"ACH" (space) message & send to 7575

پاکستانی طالبعلموں کا قابل فخر کارنامہ

آئے روز ایسی خبریں آتی ہیں کہ سرکاری ہسپتال میں وینٹی لیٹر نہ ہونے سے مریض جاں بحق ہو گیا؛ تاہم اب ایسا نہیں ہو گا۔ 
امریکہ میں پاکستانی طالب علموں نے کمال کر دکھایا ہے۔ دنیا کی صف اول کی یونیورسٹی میساچیوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی نے گزشتہ روز اپنی ویب سائٹ پر یہ خبر جاری کی کہ پاکستانی طالبعلموں کی ایک ٹیم نے انتہائی کم لاگت والا وینٹی لیٹر تیار کیا ہے۔ یہ وینٹی لیٹر ایجادات کے عالمی مقابلے میں دیگر آٹھ ایجادات پر بازی لے گیا۔ اس وینٹی لیٹر کا نام ایمبولائزر رکھا گیا ہے۔ اس کی قیمت دو ہزار ڈالر ہو گی‘ جو پاکستانی کرنسی میں تقریباً دو لاکھ اسی ہزار روپے بنتی ہے۔ اس سے قبل مارکیٹ میں جو وینٹی لیٹر دستیاب ہے اس کی قیمت پندرہ ہزار ڈالر ہے جو بیس لاکھ پاکستانی روپے بنتے ہیں۔ اس طرح کی مشینیں پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کے لئے خریدنا مشکل ہوتی ہیں؛ چنانچہ اس ایجاد سے اب یہ مسئلہ بھی حل ہو جائے گا۔ یہ ٹیکنالوجی کا دور ہے۔ اس دور میں ہر وہ ایجاد پذیرائی پائے گی‘ جو انسانوں اور معاشرے کے مسائل کا قابل عمل اور کم قیمت حل پیش کرتی ہو۔ ٹیم کو لیڈ کرنے والے طالب علم شہیر پراچہ کے مطابق ایک مرتبہ ان کے دوست کے دو سالہ بچے کو تین دن اور تین راتوں تک ہاتھ سے وینٹی لیٹ کرنا پڑا کیونکہ خاندان والوں کو کہا گیا تھا کہ جب تک مشین نہیں مل جاتی تب تک یہ کام ہاتھ سے کریں۔ شہیر پراچہ نے اس واقعے کے بعد اس مسئلے کے حل کا فیصلہ کیا اور بالآخر امبولائزر بنا لیا جو دیکھنے میں ڈیسک ٹاپ پرنٹر جیسا لگتا ہے‘ اور سب سے اہم یہ کہ اسے بیٹریوں سے بھی چلایا جا سکتا ہے۔ یہ فیچر بہت اہم ہے کیونکہ پاکستان جیسے ملکوں میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ عام ہے۔ ہسپتالوں کو الگ فیڈر سے بجلی میسر ہوتی ہے اس کے باوجود وینٹی لیٹر پر پڑے مریض کے لئے کوئی رِسک نہیں لیا جا سکتا۔ یہ وینٹی لیٹر ہسپتال سے باہر دور دراز علاقوں میں بھی لے جا کر استعمال کئے جا سکتے ہیں جبکہ روایتی وینٹی لیٹر کو ہلانا ممکن نہیں ہوتا۔ ہمارے ملک میں صرف دو ہزار وینٹی لیٹر موجود ہیں‘ جن میں سے زیادہ تر نجی ہسپتالوں میں ہیں جبکہ کئی سرکاری ہسپتالوں میں زیادہ تر وینٹی لیٹر خراب پڑے ہیں۔ تحصیل اور ضلعی ہسپتالوں میں مریضوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے اور وینٹی لیٹر کی عدم موجودگی کے باعث مریضوں کے پاس ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہوتا۔ بسا اوقات وہ ایک ہسپتال سے دوسرے ہسپتال اس مشین کی تلاش میں جاتے ہوئے زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں۔ بیشتر ہسپتال ایمبو بیگ استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔ ایمبو بیگ بھی وینٹی لیٹر والا کام ہی کرتا ہے لیکن یہ ایک قسم کا جگاڑ ہے جس میں ہسپتال انتظامیہ یا مریض کے ساتھ بیٹھے شخص کو مشین کے ساتھ خود محنت کرنا پڑتی ہے تاکہ آکسیجن پھیپھڑوں میں پہنچتی رہے۔ پنجاب‘ سندھ اور خیبر پختونخوا میں تو صورت حال کچھ بہتر ہے لیکن بلوچستان میں یہ مسئلہ انتہائی سنگین ہے۔ کوئٹہ شہر کے سرکاری ہسپتالوں کو تو چھوڑیں‘ نجی ہسپتالوں میں بھی وینٹی لیٹر موجود نہیں۔ ایسے ہی ایک واقعے میں چند ماہ قبل ایک سالہ بچے کو طبیعت بگڑنے پر ہسپتال لے جانا پڑا جہاں ایکسرے میں معلوم ہوا کہ بچے کے گلے میں ہڈی پھنسی ہوئی ہے۔ آپریشن کر کے ہڈی تو نکال دی گئی لیکن بچے کو سانس لینے میں شدید دشواری پیش آنے لگی‘ جس پر بچے کے والدین اسے لے کر دیگر ہسپتالوں کی طرف بھاگے لیکن کہیں وینٹی لیٹر مشین موجود نہ تھی‘ کہیں فارغ نہ تھی اور کہیں خراب پڑی تھی۔ سول ہسپتال کوئٹہ میں دو مشینیں موجود تھیں لیکن ٹیکنیشن اور دیکھ بھال نہ ہونے کے باعث بے کار پڑی تھیں۔ اسی کشمکش میں بچہ جاں بحق ہو گیا۔ ایسے واقعات میں مریض ڈاکٹروں کے ساتھ لڑنا شروع ہو جاتے ہیں جبکہ اصل قصوروار انتظامیہ ہوتی ہے۔ انتظامیہ والوں سے پوچھیں تو وہ کہتے ہیں: کئی مرتبہ ڈیمانڈ کر چکے ہیں‘ لیکن آگے سے جواب آتا ہے کہ فنڈ نہیں ہیں۔ ایم آئی ٹی یونیورسٹی میں پاکستانیوں کی اس ایجاد کے بعد یہ مشین تین لاکھ روپے تک دستیاب ہونے کا امکان ہے؛ تاہم اس کے لئے ضروری ہے کہ موجودہ حکومت ان طالب علموں کی ٹیم کو آن بورڈ لے‘ ان کی ایجاد کو پاکستان کے طبی اداروں اور ماہرین کے سامنے رکھے اور فوری طور پر اس کی وسیع پیمانے پر تیاری کا کام شروع کرے۔ اس ایجاد کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے اور یہ حقیقت بھی ہے کہ یہ ایجاد اگر پاکستان میں ہوئی ہوتی تو شاید اسے اتنی اہمیت نہ ملتی۔ پاکستان میں ایسی کامیابیوں کی عموماً حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی اور یوں بہت سے منصوبے ادھورے رہ جاتے ہیں۔ اس منصوبے کے ساتھ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ میں نے لاہور کی ایک سرکاری یونیورسٹی کے طالب علموں کی ایک منفرد ایجاد کے بارے میں چند ماہ قبل ایک کالم لکھا تھا۔ انہوں نے ایک ایسی ویل چیئر بنائی تھی جو مریض کو لے کر سیڑھیاں چڑھ اور اُتر سکتی تھی۔ یہ ویل چیئر آنکھوں کے اشاروں اور بولنے سے بھی کنٹرول کی جا سکتی تھی حتیٰ کہ آنکھ کی پتلیوں کی حرکت سے اسے دائیں بائیں آگے پیچھے چلایا جا سکتا تھا۔ اس کے پہیے ٹینک نما بناوٹ میں ویل چیئر کا توازن برقرار رکھتے ہوئے اسے سیڑھیوں پر چڑھنے میں مدد دیتے تھے۔ ان طالب علموں نے ستر ہزار روپے اپنی جیب سے اس ایجاد پر لگائے تھے حالانکہ انہیں سرکاری طور پر فنڈ ملنے چاہئیں تھے۔ انہوں نے اس کی کوشش بھی کی تھی لیکن طویل طریقہ کار اور پیچیدہ فائل ورک کی وجہ سے کامیابی نہ ہوئی۔ یہی وجہ ہے کہ یہ ایجاد بھی ردی کی ٹوکری کی نذر ہو گئی اور آج یہ مشین یونیورسٹی کے سٹور میں کاٹھ کباڑ کا حصہ بنی ہوئی ہے۔ یہی ایجاد اگر ان طالب علموں نے بیرون ملک کی ہوتی تو انہیں نوبیل انعام سے نوازا جا رہا ہوتا کیونکہ یہ ویل چیئر ایسے لاکھوں معذور افراد کے لئے ایک نعمت بن سکتی تھی‘ جو پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں رہتے ہیں اور جہاں سڑکوں اور عمارتوں میں عام ویل چیئر کے گزرنے کے لئے ریمپ تک موجود نہیں۔ اس ویل چیئر کا کامیاب تجربہ بھی کیا گیا تھا جس کی ویڈیو یو ٹیوب پر موجود ہے۔ 
ایسی ایجادات سے ثابت ہوتا ہے کہ پاکستانی دماغ غیرمعمولی خدمات بھی انجام دے سکتے ہیں۔ خوش قسمتی سے ممتاز کیمیا دان ڈاکٹر عطاالرحمن ایک مرتبہ پھر حکومت کا حصہ بن چکے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب تحقیق پر بڑا زور دیتے ہیں اور نالج اکانومی کے فروغ کے لئے کوشاں ہیں۔ انہوں نے پاکستان میں تحقیق کو نیا رُخ دیا۔ پاکستانیوں کو ان سے بہت امیدیں وابستہ ہیں۔ ممکن ہے ایسا وقت آ جائے جب پاکستان میں ہونے والی ایسی ایجادات کو بھی عالمی پذیرائی ملنے لگے تاہم اس کے لئے ملک میں ریسرچ کا رواج بڑھانا ہو گا۔ گزشتہ روز انفارمیشن ٹیکنالوجی یونیورسٹی کے کانووکیشن میں وائس چانسلر ڈاکٹر نیاز احمد اختر نے بتایا کہ وہ ایسا طریقہ کار وضع کر رہے ہیں کہ جو طالب علم عالمی سطح پر منفرد تحقیقی مقالے شائع کرائے گا اس سے ٹیوشن فیس نہیں لی جائے گی۔ یہ بڑا عمدہ فیصلہ ہے۔ یہاں یہ بات بتانا ضروری ہے کہ دنیا بھر میں اس وقت جتنی بھی بڑی ایجادات ہو رہی ہیں ان کے پیچھے وہاں کی یونیورسٹیوں کا ہاتھ ہے۔ وہاں کے طالب علم رٹے مار کر امتحان پاس نہیں کرتے بلکہ جس چیز کو پڑھتے ہیں اس کا عملی زندگی میں تجربہ بھی کر کے دکھاتے ہیں۔ وہاں تعلیمی یونیورسٹیاں تحقیقی یونیورسٹیوں میں تبدیل ہو چکی ہیں۔ دنیا کو معاشی میدان میں پچھاڑنے والے چین میں بھی طالب علموں کو ریسرچ پیپرز لکھنے پر غیر معمولی پذیرائی حاصل ہوتی ہے۔ آج چین دنیا بھر میں سب سے زیادہ ٹیکنالوجی پر مبنی ریسرچ پیپرز شائع کر رہا ہے۔ جاپانی سروے کے مطابق ٹیکنالوجی اور سائنس کے تیس میں سے تئیس مضامین میں اول نمبر لے کر چین پہلے جبکہ امریکہ سات مضامین میں دوسرے نمبر پر ہے۔ اسی تحقیق کی بنا پر چین اپنے میڈ اِن چائنا 2025 پروگرام پر بھی تیزی سے عمل پیرا ہے جس کے لئے وہ دس کروڑ سے زائد مختلف شعبوں اور مصنوعات پر کام کر رہا ہے۔ اس پروگرام کے مطابق چین 2025 میں دنیا کی ضرورت کی ہر چیز پیدا کرنے والا واحد ملک بن جائے گا۔ 
ہم کہاں کھڑے ہیں‘ کہاں جانا چاہتے ہیں یہ ہمیں دیکھنا ہے؛ تاہم دنیا کی بہترین یونیورسٹی ایم آئی ٹی میں پاکستانی نوجوانوں کی ایجاد اور اس کی عالمی پذیرائی یہ ثابت کرتی ہے کہ پاکستانی طالب علموں میں ٹیلنٹ کی کمی نہیں‘ حکومت چاہے تو اس سے بے پناہ فائدہ اٹھا سکتی ہے!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں