سمندر سے تیل نکلنے کی خبروں پر بہت سے لوگ خوش ہیں کہ اب وارے نیارے ہو جائیں گے اور پاکستان مالا مال ہو جائے گا۔ اس سے معیشت پر اثر تو پڑے گا لیکن اتنا نہیں کہ راتوں رات پاکستان کے قرضے اتر جائیں اور ہر شخص کی فی کس آمدن ایک لاکھ ڈالر تک پہنچ جائے۔ ایسا اس لئے نہیں ہو گا کہ دنیا کے بیشتر ممالک اب قدرتی وسائل پر انحصار نہیں کر رہے بلکہ سنگاپور جیسے بیشتر ممالک‘ جو ہم سے تیس گنا زیادہ ترقی یافتہ ہیں‘ میں تو قدرتی وسائل اور معدنیات وغیرہ موجود ہی نہیں ہیں‘ نہ ہی وہاں سے تیل نکلتا ہے‘ بلکہ وہ لوگ نالج اکانومی‘ انفارمیشن ٹیکنالوجی اور برآمدات کے ذریعے تیزی سے ترقی کر رہے ہیں۔ سنگاپور اس کی بہترین مثال ہے۔ یہ کراچی سے ایک چوتھائی آبادی پر مشتمل ہے لیکن اس کی برآمدات چار سو تیس ارب ڈالر جبکہ پاکستان کی بمشکل چوبیس ارب ڈالر ہیں۔ سوال یہ بنتا ہے کہ اتنا زیادہ فرق کیسے ہے؟ تو اس کی کئی وجوہات ہیں مثلاً یہ کہ سنگاپور میں تعلیم کو بہت زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ سنگاپور میں تعلیم کا بجٹ اس کے کل اخراجات کا بیس فیصد ہے جبکہ پاکستان میں تعلیم کے لئے بمشکل دو فیصد بجٹ رکھا جاتا ہے اور اس میں سے بھی بیشتر حصہ خرچ نہیں ہو پاتا۔ وہاں معیار پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جاتا۔ یہی وجہ ہے کہ ریاضی کے بیشتر عالمی مقابلوں میں سنگاپور کے بچے پہلی جبکہ جاپان‘ امریکہ اور دیگر ممالک کے بچے نچلی پوزیشنز لیتے ہیں۔ سنگاپور کی فی کس آمدنی بھی پاکستان سے چالیس گنا زیادہ ہے‘ جبکہ مہنگائی کی شرح پاکستان سے نصف ہے۔ سب سے اہم یہ کہ آسان کاروبار والے ممالک کی فہرست میں سنگاپور دوسرے نمبر پر جبکہ پاکستان ایک سو چالیسویں نمبر پر ہے۔ ہماری موجودہ حکومت کاروبار کو آسان بنانے کے لئے کئی اقدامات کر رہی ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری لائی جا سکے۔ ایک اہم کام جو گزشتہ دنوں ہوا‘ وہ صنعت کاروں کے لئے ون ونڈو سنٹر کا قیام تھا۔ یہ سنٹر قائد اعظم انڈسٹریل اسٹیٹ کوٹ لکھپت میں قائم کیا گیا‘ جہاں بیس سے زیادہ خدمات ایک ہی چھت تلے میسر ہیں۔ پنجاب کی کسی بھی انڈسٹریل اسٹیٹ میں کوئی صنعت کار اگر کوئی فیکٹری لگانا چاہتا ہے تو اسے کئی مراحل سے گزرنا پڑتا ہے‘ جن میں زمین کی خریداری سے لے کر نقشے کی منظوری اور بجلی گیس کے کنکشن سے لے کر کاروبار کے اندراج تک کئی مرحلے شامل ہیں۔ بہت سے سرمایہ کار اور صنعت کار تو پہلے مرحلے میں ہی ہاتھ اٹھا لیتے تھے کیونکہ اتنے زیادہ محکموں میں الگ الگ جانے اور ان کی منظوریاں لینے میں بہت زیادہ وقت لگ جاتا تھا۔ اس مشکل کو دور کرنے کے لئے پنجاب انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ نے پنجاب انڈسٹریز کے لئے سٹیٹ آف دی آرٹ جدید سنٹر قائم کرنے میں معاونت کی۔ جہاں پنجاب میں صنعت لگانے کے لئے درکار تمام خدمات ایک ہی جگہ میسر ہیں‘ اور جنہیں آن لائن ٹریک بھی کیا جا سکتا ہے۔ اس طرح کے مراکز کاروباری ماحول کو سازگار بنانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ سنگاپور کی ترقی کا راز بھی یہی ہے۔ وہاں بھی ایک ہی چھت تلے کئی سہولیات میسر کی جاتی ہیں تاکہ صارفین کا وقت اور سرمایہ بچایا جا سکے۔ اس کا دوسرا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ کاروبار کی شرح اور ٹیکس کے حصول میں اضافہ ہوتا ہے۔ آسان اور آن لائن نظام کے باعث لوگ رضاکارانہ ٹیکس دینے کو بھی تیار ہو جاتے ہیں۔ آئی ٹی کو ای گورننس میں استعمال کرنے کے شاندار نتائج سامنے آتے ہیں۔ آپ دبئی میں پولیس کا نظام دیکھ لیں۔ وہاں تو اب ایسے تھانے قائم ہو چکے ہیں جہاں کوئی پولیس والا یا تھانیدار موجود نہیں۔ بس آپ نے تھانے میں جانا ہے‘ جہاں آپ کو ایک اے ٹی ایم نما مشین دکھائی دے گی۔ اگر آپ کے ساتھ کوئی چوری کا واقعہ پیش آیا ہے تو آپ اس مشین میں اپنا نام‘ آئی ڈی کارڈ نمبر اور دیگر معلومات کا اندراج کریں گے تو آپ کی ایف آئی آر خود کار طریقے سے لانچ ہو جائے گی‘ اور متعلقہ محکموں اور افسران کو فوری اطلاع مل جائے گی۔ آپ کو اس کے لئے نہ تو کسی کو رشوت دینا پڑے گی نہ ہی کوئی اضافہ فیس ادا کرنا ہو گی۔ اسی طرح دبئی میں خود کار گاڑیوں کا نظام بھی جلد عام ہو جائے گا۔ اس طرح کی سہولیات ملک میں سرمایہ کاری اور سیاحت میں اضافہ کرتی ہیں۔ دبئی بھی تیل سے اتنے پیسے نہیں کما رہا جتنا کہ سیاحت اور تفریح سے۔ دنیا کی ہر چھوٹی بڑی کمپنی کا دفتر دبئی میں واقع ہے۔ کسی نے دنیا میں کوئی چیز بیچنا ہو تو وہ پہلے دبئی بھیجتا ہے کیونکہ دنیا کا ہر قسم کا بندہ وہاں آتا ہے۔ دبئی اب ایک نئے منصوبے پر کام کر رہا ہے جس میں ایک ایسا شہر بسایا جائے گا جس میں ٹمپریچر کو کنٹرول رکھا جا سکے گا۔ سڑکوں‘ بازاروں اور کھلے پارکس میں بھی موسم ٹھنڈا رہے گا۔ دبئی اور سنگاپور کے حکمران آج سے دو سو سال آگے کا سوچتے ہیں۔ وہ ایسے کام کر دکھاتے ہیں جن کے بارے میں صرف سوچا ہی جا سکتا ہے۔
پاکستان میں بے بہا معدنی ذخائر ہیں‘ لیکن پاکستان کا اصل سرمایہ نوجوان ہیں‘ جو اس ملک کی آبادی کا باسٹھ فیصد ہیں۔ اس وقت دنیا میں ٹیکنالوجی کا جو دور دورہ ہے اسے بھی یہ نوجوان ہی سمجھ سکتے ہیں۔ پاکستان کے ان بارہ کروڑ نوجوانوں کو اگر درست سمت میں لگا دیا جائے تو ہم سنگاپور اور دبئی سے کہیں زیادہ آگے جا سکتے ہیں۔ دبئی میں تو دنیا کے نوے فیصد ممالک کے لوگ آباد ہیں جبکہ پاکستان میں خود اتنا ٹیلنٹ موجود ہے کہ کسی کو باہر سے لانے کی ضرورت ہی نہیں۔ یہاں کے بچے آئی ٹی کی دنیا میں اپنا کمال دکھا چکے ہیں۔ ان کی ایک مثال ارفع کریم رندھاوا تھی۔ ارفع کریم آئی‘ چھا گئی‘ چلی گئی اور بیس کروڑ عوام ششدر رہ گئے۔ اس کے پاس وقت کم تھا‘ لیکن اس نے وقت کو بہترین انداز میں گزارا۔ وہ 2 فروری 1995ء کو پیدا ہوئی‘ محض نو برس کی عمر میں مائیکروسافٹ سرٹیفائیڈ پروفیشنل بنی اور بل گیٹس کی دعوت پر واشنگٹن پہنچ گئی۔ ملاقات کے بعد صحافی ٹوڈ بشپ کو انٹرویو دیتے ہوئے ارفع نے کہا ''انسان کو اس کی سوچ کامیاب یا ناکام بناتی ہے‘ اگر سوچ میں اعتماد ہو گا تو آپ کی زندگی کامیاب ہو گی اور اگر آپ کی سوچ میں جھجک‘ تغیر اور خوف نمایاں ہو گا تو آپ کبھی کامیاب نہیں ہوں گے‘‘۔ ارفع پر مرگی کا حملہ ہوا‘ وہ کومے میں چلی گئی اور 26 روز بعد قوم کو رُلاتی ہوئی اس دنیا سے چلی گئی۔ وہ سولہ برس گیارہ ماہ اور تین روز زندہ رہی۔ یہ چھ ہزار ایک سو اکانوے دن بنتے ہیں جبکہ انسان کی اوسط عمر ساٹھ برس یا بائیس ہزار چھ سو دن ہوتی ہے۔ ارفع اس عمر کا صرف ایک چوتھائی جی پائی‘ لیکن اس کے یہ چھ ہزار دن زندگی سے لبریز تھے۔ وہ اپنے نام کے مطابق بلند رتبے والی نکلی۔ وہ بلندیوں کو چھونا چاہتی تھی اسی لئے اس نے دس برس کی عمر میں جہاز تک اڑا لیا۔ وہ بہت جلدی میں تھی لیکن اتنا بڑا کام کر گئی جو لوگ سو سال میں بھی نہیں کر سکتے۔ اس کے نام سے منسوب ارفع کریم سافٹ ویئر پارک کی بلند و بالا عمارت اس کی یاد دلاتی ہے۔ ارفع کریم پاکستان کی وہ واحد بچی تھی‘ جسے دنیا کے امیر ترین شخص بل گیٹس نے اپنے پاس ملاقات کے لئے بلایا تھا۔ ذرا سوچئے ارفع کریم جیسی کتنی بچیاں اور بچے ایسے ہوں گے جو انتہائی ذہین اور باکمال ہوں گے‘ ہمیں اس ملک سے ایسے ہی ہیرے تلاش کرنے ہیں اور انہیں زیادہ سے زیادہ علم و ہنر کی دولت سے نوازنا ہے۔ یہ بچے اور یہ نوجوان پاکستان کو سنگاپور‘ دبئی اور چین سے کہیں زیادہ آگے لے جا سکتے ہیں۔ ان حالات میں بھی پاکستان فری لانسنگ جیسے شعبوں میں دنیا میں تیسرے نمبر پر ہے۔ اگر ہر گریجوایٹ نوجوان کو فری لانسنگ کا کورس لازمی کروایا جائے تو وہ پارٹ ٹائم کام کرکے سینکڑوں ڈالر کا زرمبادلہ لا سکتا ہے۔ دس لاکھ فری لانسر کو تربیت دے دی جائے اور یہ روزانہ اوسطاً تیس ڈالر کمائیں تو دس ارب ڈالر سالانہ کا زرمبادلہ لا سکتے ہیں‘ جو ہماری کل برآمدات کا پچاس فیصد ہے۔ اسی طرح اگر اس ملک میں تعلیم کا بجٹ سنگاپور جتنا ہو جائے‘ یہاں سرمایہ کاری کے لئے حالات سازگار بنائے جائیں‘ کاروبار کو آسان تر بنایا جائے اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے زیادہ سے زیادہ پارکس بنائے جائیں تو چند برسوں میں دنیا کو پاکستان سے بھی غیر معمولی خبریں سننے کو مل سکتی ہیں۔