کچھ عرصہ قبل حافظ آباد کے علاقے میں ایک موٹر سائیکل چوری ہو گئی۔ موٹر سائیکل کے مالک نے پولیس پر ''دبائو‘‘ ڈالا تو پولیس نے ایک نو سالہ بچے کو پکڑ لیا‘ اس پر تشدد کیا‘ اس سے موٹر سائیکل چوری منوائی‘ ہتھکڑیاں لگائیں‘ پرچہ کاٹا اور جیل بھجوا دیا۔ یہ پولیس گردی کی صرف ایک مثال ہے۔ آپ کچھ دن قبل فرشتہ کی موت دیکھ لیجئے۔ فرشتہ کے ساتھ زیادتی ہوئی‘ اسے قتل کر کے پھینک دیا گیا۔ بے بس والد انصاف کی فریاد لے کر راولپنڈی کے ایک تھانے پہنچا تو اسے چار روز تک چکر لگوائے گئے۔ کبھی اسے کہا گیا کہ اس کی بچی گھر سے بھاگ گئی ہے تو کبھی کوئی اور طعنے دئیے گئے۔ مجبوراً غریب والد کو فرشتہ کی لاش سڑک پر رکھ کر احتجاج کرنا پڑا تاکہ ایف آئی آر درج ہو سکے۔ اس پر بھی پولیس گردی ختم نہ ہوئی اور لاش ہٹانے کے لئے اس پر دبائو ڈالا جاتا رہا۔ بالآخر وزیر اعظم نے واقعے کا نوٹس لیا اور مظلوم باپ کو انصاف کی یقین دہانی کروائی؛ تاہم سوال یہ ہے کہ پولیس ایسا کیوں کرتی ہے؟ جب کوئی سائل اس کے پاس اپنی فریاد لے کر آتا ہے تو وہ سب سے پہلے اسے ترازو میں تول کر کیوں دیکھتی ہے؟ وہ یہ کیوں دیکھتی ہے کہ درخواست گزار امیر ہے یا غریب؟ طاقتور ہے یا کمزور۔ سفارش رکھتا ہے یا نہیں۔ گاڑی پر آیا ہے یا پیدل۔ اس کے کپڑے اعلیٰ ہیں یا پیوند لگے ہوئے اور وہ کوئی کاروباری ہے یا بیروزگار۔ آخر پولیس اسے ایک شہری کے طور پر کیوں نہیں دیکھتی۔ ذرا سوچیں جب یہی ریاست کسی غریب سے اس وقت بیس تیس روپے ٹیکس لیتی ہے‘ جب وہ سو روپے کا کارڈ لوڈ کرتی ہے‘ تب تو یہ نہیں دیکھا جاتا کہ وہ یہ ٹیکس دینے کی صلاحیت رکھتا ہے یا نہیں۔ تب تو اس سے ٹیکس فوری لے لیا جاتا ہے لیکن جب وہی شخص انہی ٹیکسوں پر چلنے والے اداروں اور افسران کے سامنے اپنی فریاد لے کر جاتا ہے تو پھر اس کی ناک کیوں رگڑوائی جاتی ہے؟ کیوں اسے ایک حقیر مخلوق ثابت کیا جاتا ہے؟ ذرا سوچئے کہ اس طرح کا رویہ اگر پولیس کسی اور ملک میں رکھتی تو کیا ہوتا‘ یہ جاننے کے لئے آپ سعودی عرب کی مثال لیجئے۔ چند برس قبل وہاں دو پولیس اہلکاروں نے ایک لڑکی سے زیادتی کی اور اس کے والد کو قید کر دیا۔ آپ انصاف اور قانون کی پھرتیاں دیکھئے۔ یہ واقعہ جمعرات اور جمعہ کی درمیانی شب پیش آیا۔ مگر اگلے روز یہ دونوں پولیس والے جیل میں تھے جبکہ لڑکی کا والد باہر آ چکا تھا۔ کیس شروع ہوا اور دوسری سماعت کے بعد فیصلہ آ گیا۔ ہفتہ کے روز دونوں پولیس ملازمین کے سر قلم کر دئیے گئے اور ایسا صرف سعودی عرب میں ہی نہیں بلکہ اس معاملے میں چین بھی پولیس کو معاف نہیں کرتا۔ 46 سالہ یو کیون چین کے صوبے نان آن کا ہیڈ پولیس آفیسر تھا۔ یو کیون پر کریمینل آرگنائزیشن چلانے‘ ملزموں کو غیر قانونی حراست میں رکھنے‘ وحشیانہ ٹارچر کرنے اور نا جائز مقدمات بنانے کا الزام تھا۔ چین کی عدالت نے فیصلہ سنا دیا۔ یو کیون کو سزائے موت کے علاوہ 22 ملین ڈالر جرمانہ ہوا۔ اور یہ صرف چین میں ہی نہیں ہوتا بلکہ لبنان جیسا ملک بھی ایسے ہی کرتا ہے۔ 2006ء میں لبنان میں ایک کار بم دھماکے میں دو فلسطینی شہید ہو گئے۔ اس دھماکے میں ایک لبنانی پولیس افسر محمود رافع کی معاونت شامل تھی۔ رافع گرفتار ہوا۔ اس پر مقدمہ چلا اور اسے بھی سزائے موت ہوئی۔ اور ایسا صرف لبنان ہی میں نہیں ہوتا بلکہ زمبابوے میں بھی یہی چلن ہے۔ بلاویو زمبابوے کا دوسرا بڑا شہر ہے۔ بلاویو میں ایک پولیس افسر ماتیب نے ایک افریقی باشندے کو روکا اور اس سے نقدی طلب کی۔ انکار پر ماتیب بپھر گیا اور اس پر ٹھڈوں اور مکوں کی بارش کر دی جس سے وہ شخص موقع پر ہلاک ہو گیا۔ ماتیب گرفتار ہوا‘ اس کے خلاف مقدمہ چلا اور ماتیب کو موت کی سزا سنا دی گئی۔ اور پولیس کے ساتھ انصاف صرف زمبابوے میں ہی نہیں بلکہ ہالینڈ میں بھی ہوتا ہے۔ جولائی 2008ء میں ہالینڈ کے ایک پولیس آفیسر ڈیکلین نے اپنی بیوی کو قتل کیا اور لاش نہر میں بہا دی۔ کچھ ہی دور جا کر نہر نے یہ لاش اُگل دی‘ بھید کھل گیا اور ڈیکلین گرفتار ہو گیا۔ صرف ایک ماہ بعد 24 اگست کو ڈیکلین کے خلاف موت کا فیصلہ آ گیا۔ مجرم نے فیصلے کے خلاف اپیل نہیں کی اور بیس روز بعد سیدھا اپنی بیوی کے پاس پہنچ گیا۔
ہماری پولیس ایسا کیوں کرتی ہے اس کا دوسرا رخ بھی ہے۔ آپ پولیس کی تنخواہ‘ اس کی ڈیوٹی کا دورانیہ‘ ڈیوٹی کی نوعیت اور ملنے والی مراعات بھی دیکھ لیجئے‘ بہت کچھ واضح ہو جائے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ اوپر چند پولیس افسران کو چھوڑ کو نچلے درجے کے پولیس اہلکار انتہائی کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ وہ شدید گرمی اور سردی میں سخت ترین ڈیوٹی سر انجام دیتے ہیں۔ ان کے لئے آٹھ گھنٹے کی ٹائمنگ بھی مقرر نہیں۔ جب چاہے‘ جہاں چاہے انہیں بلا لیا جاتا ہے۔ آئے روز کے دھرنوں‘ جلسوں اور جلوسوں میں انہیں مقررہ وقت سے پہلے پہنچنا ہوتا ہے اور جب تک دھرنے جلوس اور جلسے ختم نہیں ہو جاتے وہ مسلسل آن ڈیوٹی رہتے ہیں۔ رفع حاجت کہاں کرنی ہے‘ کھانا پینا کیسے ہے‘ آرام کب کرنا ہے اس طرح کے سوال شاید ان کی زندگی میں معنی نہیں رکھتے۔ زیادہ تر پولیس اہل کار دیگر اضلاع سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ کئی کئی ماہ بعد اپنے گھروں کو جاتے ہیں۔ ان کے پاس اتنا کرایہ بھی نہیں ہوتا کہ یہ ہر ہفتے یا ہر مہینے اپنے پیاروں کو ملنے جا سکیں۔ وی آئی پی ڈیوٹیوں اور پروٹوکول کے لئے انہیں ہر حال میں متحرک رہنا ہے۔ سنسان سڑکوں پر کئی کئی گھنٹے بنا پانی کے بھوکے پیاسے کھڑا ہونا پڑتا ہے۔ جب ان سب سختیوں اور مشکلات کو جھیلنے کے بعد بھی انہیں اپنی محنت کا وہ صلہ نہیں ملتا تو پھر ان کے مزاج میں سختی اور بے رحمی کا جذبہ ابھر آتا ہے۔ ان کے لئے رحم اور معافی کے جذبات بے معنی ہو جاتے ہیں۔ انہیں ہر انسان ایک جیسا دکھائی دینے لگتا ہے۔ کوئی غریب ان کے پاس فریاد لے کر آ جائے تو یہ اپنا غصہ اس پر نکالنے لگتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے پولیس اہلکار جب ترقی پا جاتے ہیں تب بھی ان کا رویہ تبدیل نہیں ہوتا۔ یہ رویہ ان کی روح میں سرایت کر چکا ہوتا ہے؛ چنانچہ جہاں ہم پولیس گردی کی بات کرتے ہیں‘ وہاں ہمیں ماننا پڑے گا کہ پولیس کے ساتھ بھی بہت سی زیادتیاں ہوتی ہیں۔ یہ لوگ اپنی جان پر کھیل کر ہماری حفاظت کرتے ہیں۔ یہ دھماکوں میں شہید اور زخمی ہوتے ہیں۔ ان کے بعد ان کے بچے کس اذیت سے گزرتے ہیں‘ یہ ہم نہیں جانتے۔ ہم تو صرف یہ دیکھتے ہیں کہ فلاں پولیس والے نے زیادتی کی؛ چنانچہ ساری پولیس ہی ظالم ہے۔ ایسا نہیں ہے۔ پولیس میں بھی بہت سے اچھے لوگ موجود ہیں لیکن بحیثیت مجموعی پولیس کے حالات پر نظر ثانی کی اشد ضرورت ہے۔ بالخصوص نچلے درجے کے پولیس اہلکاروں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے‘ جو لاٹھیاں ہاتھ میں اٹھائے بیس بیس گھنٹے کی ڈیوٹی کرتے ہیں‘ اس کے باوجود ان کے بچے اچھی خوراک‘ اچھی تعلیم اور اچھی رہائش سے محروم رہتے ہیں۔ آپ اس کے مقابلے میں دبئی کے پولیس والوں کو دیکھیں جنہیں دنیا کی مہنگی ترین گاڑیاں ملی ہوئی ہیں‘ ان کی ڈیوٹیوں کے اوقات بھی مقرر ہیں اور ان کی تنخواہیں اور ان کی مراعات اتنی اعلیٰ ہیں کہ وہ اپنی ڈیوٹی سے ایک پل بھی غافل رہنا گوارا نہیں کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ دبئی‘ سنگا پور اور ملائیشیا جیسے ممالک میں کرائم ریٹ بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔ ہم اگر اپنے ملک میں امن چاہتے ہیں‘ ہم چاہتے ہیں کہ ہماری پولیس ہمارے ساتھ مناسب رویہ رکھے‘ یہ عام شہریوں کے ساتھ عزت سے پیش آئے تو ریاست کو پولیس کے سر پر دست شفقت رکھنا ہو گا‘ انہیں اور ان کے اہل خانہ کو زندگی کی بنیادی ضروریات فراہم کرنا ہوں گی اور ان کی ڈیوٹی کے اوقات مقرر کرنا ہوں گے۔ اس کے بعد بھی اگر کوئی پولیس افسر یا اہلکار شہریوں کے ساتھ بد سلوکی کا مظاہرہ کرتا ہے تو پھر اس کے ساتھ وہی سلوک کرنا ہو گا جو ایک عادی مجرم کے ساتھ کیا جاتا ہے۔