پاکستان پر اس وقت غیرملکی قرضوں کا بوجھ تقریباً ایک سو ارب ڈالر کے قریب ہے۔ بظاہر یہ اتنی بڑی رقم لگتی ہے کہ اس سے جان چھڑانا ممکن دکھائی نہیں دیتا۔ ان قرضوں پر اربوں ڈالر کا سود الگ سے ادا کرنا پڑتا ہے۔ ڈالر کی قیمت ایک دو روپے بڑھ جائے تو قرضوں کے حجم میں کئی ارب ڈالر کا اضافہ ہو جاتا ہے۔ اس گمبھیر صورت حال سے نکلنے کے لئے موجودہ حکومت بھی اپنا پورا زور لگا رہی ہے۔ پرانے قرض اتارنے کے لئے چند ماہ قبل دوست ممالک سے قرضے لئے گئے اور آئی ایم ایف سے بھی ایک معاہدہ طے پایا جس کے تحت آئی ایم ایف پاکستان کو چھ ارب ڈالر ادا کرے گا۔ سوال یہ ہے کہ کیا مزید قرضے لے کر ہم پرانے قرضے اتار سکتے ہیں؟ کیا عارضی علاج سے یہ معاملہ ہمیشہ کے لئے ٹھیک ہو سکتا ہے؟ میں تنقید کے پہلوئوں میں نہیں جانا چاہتا کیونکہ اس ملک میں اگر سب سے زیادہ کوئی کام ہو رہا ہے تو وہ تنقید ہے۔ عوام ہوں‘ میڈیا یا دیگر حلقے‘ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور ماضی کی غلطیاں اچھالنے میں سب لگے ہیں۔ اس طرح کام نہیں چلے گا۔ دشمن تو پہلے ہی ہماری معاشی کمزوریوں پر بھنگڑے ڈال رہا ہے۔ گزشتہ دنوں جب بھارت نے پاکستانی سرحد کی خلاف ورزی کی اور بم گرائے تو صورت حال جنگ کے قریب پہنچ چکی تھی۔ ایسے میں پاکستان نے بھارتی جارحیت کا زبردست جواب دیا جس پر بھارتی حکومت‘ فوج اور میڈیا‘ سب بوکھلا اٹھے۔ جنگی میدان میں شکست کھانے کے بعد انہوں نے میڈیا پر جہاں دیگر الزامات کی بوچھاڑ کی‘ وہاں یہ بھی کہا جانے لگا کہ پاکستان کے ساتھ تو جنگ کرنے کی ضرورت ہی نہیں کہ اس کی معیشت انتہائی دگرگوں حالت میں ہے اور اس کے پاس صرف دو ماہ کے زرمبادلہ کے ذخائر رہ گئے ہیں۔ یہ انتہائی کڑوی حقیقت تھی‘ جسے تسلیم کئے بغیر چارہ نہیں۔ معیشت کی بہتری کے لئے طویل مدتی ٹھوس پالیسی اپنائے بغیر یہ مسئلہ یونہی سر اٹھاتا رہے گا۔
ہم کس طرح ملکی قرضوں کا بوجھ کم کر سکتے ہیں اور کس طرح ترقی یافتہ ملک بن سکتے ہیں اس کے لئے آپ چند اعداد و شمار اور حقائق ملاحظہ کیجئے۔ گزشتہ ایک عشرے میں ٹیکنالوجی نے پوری دنیا کی ہیئت کو تبدیل کر کے رکھ دیا ہے۔ کولڈ ڈرنکس کی وہ کمپنیاں جو ایک عشرہ قبل دنیا میں سب سے زیادہ منافع کما رہی تھیں‘ وہ آج پندرہویں‘ سولہویں نمبر پر چلی گئی ہیں اور انفارمیشن ٹیکنالوجی سے متعلقہ وہ کمپنیاں جو بیسویں نمبر پر تھیں‘ وہ پہلے پانچ نمبروں پر آ گئی ہیں۔ ان میں گوگل‘ فیس بک‘ ایپل‘ سام سنگ و دیگر شامل ہیں۔ ان کمپنیوں نے ٹیکنالوجی سے جڑا ایسا جال پھیلایا کہ جو جو اس سے جڑتا چلا گیا‘ اس کے وارے نیارے ہوتے چلے گئے۔ آپ آن لائن ٹیکسی سروس اوبر کی ہی مثال لے لیں۔ یہ 2009ء میں وجود میں آئی۔ اس کے بانی گیریٹ کیمپ نے دیکھا کہ لوگوں کو سفر کے لئے ٹیکسی تلاش کرنے میں بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ٹیکسی کمپنی کو فون کر کے ٹیکسی منگوائیں تو انہیں پتا سمجھانے میں کئی منٹ ضائع ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح مسافر ڈرائیور اور گاڑی کی معلومات سے بھی بے خبر ہوتا ہے۔ ان مسائل کو دیکھتے ہوئے گیریٹ کیمپ کو ایک خیال سوجھا اور اس نے چند سو ڈالر کی سرمایہ کاری سے ایک موبائل ایپ لانچ کر دی۔ پہلے چھ ماہ میں صرف چھ ہزار صارفین نے اسے ڈائون لوڈ کیا۔ صرف دو سال بعد یہ امریکہ سے نکل کر فرانس میں پہنچ گئی۔ پھر کینیڈا‘ برطانیہ سے ہوتی ہوئی دنیا کے 173 ممالک میں پہنچ گئی۔ گزشتہ ماہ اوبر کی گاڑیوں کی دس ارب رائیڈز مکمل ہو چکی ہیں۔ اس کے پوری دنیا میں بائیس ہزار ملازمین ہیں‘ گیارہ کروڑ افراد دنیا بھر میں اس کی موبائل ایپ کے ذریعے سفر کرتے ہیں‘ اس کے بانی گریٹ کیمپ‘ جس نے چند سو ڈالر سے یہ ایپ شروع کی تھی‘ آج اکیلا ساڑھے پانچ ارب ڈالر کے اثاثوں کا مالک بن چکا ہے اور اس کمپنی نے صرف گزشتہ ایک سال میں پندرہ ارب ڈالر سے زائد کا خالص منافع کمایا ہے‘ بلکہ دلچسپ بات یہ ہے کہ اوبر ایپ‘ جس کے تحت دنیا بھر میں لاکھوں ٹیکسیاں چل رہی ہیں‘ کی اپنی ایک بھی گاڑی نہیں ہے۔ یہ ساری کامیابی صرف اور صرف مسئلے کا حل نکالتے ہوئے ٹیکنالوجی کو استعمال کرکے صرف چند سو ڈالر کی سرمایہ کاری سے حاصل کی گئی۔ اب آپ پاکستان واپس آ جائیں۔ آپ نے گزشتہ دنوں ایک خبر سنی ہو گی کہ اوبر نے آن لائن ٹیکسی سروس کریم کو 3.1 ارب ڈالر میں خرید لیا ہے۔ یہ ساڑھے چار ہزار ارب روپے بنتے ہیں اور کریم کے دو بانیوں میں سے ایک شخص کا نام مدثر شیخ ہے جو کراچی کا رہائشی ہے۔ مدثر نے سات برس قبل اپنے غیرملکی پارٹنر کے ساتھ مل کر کریم لانچ کی اور اسے چودہ ملکوں تک لے گیا۔ یہ اتنی مقبول ہوئی کہ اوبر کے لئے خطرہ بن گئی اور اوبر کو اسے منہ مانگی رقم کے عوض خریدنا پڑا۔ آپ حساب لگائیں کہ اگر صرف ایک موبائل ایپ تین ارب ڈالر کی فروخت ہو سکتی ہے تو ایسی صرف تیس موبائل ایپ کی فروخت سے تو پاکستان کا سارا قرضہ اتر سکتا ہے۔ یہ کام پاکستان کے باسٹھ فیصد نوجوان کر سکتے ہیں۔ یہ ملک ساڑھے بارہ کروڑ نوجوانوں کی فوج رکھتا ہے جو بہترین صلاحیتوں اور دماغ کے مالک ہیں۔ یہ فوج ٹیکنالوجی اور نت نئی جدتوں کے ذریعے نہ صرف ملکی معیشت بہتر کر سکتی ہے بلکہ پاکستان کو عالمی سطح پر نمایاں مقام بھی دلا سکتی ہے۔
اس کے لئے حکومت کو صرف دو کام کرنے ہوں گے‘ ایک یہ کہ تمام یونیورسٹیوں اور کالجوں میں طلبا کو آئی ٹی کی زیادہ سے زیادہ سہولیات فراہم کرنا ہوں گی اور دوسرا یہ کہ ہر شہر میں سٹارٹ اپ انکوبیٹر قائم کرنا ہوں گے۔ اسی طرح قومی سطح پر ایک بڑا سٹارٹ اپ پلیٹ فارم قائم کرنا ہو گا جہاں چھوٹی سٹارٹ اپ کمپنیاں اپنے منصوبے لے کر آئیں اور وہاں سے پوری دنیا کے ساتھ اپنا تعلق قائم کر سکیں۔ سٹارٹ اپ کا کلچر پاکستان میں نیا ہے لیکن بھارت اور دیگر جدید ممالک میں بہت ترقی پا چکا ہے۔ سٹارٹ اپ انکوبیٹر ایسی جگہ ہوتی ہے جہاں ایک یا ایک سے زیادہ نوجوان کوئی تکنیکی آئیڈیا لاتے ہیں مگر ان کے پاس اس آئیڈیا کو عملی شکل دینے کے لئے وسائل اور عالمی سطح تک لے جانے کی پہنچ نہیں ہوتی۔ پاکستان میں پلان نائن اور اگنائیٹ کے نام سے سٹارٹ اپ انکوبیٹرز موجود ہیں اور یہاں سے بے شمار نوجوان لاکھوں ڈالر مالیت کی کمپنیاں بنا کر کئی ممالک تک پھیلا چکے ہیں؛ تاہم اس کام کو اب انتہائی وسیع انداز میں سنجیدگی کے ساتھ کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ ٹیکنالوجی واحد شعبہ ہے جس کے ذریعے کم وقت اور کم سرمایہ کاری سے بہت زیادہ منافع حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اوبر‘ فیس بک‘ ایمزون‘ یو ٹیوب وغیرہ اس کی بہترین مثال ہیں۔ آج کل سروسز اور ٹیکنالوجی کے ذریعے مسائل کو حل کرنے کا دور ہے۔ اب تو ایسے تھری ڈی دل بھی ایجاد ہو چکے ہیں جنہیں پرنٹ کر کے انسانی جسم میں لگایا جا سکے گا۔ آپ ذرا سوچیں جس انسان کے آخری لمحات آ چکے ہوں اور اسے پتا چلے کہ پانچ یا دس لاکھ روپے میں وہ دل خرید کر بچ سکتا ہے تو مالدار ہوتے ہوئے وہ کیوں نہ خریدے گا؟ چنانچہ پوری دنیا میں ٹیکنالوجی پر زیادہ سے زیادہ تحقیق کی جا رہی ہے اور نوجوانوں کو سکولوں سے لے کر یونیورسٹیوں تک آئی ٹی کی تعلیم سے مسائل کے حل کے لئے تیار کیا جا رہا ہے۔ آج پاکستان کا قرضہ اگر سو ارب ڈالر ہے تو یہ پانچ برس بعد ممکن ہے ڈیڑھ سو ارب ڈالر تک پہنچ جائے لیکن ان پانچ برسوں میں اگر نوجوانوں کو ٹیکنالوجی کے میدان میں فری ہینڈ دیا جائے اور یہ اوبر‘ کریم‘ فیس بک اور ایمزون جیسی کمپنیاں بنا لیں تو ان سے حاصل ہونے والے اربوں ڈالر سے نہ صرف تمام قرضے اتارے جا سکتے ہیں بلکہ ملک کو خوشحال بھی بنایا جا سکتا ہے۔ یہ کوئی ناممکن کام نہیں۔ فیس بک‘ اوبر‘ ٹویٹر بھی چند نوجوانوں کی ہی ایجاد تھی۔ ہم نہ جانے اپنے نوجوانوں کو دوسروں سے کم تر کیوں سمجھتے ہیں۔ ہم انہیں ایک موقع تو دیں پھر دیکھیں یہ کیسے ملک کو قرضوں کے بھنور سے نکال کر ترقی کی شاہراہ پر لاتے ہیں۔