سنگاپور اور فن لینڈ دنیا کا بہترین تعلیمی نظام چلا رہے ہیں۔ سنگاپور اپنے کل بجٹ کا بیس فیصد (بارہ ارب ڈالر) تعلیم پر خرچ کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا میں دو سو سے زائد ممالک ہیں لیکن ریاضی‘ سائنس اور مطالعے میں سنگاپور کے طلبا مسلسل پہلی پوزیشن لیتے آ رہے ہیں۔ سنگاپور کے بیوروکریٹ دنیا کی اعلیٰ ترین یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل ہیں۔ اعلیٰ تعلیمی قابلیت کے باعث وہ اپنے ملک کی معیشت کو اتنا عروج پر لے گئے ہیں کہ آج 55 لاکھ کی آبادی والا کراچی سے چھوٹا یہ ملک 350 ارب ڈالر کی برآمدات کر رہا ہے۔ سنگاپور کے طالب علم آرگنائزیشن برائے کوآپریشن اینڈ ڈویلپمنٹ کے تحت ہونے والے امتحانات میں اول آتے ہیں۔ یہ امتحان 75 ممالک میں سائنس‘ ریاضی اور مطالعے کو جانچنے کے لئے لیا جاتا ہے۔ سنگاپور میں سفارش پر بھرتیوں کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس کی ترقی کی بنیادی وجہ اس کے اعلیٰ تعلیم یافتہ اساتذہ ہیں۔ اساتذہ کی تنخواہ اس قدر پُر کشش ہوتی ہے کہ بیشتر طلبا تدریس کے شعبے کی طرف آنا پسند کرتے ہیں۔ سنگاپور میں ایک نئے بھرتی ہونے والے استاد کی تنخواہ 1800 تا 3300 ڈالر ماہانہ سے شروع ہوتی ہے۔ تنخواہ کے علاوہ انہیں اوور ٹائم اور بونس بھی ملتا ہے۔ ایک وقت ایسا بھی تھا جب سنگاپور ایشیا کا غریب ترین ملک تھا۔ 65ء میں سنگاپور نے ملائیشیا سے آزادی حاصل کی تو اس وقت صرف ملک کا امیر طبقہ ہی تعلیم حاصل کر سکتا تھا۔ اس وقت ملک کی آدھی سے زیادہ آبادی نا خواندہ تھی۔ دیگر ایشیائی ممالک کی طرح سنگاپور کے پاس تیل جیسے قدرتی ذخائر موجود نہ تھے لیکن اس کے پاس انسان تھے اور انسانوں میں وہ دماغ تھے جن پر اس نے سرمایہ کاری کرکے تقدیر بدلنے کا فیصلہ کیا تھا۔
سنگاپور کی طرح فن لینڈ کا تعلیمی نظام بھی بلندیوں کو چھو رہا ہے۔ میٹرک کے امتحان کے علاوہ کوئی قومی سطح کا امتحان نہیں لیا جاتا۔ ہر استاد اپنے طالب علم کے امتحان کا معیار اس کی صلاحیتوں اور کارکردگی کو دیکھتے ہوئے خود مقرر کرتا ہے۔ تدریس کے لئے اساتذہ کا ماسٹرز ڈگری ہولڈر ہونا لازمی ہے۔ فن لینڈ کے تعلیمی نظام کی کامیابی کی ایک اور وجہ طلبا کی ایک دوسرے کے ساتھ معاونت کے عمل کی ترویج ہے نہ کہ مقابلہ بازی۔ فن لینڈ میں طلبا کے ایک دوسرے کے ساتھ تقابل کی بجائے ان کی انفرادی صلاحیتوں کو نکھارنے پر زور دیا جاتا ہے۔ وہ کہتے ہیں: دنیا میں ارب ہا لوگ ہیں لیکن کوئی بھی دو انسان برابر نہیں ہو سکتے۔ ہر کسی کی عادات‘ اطوار‘ یادداشت‘ صلاحیتیں‘ خوبیاں‘ کمزوریاں‘ رجحانات سب ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔ حتیٰ کہ دو جڑواں بھائی بھی‘ جو ایک ہی والدین کے ہاں پیدا ہوتے ہیں‘ دیکھنے میں تو ایک جیسے ہو سکتے ہیں لیکن ان کی صلاحیتیں ایک دوسرے سے مختلف ہوتی ہیں؛ چنانچہ ایک دوسرے سے مقابلے بازی میں وقت ضائع کرنے اور طلبا کو احساس کمتری میں مبتلا کرنے کی بجائے وہاں طلبا کی انفرادی کمزوریوں کو تلاش کر کے خوبیوں میں تبدیل کیا جاتا ہے اور ہر بچے کو انمول ہیرے کی طرح تراش خراش کر عملی میدان کے لئے تیار کیا جاتا ہے۔ فن لینڈ کے تعلیمی نظام میں بنیادوں اور جڑوں کو مضبوط کرنے میں کوئی کوتاہی نہیں برتی جاتی۔ بچوں کی صحت کو مقدم سمجھا جاتا ہے۔ خوراک پر خاص توجہ دی جاتی ہے۔ بچے گھر سے کھانا لاتے ہیں نہ ہی سکول سے کوئی الا بلا کھا سکتے ہیں۔ ہر بچے کو سکول کی جانب سے مفت کھانا دیا جاتا ہے۔ کھانے میں سلاد‘ گوشت اور پھل متناسب مقدار میں موجود ہوتے ہیں۔ فن لینڈ میں بچوں کو سکول کی جانب سے متوازن لنچ دینے کے لئے باقاعدہ قانون سازی ہو چکی ہے اور فن لینڈ دنیا کا وہ پہلا ملک ہے جو 1948 سے بچوں کو مفت لنچ فراہم کر رہا ہے۔ فن لینڈ میں نیشنل بورڈ آف ایجوکیشن کے تحت ہر سکول میں کیٹرنگ کا باقاعدہ شعبہ قائم ہے جہاں حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق کھانا تیار اور فراہم کیا جاتا ہے۔ کھانے میں پروٹین‘ کاربوہائیڈریٹس‘ وٹامنز اور دیگر اجزا متناسب مقدار میں موجود ہوتے ہیں۔ فن لینڈ میں ہر بچے پر سکول میں دوران تعلیم جتنی لاگت آتی ہے‘ سکول لنچ اس لاگت کا آٹھ فیصد ہوتا ہے۔ 66 فیصد ان کی تدریس پر خرچ ہوتا ہے اور چار فیصد ٹرانسپورٹ‘ رہائش اور باقی دیگر انتظامی معاملات پر۔ لنچ کچھ اس قسم کا ہوتا ہے: ایک بڑی سی پلیٹ میں ایک تازہ ابلا ہوا آلو۔ تھوڑے سے چاول۔ مچھلی۔ مکھن سلائس۔ پھلوں کے چند ٹکڑے اور خالص کم چربی والا دودھ۔ میٹھی ڈشیں عموماً خاص مواقع پر ہی رکھی جاتی ہیں کیونکہ یہ موٹاپے کو بڑھاتی ہیں۔ بچے ایک قطار میں لگ کر اپنی پلیٹ میں کھانا خود ڈالتے ہیں۔آپ کو فن لینڈ میں موٹے بچے بہت کم نظر آئیں گے کیونکہ وہاں جنک فوڈ ممنوع ہے۔ جبکہ امریکہ میں بارہ سے انیس برس کا ہر پانچ میں سے ایک بچہ موٹاپے کا شکار ہے۔ امریکہ میں بھی سکولوں کی جانب سے متوازن لنچ فراہم کرنے کا سلسلہ شروع ہوا تھا لیکن ٹرمپ انتظامیہ نے چاکلیٹ اور جنک فوڈ کو دوبارہ لنچ میں شامل کروا دیا ہے۔ امریکہ میں سکول لنچ کا دورانیہ محض پندرہ منٹ ہے جبکہ ایک میڈیکل ریسرچ کے مطابق یہ دورانیہ اگر بیس منٹ سے کم ہو گا تو بچے خوراک کے ساتھ انصاف نہیں کر سکیں گے اور جلدی میں بہت کچھ چھوڑ بھی دیں گے۔ ان کے لئے ڈبل روٹی اور سلاد بھی اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ چکن یا بیف لیکن انہیں کھانے کا کم وقت ملے گا تو وہ چکن یا بیف نکال کر کھا لیں گے اور سلاد اور بریڈ کو ہاتھ نہیں لگائیں گے۔ بظاہر یہ چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں لیکن فن لینڈ میں بچوں کو کم عمری میں اس طرف لگانے سے ایسی عادات پختہ ہو جاتی ہیں کہ وہ بڑے ہو کر بھی متوازن خوراک کھانا ہی پسند کرتے ہیں اور صحت مند رہنے سے وہ صحت مند معاشرہ ترتیب دے سکتے ہیں۔ وہاں بچوں کی نیند اور جسمانی سرگرمیوں پر خاص توجہ دی جاتی ہے۔ والدین کو باقاعدہ باور کرایا جاتا ہے کہ ان کے بچے اتنا ناشتہ کر کے سکول آئیں کہ انہیں سکول شروع ہوتے ہی بھوک نہ لگ جائے اور ان کا دھیان پڑھائی کی بجائے لنچ بریک کی جانب نہ ہو جائے۔ فن لینڈ میں بچوں کی نفسیاتی رہنمائی کا خاص اہتمام ہوتا ہے۔ بچے کسی پریشانی‘ تذبذب یا احساس کمتری کا شکار تو نہیں ہو رہے یہ سب جاننے کے لئے ان کی انفرادی سطح پر ہفتہ وار رہنمائی کی جاتی ہے۔ بچوں کا سکول میں داخلہ سات برس کی عمر میں ہوتا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں اس سے پہلے سکول میں انہیں لانا ان کے بچپن کے ساتھ نا انصافی ہو گی۔ فن لینڈ میں صرف نو برس کی سکول ایجوکیشن لازمی ہے۔ نو سالہ سکول تعلیم یا سولہ برس کی عمر کے بعد ہر تعلیم اختیاری ہے۔ عام طور پر بچوں کو صبح اٹھنا‘ تیار ہونا‘ ناشتہ کرنا اور جلدی جلدی سکول پہنچنا پڑتا ہے جس سے وہ سکول سے نفرت کرنے لگتے ہیں؛ تاہم فن لینڈ میں سکول کا وقت صبح نو سے پونے دس بجے شروع ہوتا ہے اور دوپہر اڑھائی بجے تک جاتا ہے۔ کلاسوں اور بریک کا دورانیہ طویل ہوتا ہے اور بچوں میں تیز تیز معلومات ٹھونسنے کی بجائے انہیں اطمینان کے ساتھ تعلیم سے روشناس کرایا جاتا ہے۔ فن لینڈ میں ایک ٹیچر چھ برسوں تک تبدیل نہیں ہوتا۔ اس سے بچوں اور اساتذہ کے درمیان ہم آہنگی اور قربت مضبوط ہوتی ہے‘ وہ ایک دوسرے کو سمجھتے ہیں اور اساتذہ ان کے مینٹور اور فیملی ممبر کا درجہ حاصل کر لیتے ہیں۔ بچے انہیں اپنے مسائل بتاتے ہیں اور یوں بچوں کی شخصیت کسی رکاوٹ کے بغیر پروان چڑھتی ہے۔ دنیا کے دیگر ممالک کے مقابلے میں فن لینڈ میں بچوں کو انتہائی کم ہوم ورک ملتا ہے۔ زیادہ تر کام انہیں سکول میں ہی کروایا جاتا ہے۔ انہیں جو معلومات بتائی جاتی ہیں وہ سکول میں ہی ان کی پریکٹس بھی کرتے ہیں اور یوں وہ رٹا لگانے اور بھاری ہوم ورک سے بچے رہتے ہیں۔
جس طرح ایک گھر میں باپ اپنے پیٹ پر پتھر پاندھ لیتا ہے لیکن بچوں کو بہترین تعلیم دلاتا ہے چاہیے تو یہ تھا کہ ایسا ہی رویہ حکومت کی جانب سے تعلیمی شعبے کے ساتھ بھی اپنایا جاتا۔ بدقسمتی سے پاکستان جنوبی ایشیا میں تعلیم پر سب سے کم خرچ کرنے والا ملک ہے۔ اسی لئے یہاں کبھی ترقی کی جانب سفر شروع ہی نہیں ہو پایا۔ ہر آنے والی حکومت میں تعلیمی بجٹ پہلے سے کم کیا جا رہا ہے۔ حالیہ بجٹ میں اعلیٰ تعلیم کا بجٹ ستاون ارب سے کم کر کے 43 ارب کر دیا گیا ہے۔ سرکاری یونیورسٹیوں میں سکالرشپ ختم کئے جا رہے ہیں۔ ایسے اقدامات سے ہم ترقی پسند اہداف کیسے حاصل کر سکیں گے؟