"ACH" (space) message & send to 7575

سال میں دو سو کتابیں کیسے پڑھیں؟

وارن بفے امریکی بزنس مین اور دنیا کا امیر ترین انسان ہے۔ کسی نے اس سے اس کی ترقی اور کامیابی کا راز پوچھا تو وہ اپنی کتابوں کی الماری کی جانب اشارہ کرتے ہوئے بولا: آپ کامیابی چاہتے ہیں تو روزانہ پانچ سو صفحات پڑھیں۔ اس سے آپ کے علم میں اضافہ ہو گا‘ یہ علم آپ کے لئے کمپائونڈ انٹرسٹ کا کام کرے گا اور ایک دن آئے گا جب یہ علم کئی گنا کامیابی کی صورت میں آپ کو واپس ملے گا۔ آپ سب لوگ یہ کام کر سکتے ہیں لیکن میں گارنٹی دیتا ہوں بہت کم لوگ اس پر توجہ دیں گے۔
معروف مصنف 'چارلس چو‘ کی اس تحقیق نے تہلکہ مچا دیا ہے کہ جتنا وقت آپ ایک سال میں سوشل میڈیا پر ضائع کرتے ہیں اتنے وقت میں آپ دو سو کتابیں پڑھ سکتے ہیں۔ چارلس کہتا ہے: اگر آپ وارن بفے کی طرح امیر بننا چاہتے ہیں تو آپ کو اپنی مطالعے کی عادت بہتر بنانا ہو گی؛ تاہم بہت سے لوگ مطالعے کو بوجھ سمجھتے ہیں۔ اکثر کتابیں پڑھنے کا ارادہ کرتے ہیں لیکن پڑھنے سے پہلے ہی چھوڑ دیتے ہیں۔ ان حالات میں جب آپ ایسے کسی شخص کو کہیں کہ وہ روزانہ پانچ سو صفحات پڑھے تو وہ لامحالہ یہی کہے گا کہ یہ ناممکن کام ہے‘ دن بھر میں اتنی مصروفیات ہوتی ہیں‘ نوکری‘ کاروبار‘ بیوی بچے‘ بیماری‘ خوشی غمی۔ ان سب میں سے اتنا وقت کیسے نکل سکتا ہے۔ انسان اس وقت اور مصروفیات میں سے پانچ سو صفحات روزانہ پڑھنے کے لئے کیسے وقت نکال سکتا ہے۔ یہ سمجھنے کے لئے زیادہ تردد کی ضرورت نہیں۔ ریاضی کی الف ب جاننے والے بھی بآسانی سمجھ سکتے ہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق ایک شخص ایک منٹ میں دو سو سے چار سو الفاظ پڑھ سکتا ہے۔ اگر ایک کتاب پچاس ہزار الفاظ پر مشتمل ہو اور ہم یہ جاننا چاہتے ہوں کہ ایسی دو سو کتابوں کو ایک سال میں پڑھنے کے لئے کتنا وقت درکار ہوتا ہے تو ہمیں چھوٹی سی کیلکولیشن کرنا ہو گی اور ساری بات کھل جائے گی۔ دو سو کتابوں کو پچاس ہزار الفاظ سے ضرب دیں تو یہ ایک کروڑ لفظ بنتے ہیں۔ ان ایک کروڑ الفاظ کو چار سو الفاظ فی منٹ سے تقسیم کریں تو 25 ہزار منٹ بنتے ہیں۔ انہیں گھنٹوں میں تقسیم کرنے کے لئے 60 سے تقسیم کریں تو یہ 417 گھنٹے بنتے ہیں؛ چنانچہ واضح ہوا کہ ایک سال میں دو سو کتب پڑھنے کے لئے کُل 417 گھنٹے درکار ہوتے ہیں۔ اگر ہم ان گھنٹوں کو بارہ مہینوں پر تقسیم کریں تو یہ تقریباً 35 گھنٹے فی مہینہ بنتے ہیں۔ تیس دنوں پر تقسیم کریں تو ایک دن کی اوسط نکل آتی ہے جو ایک گھنٹہ پندرہ منٹ نکلتی ہے۔ اُف میرے خدا۔ بندے نے ایک سال میں دو سو کتابیں پڑھنی ہوں تو اس کے لئے چوبیس گھنٹوں میں سے صرف سوا گھنٹہ چاہیے؟ یہ سوچ کر مجھے بھی اتنی ہی حیرانی ہوئی جتنی آپ کو ہو رہی ہے۔ 
اب دیکھتے ہیں کہ ہم ایک سال میں سوشل میڈیا پرکتنا وقت ضائع کرتے ہیں۔ اگر روزانہ چھ گھنٹے فیس بک‘ یوٹیوب اور دیگر سوشل میڈیا پر خواری کی جائے تو یہ سال کے 2160 گھنٹے بنتے ہیں۔ ہم اگر اس وقت کو دو سو کتابیں پڑھنے کے لئے درکار وقت یعنی 417 گھنٹوں سے تقسیم کر دیں تو یہ اس وقت سے پانچ گنا بنتا ہے۔ یعنی جو لوگ چھ گھنٹے روزانہ سوشل میڈیا پر ادھر اُدھر کی ہانکنے اور چٹکلے دیکھنے میں گزار دیتے ہیں وہ ایک سال میں اس حساب سے ایک ہزار سے زائد کتابیں پڑھ سکتے ہیں اور ذرا سوچیں کہ جو شخص ایک برس میں ایک ہزار کتابیں پڑھ لے وہ کتنا بڑا سکالر اور کتنے بڑے علمی خزانے کا مالک بن جائے گا۔ اب بھی کوئی شخص اگر کہتا ہے کہ سال کے 417 گھنٹے بہت زیادہ ہیں تو اس کے لئے ایک اور مثال سامنے رکھتے ہیں۔ امریکہ کی بات کریں تو وہاں لوگ سالانہ 608 گھنٹے سوشل میڈیا پر اور 1642 گھنٹے ٹی وی دیکھنے میں گزار دیتے ہیں۔ یہ کل 2250 گھنٹے بنتے ہیں اور ان میں بھی ایک ہزار سے زیادہ کتابیں پڑھی جا سکتی ہیں۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ آپ سوشل میڈیا اور ٹی وی کو بالکل خیرباد کہہ دیں‘ ٹی وی کباڑیئے کو اٹھوا دیں اور موبائل بیچ کر برتن خرید لیں بلکہ ہم تو صرف یہ کہہ رہے ہیں کہ آپ اپنے اسی وقت کو بہتر انداز میں استعمال کریں۔ اس کے لئے آپ کو ابتدا میں مشکل محسوس ہو گی لیکن پھر سب کچھ روٹین میں آ جائے گا۔ سب سے پہلے آپ سوشل میڈیا پر روزانہ اپنا وقت مانیٹر اور کیلکولیٹ کریں۔ آپ دیکھیں کہ آپ اسے کتنا وقت دے رہے ہیں۔ اس کے لئے آپ کو کوالٹی ٹائم یا دیگر موبائل ایپس مل جائیں گی۔ کوئی بھی اچھی ایپ انسٹال کر لیں اور ایک ہفتہ جائزہ لیں۔ ایک ہفتے میں آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ آپ کا اوسط استعمال کا وقت کتنا ہے۔ یہ ایپس آپ کو یہ بھی بتا دیں گی کہ آپ فیس بک پر کتنی دیر رہے‘ یوٹیوب پر کتنی دیر ویڈیوز دیکھیں‘ یہ آپ کے گزارے گئے ہر سیکنڈ کی رپورٹ آپ کو ساتھ ساتھ دے گا۔ ایک ہفتے بعد دیکھیں کہ اگر آپ اوسطاً چار گھنٹے روزانہ سوشل میڈیا کو دے رہے ہیں اور کتب بینی اور مطالعے کے لئے وقت نہیں نکال پا رہے تو آپ اس وقت کو آدھا کر لیں۔ آپ سوشل میڈیا سے تعلق ترک نہ کریں بلکہ روزانہ چار کی بجائے دو گھنٹے متعین کر لیں۔ ایک گھنٹہ دوپہر اور ایک گھنٹہ شام کو۔ باقی کے دو گھنٹے آپ کتاب پڑھنے کے لئے وقف کر دیں۔ یہ مہینے کے 60 اور سال کے 720 گھنٹے بنتے ہیں۔ اگر آپ کی الفاظ پڑھنے کی رفتار چار سو لفظ فی منٹ ہے تو آپ اس حساب سے ایک ہفتے میں 8‘ ایک مہینے میں 32 اور ایک سال میں 380 سے زائد کتب پڑھ لیں گے‘ اور اگر آپ کی پڑھنے کی رفتار اس سے آدھی ہے یا آپ روزانہ چار کی بجائے دو گھنٹے سوشل میڈیا کو دیتے ہیں تو اسے ایک گھنٹہ کرنے سے روزانہ ایک یا سوا گھنٹہ کتب پڑھنے کے لئے نکال لیں گے‘ جس سے آپ ایک سال میں ایک سو سے زائد کتب پڑھ لیں گے جو آپ کے لئے کافی اور شافی ہوں گی۔ 
میں نے گزشتہ کالم میں ماردھاڑ اور قتل عام پر مبنی کمپیوٹر اور موبائل گیم پب جی کا تفصیل سے ذکر کیا تھا۔ یہ گیم اتنی پُرکشش ہے کہ اسے پوری دنیا میں بچے اور نوجوان روزانہ کم از کم پانچ چھ گھنٹے کھیلتے ہیں۔ اس کی بناوٹ ایسی ہے کہ یہ کھیلنے والے کو بور نہیں کرتی اسی لئے وہ جب بھی اسے ختم کرتے ہیں‘ کچھ دیر بعد نئی لذت اور نئے نشے کے ساتھ دوبارہ شروع کر دیتے ہیں۔ اس گیم سے ذہنی‘ نفسیاتی‘ سماجی‘ جسمانی اور معاشرتی نقصانات کا تو میں نے ذکر کر دیا تھا‘ لیکن وقت کے ضیاع کا اندازہ آپ کو آج کے کالم سے ہو گیا ہو گا۔ ابھی ہم سوشل میڈیا کو رو رہے تھے‘ ایسی گیموں نے باقی کسر بھی نکال دی ہے۔ غیرنصابی کتب اور مطالعے کی طرف آنا تو دُور کی بات‘ وہ اپنی نصابی کتب اور ہوم ورک سے بھی دُور ہوتے جا رہے ہیں۔ آج نوجوانوں کو سوائے موبائل اور کمپیوٹر پر گیموں اور سوشل میڈیا پر وقت ضائع کرنے کے کچھ بھی دکھائی نہیں دیتا۔ یہ انتہائی خطرناک روش ہے۔ یاد رہے کہ امریکہ میں اب بھی کتب بینی کا رواج زندہ ہے۔ وہاں کتابوں کے ایڈیشن پانچ پانچ دس دس لاکھ کی تعداد میں شائع ہوتے ہیں۔ حتیٰ کہ ہمسایہ ملک بھارت میں بھی کتابوں کی قدر و قیمت موجود ہے۔ ہم کہاں کھڑے ہیں‘ ہماری نئی نسل کس طرف جا رہی ہے یہ ہمیں سوچنا ہے۔ ٹیکنالوجی کی گود میں نئی نسل کے پیدا ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ انہیں ٹیکنالوجی کی نذر کر دیا جائے۔ کتب بینی کو ٹیکنالوجی کی مدد سے زندہ رکھنے کے لئے پنجاب آئی ٹی بورڈ نے صوبہ کے بیس اضلاع میں درجنوں ای لائبریریاں قائم کی ہوئی ہیں جہاں تین لاکھ سے زائد کتابوں تک رسائی کی صورت میں علم کے بیش بہا خزانے موجود ہیں۔ اسی طرح ای بکس کی مدد سے موبائل فون پر کتابیں پڑھنا انتہائی آسان ہو چکا ہے۔ کتب بینی دماغی نشوونما‘ یادداشت کی بہتری اور اخلاق سازی کا موجب بنتی ہے۔ یقین کیجئے آپ پورا ایک گھنٹہ سوشل میڈیا پر انگلیاں مارتے رہیں اور ایک گھنٹہ ہی توجہ سے کوئی کتاب پڑھ لیں تو کتاب کا وہ حصہ اگلے بیس برس بھی آپ کے ذہن پر نقش رہے گا لیکن سوشل میڈیا پر آپ نے ایک گھنٹے میں کیا دیکھا اور کیا سنا‘ یہ آپ کو اگلا سورج نکلنے سے قبل ہی بھول چکا ہو گا۔ یقین نہیں آتا تو تجربہ کرکے دیکھ لیجئے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں