ہم چاہیں تو ان تین شخصیات سے سبق سیکھ کر اس سوال کا جواب تلاش کر سکتے ہیں۔
آپ حضرت عبداللہ ؓ کو ہی دیکھ لیں۔وہ رسول پاک ﷺ کے چچا زاد بھائی حضرت جعفر بن ابی طالب ؓ کے بیٹے تھے۔ ہجرت کے آٹھویں سال موتہ کی لڑائی میں حضرت جعفر ؓ شہید ہو گئے تو حضرت عبداللہ ؓ کی عمر نو دس برس کے لگ بھگ تھی۔ رسول پاکﷺ کو اپنے اس یتیم بھتیجے سے بہت محبت تھی اور آپ ﷺ ان کا بہت خیال رکھتے تھے۔ کوئی تین سال بعد جب اللہ نے آپ ﷺ کو اپنے پاس بلا لیا تو حضرت عبداللہ ؓ کے چچا حضرت علی ؓ نے ان کو تعلیم دی او ر ان کی تربیت بھی کی۔حضرت عبداللہ ؓ جوان ہوئے تو تجارت کے ذریعے روزی کمانے لگے۔ اللہ نے ان کی تجارت میں اتنی برکت دی کہ ان کے پاس مال و دولت کی ریل پیل ہو گئی لیکن وہ جتنے دولت مند تھے‘ اتنے ہی سخی بھی تھے۔ اپنی دولت ہر وقت اللہ کے راستے میں لٹاتے رہتے تھے۔ کوئی حاجت مند ان کے دروازے سے کبھی خالی ہاتھ واپس نہیں جاتا تھا۔ وہ روپیہ پیسہ ‘اونٹ ‘ گھوڑے‘ غلہ‘ کپڑا جو چیز بھی ان کے پاس ہوتی تھی‘ غریبوں‘ مسکینوں اور حاجت مندوں کو دے دیا کرتے تھے۔ ان کی دریا دلی کی وجہ سے لوگ ان کو سخاوت کا سمندر کہا کرتے تھے۔ ایک روز حضرت عبداللہ ؓ اپنے کھیتوں کو دیکھنے کے لئے گھر سے روانہ ہوئے۔ کھیت ان کے گھر سے بہت دور تھے۔ راستے میں وہ ایک باغ کے قریب سواری سے اترے تاکہ کچھ دیر آرام کر لیں۔وہاں انہوں نے ایک حبشی غلام کو دیکھا جو اس باغ کی رکھوالی کر رہا تھا۔ باغ کے مالک نے غلام کے لئے کھانا بھیجا جس میں تین روٹیاں تھیں۔ اتنے میں ایک کتا آیا اور غلام کے قریب بیٹھ گیا۔ غلام نے ایک روٹی ا س کے سامنے پھینک دی۔کتا یہ روٹی کھا کر بھی غلام کی طرف دیکھنے لگا ۔ غلام نے دوسری روٹی بھی اس کے سامنے پھینک دی۔کتا یہ روٹی بھی کھا کر غلام کی طرف دیکھنے لگا۔ اس نے تیسری روٹی بھی کتے کے سامنے پھینک دی ۔حضرت عبداللہ ؓ یہ ماجرا دیکھ رہے تھے۔ انہوں نے غلام سے پوچھا: کیوں بھئی تمہیں ہر روز کتنا کھانا ملتا ہے؟ غلام نے کہا: اتنا ہی جتنا آپ نے دیکھ لیا۔ بس یہ تین روٹیاں ہی مجھے ہر روز ملتی ہیں۔ حضرت عبداللہ ؓ نے پوچھا: پھر یہ ساری روٹیاں تم نے کتے کو کیوں کھلا دیں؟ غلام نے جواب دیا: جناب ہمارے اس علاقے میں کتے نہیں ہوتے۔ یہ کتا بہت دور کسی دوسرے علاقے سے آیا لگتا تھا اور بہت بھوکا تھا۔ میں اسے مایوس نہیں کرنا چاہتا تھا۔حضرت عبداللہ ؓ نے پوچھا: تو آج تم کیا کرو گے؟ غلام نے کہا: دن بھر بھوکا رہوں گا۔ حضرت عبداللہ ؓ بڑے حیران ہوئے اور دل میں کہا کہ بعض مرتبہ مجھ سے کہا جاتا ہے کہ تم حد سے زیادہ سخاوت کیوں کرتے ہو لیکن میری نظر میں سخی تو یہ شخص ہے۔ پھر انہوں نے کھجوروں کا وہ باغ اس غلام سمیت اس کے مالک سے خرید لیا اور غلام کو آزاد کر کے باغ اور اس میں موجود تمام سامان اس کو دے دیا۔ غلام نے کہا: اگر یہ سب کچھ میرا ہے تو میں اسے اللہ کی راہ میں دیتا ہوں۔ حضرت عبداللہ اس غریب شخص کی دریادلی دیکھ کر حیران رہ گئے اور فرمایا: اگر کوئی سخی کہلانے کا حق دار ہے تو یہ ہے ۔ میری سخاوت تو اس کی سخاوت کے مقابلے میں کچھ نہیں۔یعنی میں سخاوت تو کرتا ہوں لیکن گھر میں جھاڑو نہیں پھیر دیتا مگر اس غریب آدمی نے اپنا سب کچھ اللہ کی راہ میں دے دیا اور اپنے پاس کچھ بھی نہیں رکھتا۔
آپ جان ڈی راک فیلر کو بھی دیکھ لیں ۔ وہ ایک صدی قبل دنیا کا مالدار ترین شخص تھا۔ شروع میں وہ ایک مزدور تھا اور روزانہ اجرت پر پندرہ پندرہ گھنٹے مسلسل کام کیا کرتا۔ 1929ء میں جب اس نے کام چھوڑ کر ریٹائرمنٹ کی زندگی شروع کی تو اس کی دولت کا اندازہ23کروڑ پائونڈ لگایا گیا۔ اس زمانے میں یہ انتہائی غیرمعمولی رقم تھی۔اتنی بڑی رقم ایک مزدور نے کیسے جمع کر لی؟کہا جاتا ہے جب راک فیلر نے مزدوری شروع کی تو اس نے عہد کیا وہ اپنی آمدن کا دسواں حصہ خیرات کیا کرے گا۔ اس نے ایک نوٹ بک خریدی اور اس میں پائی پائی کا حساب لکھنے لگا اور ایسا اس نے زندگی کی آخری سانس تک کیا۔ اس نوٹ بک میں اس کی پہلی خیرات پانچ پینس درج تھی جو نہایت معمولی رقم تھی۔ اس کے پورے ماہ کی خیرات 3شلنگ تھی مگر پانچ ہفتوں میں اس کی خیرات 7شلنگ تک پہنچ گئی تھی۔ اس زمانے میں اس کا حال یہ تھا کہ اپنے آپ کو سردی سے بچانے کے لئے گلوبند بھی نہ خرید سکا تھا۔ تاہم تنگی کے باوجود وہ اپنے عہد پر قائم رہا۔ اس خیرات کا اسے یہ ثمر ملا کہ اس کی دولت میں روزبروز اضافہ ہوتا چلا گیا اور 1890ء میں ایک یونیورسٹی قائم کرنے کے لئے اس نے پندرہ لاکھ پائونڈ خیرات کر دئیے۔ اس دوران میں ان بڑی خیراتوں کے علاوہ اس کی متفرق خیراتوں کا مجموعہ چالیس لاکھ پائونڈ تک پہنچ گیا۔ مجموعی طور پر اس نے اپنی زندگی میں ریٹائرمنٹ تک تقریباً ستر لاکھ پائونڈ خیرات میں خرچ کئے۔ اس خدمت خلق کا اسے یہ صلہ ملا کہ وہ ایک عام مزدور سے دنیا کا امیر ترین شخص بن گیا۔
اور آپ ان تیسرے صاحب کو بھی دیکھ لیں جو چین کے کسی شہر میں بہت اچھے تیراک تھے۔ ایک روز دریا اچانک بپھر پڑا۔ چھ سات آدمی خطرے کی پروا نہ کرتے ہوئے کشتی میں دریا پار کرنے لگے لیکن بیچ منجدھار میں کشتی الٹ گئی اور انہوں نے تیرنا شروع کر دیا۔ یہ شخص بھی پوری قوت سے ہاتھ پائوں مار رہا تھا مگر پھر بھی سب سے پیچھے تھا۔ ساتھیوں نے پوچھا: تم تو ہم سب سے اچھے تیراک ہو مگر پیچھے کیوں جا رہے ہو؟ اس نے جواب دیا: میری کمر پر ایک ہزار طلائی سکے بندھے ہوئے ہیں۔ ساتھیوں نے کہا: انہیں پھینک کیوں نہیں دیتے۔ اس نے کوئی جواب دیے بغیر نفی میں سر ہلا دیا حالانکہ سخت مشکل سے دوچار تھا۔ باقی تیراک دوسرے کنارے پر جا پہنچے اور چلانے لگے: بے وقوف ان پیسوں کو پھینک دو‘ تم ڈوب گئے تو پیسے کس کام آئیں گے؟ اس نے پھر نفی میں سر ہلا دیا اور دیکھتے ہی دیکھتے موجیں اسے بہا لے گئیں۔
ان تینوں حضرات کی کہانیوں میں ہمارا نمبر تیسرا ہے۔ ہمارا وہ حال ہے کہ پلیٹ میں چار بندوں جتنا کھانا ڈال کر مینار بنا لیں گے لیکن بچا ہوا کھانا بھی کتوں کے سامنے ڈالنے سے ہچکچائیں گے۔ ہماری کوشش ہو گی ہم کھانا گردن تک بھر لیں چاہیں کھاتے کھاتے ہمارا سانس ہی کیوں نہ رک جائے۔ میں نے پہلا واقعہ حضرت عبداللہ ؓ سے متعلق لکھا۔ وہ ایک صحابی ؓ تھے۔ شریعت سے واقف تھے اور اسلام کے صدقہ و خیرات کے فلسفے پر بھرپور عمل کرتے تھے لیکن راک ڈی فیلر ‘جی ہاں قدرت نے اس کو پیسہ بھی دیا اور شہرت بھی اور ہماری یہ غلط فہمی دور کر دی کہ اللہ صرف مسلمانوں کا ہے ۔ ذرا غور کریں حضرت عبداللہ ؓ کو جو غلام ملا وہ اپنا سارا مال اور اپنی ساری روٹیاں اللہ کی مخلوق کو دے دیا کرتا اور ایک غیرمسلم راک ڈی فیلر ابتدا سے ہی اپنی آمدنی کا دس فیصد خیرات کرنے کا عادی تھا لیکن ہم لوگ ایسے کم بخت اور کم نصیب ہیں کہ اس اڑھائی فیصد سے بھی ہاتھ کھینچ لیتے ہیں جن کی ادائیگی سالانہ زکوٰ ۃ کے طور پر ہم پرفرض ہے۔ ہم اپنے پیسوں کو بینکوں اور تجوریوں میں گن گن کر رکھتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح مال بڑھ جائے گا ۔ آج جب نیوزی لینڈ جیسے واقعات ہو رہے ہیں اور مسلم ممالک اور مسلمان کمزور دکھائی دیتے ہیں تو ممکن ہے اس برتری کی ایک وجہ یہود و ہنود کے یہی صدقات و خیرات ہوں۔ آج کی مسلمان اقوام کی مثال اس چینی تیراک جیسی ہے جو اپنی کمر پر سونا چاندی لاد کر ڈوب مرنے کو تیار ہیں لیکن خیرات کے ذریعے اپنا بوجھ کم کرنے اور اپنی دنیا اور آخرت سنوارنے کو تیار نہیں ۔ دوسری جانب بل گیٹس اور مار ک ذکربرگ جیسے لوگ ہیں جو اپنی آمدنی کا نوے فیصد تک خیرات کر چکے ہیں‘ جو اپنی دولت کے ذریعے کروڑوں اربوں انسانوں کی پیچیدہ بیماریوں اور مسائل کے حل تلاش کر رہے ہیں اور ہم بے بسی سے سوال ہی کرتے رہ جاتے ہیں کہ مسلمان کمزور کیوںہیں‘ دنیا ہمارے ساتھ کھڑی کیوں نہیں ہوتی؟