاں کھائی ہیں تو سب کو مساوی کرنے کے لئے روٹیوں کے ٹکڑے کئے جائیں۔ ہر روٹی کو تین ٹکڑوں میں تقسیم کیا جائے۔ اس طرح آٹھ روٹیوں کے چوبیس ٹکڑے ہوئے۔ اس حساب سے ہر شخص نے روٹی کے آٹھ ٹکڑے کھائے۔ اب چونکہ تمہاری تین روٹیاں تھیں اس لئے اس کے نوٹکڑے ہوئے جس میں سے آٹھ ٹکڑے تم نے کھا لئے باقی بچا ایک ٹکڑا جو تیسرے شخص نے کھایا۔ تمہارے ساتھی کے پاس پانچ روٹیاں تھیں ان کے پندرہ ٹکڑے ہوئے جن میں سے آٹھ ٹکڑے اس نے کھائے باقی بچے سات ٹکڑے جو تیسرے صاحب نے کھائے۔ تو معلوم ہوا کہ اس شخص نے تمہاری روٹی کا صرف ایک ٹکڑا ہی کھایا‘ اس لئے اس کا حق سات درہم ہے۔ وہ شخص اس فیصلہ پر راضی ہو گیا۔ مقدمہ کتنا پیچیدہ تھا کتنی آسانی سے حل ہو گیا۔
میں جب چھوٹے چھوٹے مقدمات کو بیس بیس برس تک التوا کا شکار ہوتے دیکھتا ہوں تومجھے یہ واقعہ یاد آ جاتا ہے۔ اس دور میں نہ کیمرے تھے‘ نہ ریکارڈنگز‘ ٹھوس شہادتیں اور دستاویزی ثبوت اس کے باوجود اس وقت کے قاضی مشکل ترین فیصلے کرنے میں تاخیر نہ کرتے۔ ہمارے سامنے ہر روز ایسے واقعات پیش آتے ہیں جن میں ملزم بھی سامنے ہوتا ہے اور اس کی بندوق سے نکلنے والی گولیاں بھی اس کے باوجود ملزم کو مجرم ثابت کرنا ناممکن ہو جاتا ہے۔ آپ سانحہ ساہیوال اور ماڈل ٹائون کی مثال ہی لے لیں۔ چھوٹے بچوں کے سامنے ان کے والدین کو درجنوں گولیاں مار دی گئیں اور اس کی ایک نہیں درجنوں ویڈیوز بنیں اور یہ ویڈیوز پورے پاکستان‘ پوری دنیا نے دیکھیں ‘ گولیاں چلانے والے بھی کوئی نامعلوم نہیں تھے‘ وہ کسی تھانے کسی محکمے کے باقاعدہ ملازم تھے اس کے باوجود اس کیس میں ابھی تک رتی بھر پیش رفت نہیں ہو سکی۔ اُلٹا مرنے والوں کے لواحقین کو اپنی جان کے خطرے لاحق ہو چکے ہیں اور جس طرح ماڈل ٹائون سانحے میں گولیاں کھانے والوں کے خلاف پرچے کٹوا دئیے گئے تھے اسی طرح ساہیوال واقعے میں لواحقین کے چچا اور عزیز و اقارب اور ان کے وکیل کو دھمکیاں دی گئی ہیں۔ آپ دو روز قبل کراچی میں بریانی کھا کر مرنے والے پانچ بچوں کو بھی دیکھ لیں۔ یہ لوگ بلوچستان سے چلے‘ کراچی پہنچے۔ بھوک لگی تو ایک ریسٹورنٹ میں جا کر بیٹھ گئے جوبیس برس سے قائم ہے۔ یہاں آ کر انہوں نے بریانی منگوائی۔ کھانے کے کچھ دیر بعد ان کی حالت غیر ہونا شروع ہو گئی۔ تین سے لے کر دس برس کی عمر کے پانچ بچے تو چند گھنٹوں میں ہی انتقال کر گئے لیکن ان کی والدہ اور چچا شدید علیل ہو گئے۔ واقعے کے بعد پولیس نے ریسٹورنٹ سیل کر دیا اور تحقیق شروع کر دی ‘ یہ تحقیق اگلے پانچ سو سال تک ہوتی رہے گی اور سب جانتے ہیں کہ ان متوفی بچوں کے والدین اس قابل نہیں کہ وہ پولیس اور عدالتوں کے چکر لگا کر انصاف حاصل کر سکیں۔ کچھ ہی ہفتوں کی بات ہے یہ سانحہ بھی ماضی کی دھول میں گم ہو جائے گا۔ ایک دوست نے گزشتہ دنوں فون کیا‘ میرا ہربنس پورہ میں ایک پلاٹ ہے جو گزشتہ پندرہ برس سے میرے نام ہے۔ اس کے گرد میں نے چار دیواری بھی کر رکھی ہے اور ایک چوکیدار بھی مستقل وہاں رہتا ہے لیکن چند روز قبل دس پندرہ لوگ آئے اور انہوں نے ہمارے چوکیدار کو مارا پیٹااسے باہر نکالا اور باہر اپنا تالہ لگا کر چلے گئے۔ہم نے پولیس سے رابطہ کیا تو انہوں نے دونوں پارٹیوں کو بلا لیا۔ ہم اپنے ملکیتی ثبوت لے کر تھانے پہنچ گئے ‘ وہاں پہنچے تو دیکھا دوسری پارٹی بھی وہاں ملکیتی کاغذات لے کر بیٹھی ہوئی ہے۔ اب یہ مقدمہ عدالت میں چلا گیا ہے اور کوئی علم نہیں کہ اس کا فیصلہ کب اور کس کے حق میں ہو۔
مقدمات کا جلد حل ٹیکنالوجی کی مددکے بغیر ممکن نہیں۔ ایسا سسٹم بنایا جائے کہ کوئی بھی وکیل اپنی مرضی کے جج کے پاس اپنا کیس نہ لگوا سکے اور نہ ہی کوئی جج اپنے پاس پانچ پانچ ہزار کیس رکھ کر انہیں التوا کا شکار بنا سکے۔ کمپیوٹر ہی نمبر اور تاریخیں دے اور کمپیوٹر ہی کیس کی نوعیت کے مطابق یہ فیصلہ کرے کہ کس جج کے پاس کو ن سا اور کتنے کیس جانے چاہئیں۔ مقدمات کی نوعیت کے مطابق ان کے فیصلوں کی حتمی مدت کا بھی تعین کیا جانا چاہیے۔ ہر کیس پر سٹے آرڈر دینے کے سلسلے پر بھی نظر ثانی ہونی چاہیے ۔ ہماری قوم یا تو ڈنڈے کی مار ہے یا پھر ٹیکنالوجی کی۔ یہی قوم جب موٹر وے پر سفر کرتی ہے تو وہاں پر اوورسپیڈنگ کی وجہ سے چالان بھی کراتی ہے‘ لائن اور لین کی پابندی بھی کرتی ہے اور انسانوں کی طرح سفر کرتی ہے لیکن جیسے ہی موٹر وے ختم ہوتی ہے باہر نکلتے ہی وہی دھینگا مشتی شروع ہو جاتی ہے۔ وہی شخص جو موٹر وے پر ایک سو بیس سپیڈ کی پابندی کر رہا ہوتا ہے وہ عام سڑک پر ایک سو چالیس کی رفتار سے گاڑی چلانے لگتا ہے۔سپریم کورٹ کے نئے چیف جسٹس نے حلف اٹھانے کے بعد عدلیہ میں اصلاحات کے عزم کا اظہار کیا تھا۔ وہ اگر اپنے دور میں پاکستان میں عدالتوں کا نظام بہتر کرنے کی بنیاد رکھ دیں اور التوا کا شکار مقدمات کے جلدی حل کیلئے کوئی نظام بنا دیں تو یہ اس ملک اور اس کے عوام پر بڑا احسان ہو گا۔
حضرت علی ؓ نے فرمایا تھا معاشرے کفر پر تو زندہ رہ سکتے ہیں لیکن ناانصافی پر نہیں۔ جن معاشروں میں چھوٹے چھوٹے بچوں کے سامنے ان کے والدین کو سرعام گولیاں مار دی جائیں اور جن والدین کے سامنے ان کے بچے کھانا کھانے کی وجہ سے موت کی وادی میں اتر جائیں ‘ ایسے مظلوموں پر ظلم کا حساب آج نہیں تو کل کسی نہ کسی کو تو دینا ہی پڑے گا۔