اس نازک صورتحال کا ذمہ دار مودی کے ساتھ بھارتی میڈیا بھی ہے۔ یک طرفہ‘ ہیجان انگیز‘ لغو اور مضحکہ خیز رپورٹنگ کی وجہ سے بھارتی میڈیا عالمی سطح پر اہمیت تو کھو ہی چکا‘ اب اپنے عوام میں بھی تیزی سے غیر مقبول ہو رہا ہے۔ سوشل میڈیا پر بھارتی شہری چیخ چیخ کر مودی اور اپنے میڈیا کو برا بھلا کہنا شروع ہو چکے ہیں۔ حد ہے‘ کوئی کبوتر بھارتی سرحد پار کر جائے‘ کشمیر میں کوئی پٹاخہ چل جائے‘ یہ اپنی حکومت اور فوج کے مؤقف کا انتظار بھی نہیں کرتا‘ اور الزام پاکستان پر تھوپ دیتا ہے۔ اس مقصد کے لئے گوگل کا استعمال کیا جاتا ہے‘ متعلقہ واقعے سے جڑی پرانی تصاویر ڈھونڈی جاتی ہیں اور انہیں واقعہ سے نتھی کر دیا جاتا ہے۔ واویلا مچانے کے علاوہ بھارتی میڈیا کو کوئی کام نہیں۔ کوئی بندہ چند منٹ ان کا کوئی چینل دیکھ لے تو اس کا بلڈ پریشر اچھا خاصا بڑھ جاتا ہے۔ یا تو بھارتی میڈیا اپنے عوام کو پاگل سمجھتا ہے یا پھر وہ را کا براہ راست ایجنٹ بنا ہوا ہے۔ بھارت کا خیال ہے کہ وہ اپنے میڈیا کے ذریعے ان کے دماغوں میں من چاہی سوچ بھر دے گا۔ انتہا پسندوں کی اقلیت تو اس کی چال میں آ جائے گی‘ لیکن بھارت میں ایک بڑا پڑھا لکھا طبقہ ایسا ہے جسے مودی کے جنگی جنون اور اس کی مفادات کی سیاست سے کچھ لینا دینا نہیں۔ ایسے لوگ سوشل میڈیا کے ذریعے سامنے آنا شروع ہو چکے ہیں۔ ماضی میں صرف ریڈیو پر انحصار کیا جاتا تھا یا پھر سرکاری ٹی وی اور چند اخبارات سے حالات کی خبر ملتی تھی؛ تاہم موجودہ جنگ سرحدوں کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا پر بھی لڑی جا رہی ہے۔ بھارت اس معاملے میں بھی غیرذمہ دار واقع ہوا ہے‘ اور اپنے عوام کو اندھیرے میں رکھنے اور جنگی جنون ابھارنے میں لگا ہے۔ میں تو کہتا ہوں‘ بھارت کو اپنے ان ٹی وی نیوز اینکرز کو سرحد پر لڑنے کے لئے بھیج دینا چاہیے تاکہ انہیں پتہ چلے جنگ ہوتی کیا ہے۔ ٹاک شوز میں بیٹھ کر جنگ کے راپ الاپنا بہت آسان ہوتا ہے۔ لیکن اسی بھارتی میڈیا کو اس وقت سانپ سونگھ جاتا ہے جب پاکستان ثبوت کے طور پر کوئی ویڈیو جاری کر دیتا ہے۔ کسی ایک بھارتی چینل میں اپنی حکومت سے یہ سوال پوچھنے کی ہمت نہیں کہ وہ ساڑھے تین سو لاشیں کہاں ہیں‘ جن کا دعویٰ کیا جا رہا ہے۔ اگر بھارتی حملے میں ایک فیصد بھی سچائی ہوتی تو پاکستان میں موجود غیر ملکی مبصر اسے سامنے لے آتے۔ بھارت میں تو کسی پریس کانفرنس میں رپورٹروںکے سوالات کا جواب تک نہیں دیا جاتا۔ دو منٹ کا یک طرفہ بیان دے کر پریس کانفرنس ختم کر دی جاتی ہے۔ ان کا سارا میڈیا بھارتی حکومت کا یرغمال بنا ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارتی ہندو اور سکھ حتیٰ کہ بھارتی فوجیوں کی مائیں اور بیویاں بھی اپنی ہی حکومت اور فوج کے خلاف آواز اٹھانے لگی ہیں۔ کارگل میں مرنے والے ایک بھارتی فوجی کی ماں صاف کہتی دکھائی دیتی ہے کہ وہ اپنے دیگر بچوں کو کبھی بھی بھارتی فوج میں نہیں بھیجے گی‘ بلکہ اس نے یہاں تک کہا کہ بھارتی فوج کے پاس نہ تو جوتے ہیں نہ ہی کپڑے۔ بھارتی چینلز کبھی بھی یہ ویڈیوز ٹی وی پر نہیں دکھائیں گے۔ بھارت میں ایک بڑا طبقہ مودی اور جنگ کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا ہے۔ یہ طبقہ سچ کی تلاش کے لئے ٹی وی کی بجائے انٹرنیٹ کا سہارا لیتا ہے۔ بھارت کے اندر سے اٹھنے والی ایسی ویڈیوز کو زیادہ سے زیادہ وائرل کرنا چاہیے۔ آج ہر کوئی ہر دو منٹ بعد اپنے موبائل فون سے حالات کی آگاہی حاصل کر رہا ہے۔ بھارت اگر اپنے عوام کو دھوکے میں رکھ رہا ہے اور انہیں صحیح تصویر پیش کرنے سے قاصر ہے تو یہ کام ہمیں کرنا ہو گا۔ اس میں ہمارا‘ ان کا اور اس خطے‘ سب کا فائدہ ہے۔ انٹرنیٹ پر مبنی ایسے تھنک ٹینکس بننے چاہئیں جو ایسے مواقع پر حقائق سے پردہ اٹھانے اور صورت حال کو ڈی فیوز کرنے میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔ بھارت میں موبائل فون صارفین کی تعداد تیس کروڑ جبکہ پاکستان میں چودہ کروڑ ہے۔ موبائل ہر کسی کے پاس ہر وقت موجود رہتا ہے۔ دونوں ممالک کے ان چوالیس کروڑ موبائل صارفین کو سامنے رکھا جائے تو بات بڑی آسان ہو جاتی ہے۔ کشمیر کا مسئلہ اُجاگر کرنا ہو یا پھر موجودہ صورت حال پر حقائق کو سامنے لانا ہو‘ ان چوالیس کروڑ صارفین تک بڑی نفاست اور برق رفتاری سے اپنا پیغام پہنچایا جا سکتا ہے۔ ہر موبائل میں انٹرنیٹ موجود ہے اور ہر صارف سوشل میڈیا کی پوسٹس‘ فیس بک اور یُو ٹیوب دیکھتا ہے اور ان پر آنے والا رد عمل خاصا اثر پذیر ہوتا ہے۔ سوشل میڈیا پوسٹس صارفین کی ذہن سازی میں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔ ہمارے تھنک ٹینکس کو ایسی مستند معلومات سوشل میڈیا پر وائرل کرنی چاہئیں‘ جن سے مودی حکومت کے انتہا پسندانہ رویے اور بھارتی جھوٹے میڈیا چینلز کی اصلیت اس پر آشکار ہو جائے گی اور وہ کشمیر اور دیگر معاملات پر اپنی آزادانہ رائے قائم کر سکیں گے۔ ایسا کرنا اس لئے بھی ضروری ہے کہ اب جنگیں میدانوں سے زیادہ میڈیا پر لڑی جا رہی ہیں۔ یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ سوشل میڈیا میں جاری جھوٹی تصاویر یا ویڈیوز حالات کو تباہی کے کنارے پر لا سکتی ہیں‘ اس لئے عوام کو کسی بھی پوسٹ پر یقین کرنے اور اسے آگے شیئر کرنے سے پہلے محتاط ہونا پڑے گا۔
مصیبت یہ ہے کہ آج کل ہر کوئی دفاعی ماہر بنا ہوا ہے‘ اور مجھے تو لگتا ہے کہ خدانخواستہ جنگ چھڑی تو سوشل میڈیا پر صارفین اپنی اپنی رائے دے رہے ہوں گے کہ میزائل ایسے نہیں ویسے چلانا چاہیے تھا وغیرہ وغیرہ۔ بہتر ہے کہ جو کام فوج کا ہے وہ فوج کو کرنے دیں‘ قوم وہی کام کرے جو 65ء کی جنگ میں کیا تھا۔ اپنے شیر جوانوں کا خون گرمانے اور ان کے ولولے کو تازہ کرنے کے لئے قوم نے جنگی ترانوں‘ پھولوں اور نعروں کے ذریعے ایسی فضا بنائی تھی‘ جس سے دشمن پر ہیبت طاری ہو گئی۔ جب عوام اپنی فوج کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں تو جنگ جیتنا آسان ہو جاتا ہے۔ جس طرح بھارت میں عوام اپنی ہی فوج کے لتے لے رہے ہیں اور جس طرح اپنی مودی حکومت کی پالیسیوں پر تنقید کر رہے ہیں‘ ایسے حالات میں ان کی فوج میں لڑنے کا جذبہ کبھی بھی بیدار نہیں ہو سکتا۔ دوسرا بڑا فرق موت کے خوف کا ہے۔ مسلمان شہادت کا جام پینے کو سعادت سمجھتا ہے جبکہ ہندو موت کے تصور سے بھی کانپتا ہے۔ بھارتی فوجیوں کی مائیں اپنے بچوں کو جنگ پر بھیجنے سے کتراتی ہیں جبکہ پاکستانی مائیں اپنے تمام بیٹے دھرتی کی خاطر قربان کرنے کو تیار رہتی ہیں۔ تیسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ ہم نے گزشتہ پندرہ سال سے دہشت گردی کی مشکل ترین جنگ لڑی اور جیتی ہے‘ اس لئے ہمارا عملی جنگی تجربہ بھارت سے کہیں زیادہ ہے۔ ویسے بھی بھارت اور پاکستان کے فوجیوں کو ایک ساتھ دیکھیں تو فرق صاف ظاہر ہوتا ہے۔ ہمارے کڑیل‘ دلیر اور زندہ دل شیر جوانوں کے سامنے بھارتی فوجی انتہائی مریل‘ ادھ موئے اور بے رونق دکھائی دیتے ہیں۔ ان کے اترے ہوئے چہرے دیکھ کر لگتا ہے وہ زبردستی جنگ میں دھکیلے جا رہے ہیں۔ پاکستانی افواج کے آئیڈیل ہمارے پیارے نبیؐ ہیں‘ ہم سلطان ٹیپو اور صلاح الدین ایوبی کی طرح لڑنا جانتے ہیں جبکہ ہندو افواج اپنی بالی وڈ کی فلموں کے سحر میں مبتلا ہیں‘ جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی ساری کمزوریوں کو بھارتی میڈیا کی غلیظ اور جھوٹی رپورٹنگ کے ذریعے چھپانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ بھارتی رد عمل کا سنسنی سے پاک مگر سچ پر مبنی فوری جواب دینا ضروری ہے۔ بھارت اگر جھوٹ کو سچ بنانے کی تگ و دو کر سکتا ہے تو پھر ہم سچ کو ٹھیک طرح سے اجاگر کیوں نہیں کر سکتے۔ ہمارا ٹی وی اور سوشل میڈیا جتنا مستند‘ مستعد اور وسیع تر ہو گا اتنا ہی سچ نکھر کر سامنے آ سکے گا اور خطے سے جنگ کے بادل چھٹنے میں مدد ملے گی۔