ایک اور سوال جو میٹرک کے ڈھیروں ڈھیر نمبر آنے پر پوچھا جا رہا ہے‘ یہ ہے کہ جس ملک میں بچے امتحانات میں ننانوے فیصد نمبر لے رہے ہیں وہاں پر کوئی اچھا سائنسدان‘ کوئی غیرمعمولی انجینئر اور عالمی سطح کا کوئی آرکیٹیکٹ کیوں پیدا نہیں ہو رہا؟ کیوں ایسا ہوتا ہے کہ ہر سال میٹرک کے امتحانات ہوتے ہیں‘ ایک لاکھ میں سے بیس ہزار بچے نوے فیصد سے اوپر نمبر لے لیتے ہیں لیکن ان بیس ہزار بچوں میں سے بیس بھی ایسے نہیں ہوتے جو آگے چل کر غیر معمولی شخصیات بن کر نکلتے ہوں۔ آخر ایسا کیوں ہوتا ہے کہ سارے ٹاپر بچے بعد ازاں وقت کے دھندلکے میں گم ہو جاتے ہیں اور کسی کو یاد بھی نہیں رہتا کہ میٹرک میں پورے پاکستان کے اسی نوے فیصد بچوں نے کیا تیر مارا تھا۔ یہ ایسے سوال ہیں جو ہر سال اس وقت سر اٹھاتے ہیں جب میٹرک کے سالانہ نتائج کا اعلان ہوتا ہے۔ صرف لاہور بورڈ کی بات نہیں‘ کوئی بورڈ ایسا نہیں ہوتا جس میں ستر اسی فیصد سے زیادہ طلبا پاس نہ ہوئے ہوں اور پوزیشن لینے والے کے نمبر دیکھ کر تو انسان دنگ رہ جاتا ہے کیونکہ ان کے نمبر کل نمبروں سے آٹھ دس ہی کم ہوتے ہیں۔ جب یہی طلبا انٹرمیڈیٹ کا امتحان دیتے ہیں تو نتائج میٹرک سے یکسر مختلف آتے ہیں۔ دو سال قبل پنجاب کے تمام امتحانی بورڈز نے انٹرمیڈیٹ پارٹ ون کے نتائج کا اعلان کیا تو جیسے طلبا پر قیامت ٹوٹ گئی۔ تمام امتحانی بورڈز کے خلاف طلبہ سڑکوں پر آ گئے اور اعلان کئے گئے نتائج کو ماننے سے نہ صرف انکار کیا بلکہ ان کے خلاف ڈٹ بھی گئے۔ لاہور، ملتان اور دیگر شہروں میں بڑے بڑے احتجاجی مظاہرے دیکھنے کو ملے۔ طلبہ کا کہنا تھا کہ پرچوں کی چیکنگ انتہائی ناقص کی گئی ہے۔ جان بوجھ کر سٹوڈنٹس کو فیل کیا گیا ہے۔ ہر شہر میں طلبہ نے اعلان کئے گئے نتائج کو مسترد‘ اور ری چیکنگ کا مطالبہ کیا۔ لاہور سے شروع ہونے والے مظاہرے جنگل کی آگ کی طرح پورے پنجاب میں پھیل گئے اور نوجوان اس ناانصافی کے خلاف سراپا احتجاج بن گئے۔ اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ یہ سب میٹرک کی انتہائی کھلی ڈُلی مارکنگ کے عادی تھے۔ جس نے کتاب کے مطابق جوابات لکھے تھے اسے دس میں سے نو کی بجائے دس نمبر ہی دئیے گئے تھے چاہے وہ سائنس کا مضمون ہو یا آرٹس کا جبکہ انٹرمیڈیٹ میں مارکنگ کا معیار سخت رکھا گیا اور یہاں رٹے والے بھی ناکام ہو گئے کیونکہ انٹرمیڈیٹ کے پیپر میٹرک سے مختلف بنائے گئے۔ گزشتہ برس تمام نو امتحانی بورڈز میں انٹرمیڈیٹ کے نتائج 59فیصد رہے۔ جبکہ میٹرک میں یہ رزلٹ ستر فیصد سے اوپر آتا ہے۔ اس فرق کی ایک وجہ اور بھی ہے‘ یہ کہ بہت سے لوگ میٹرک کے امتحانات کو ہی سب کچھ سمجھتے یا پھر ضرورت سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ شاید یہ ہوتی ہے کہ یہ سکول کی آخری جماعت ہوتی ہے اور بچہ یہاں سے نکل کر کالج کی دنیا میں قدم رکھ رہا ہوتا ہے۔ دوسری وجہ میٹرک کے نتائج کی بہت زیادہ تشہیر ہوتی ہے۔ کامیاب بچوں کے انٹرویوز میڈیا پر آتے ہیں تو دیگر بچوں اور ان کے والدین میں بھی خواہش پیدا ہوتی ہے کہ ان کا بچہ بچی بھی ٹاپ کرے اور میڈیا پر چھا جائے؛ تاہم جو نیا منظرنامہ بن رہا ہے اس میں میٹرک کی اہمیت کم ہوتی جا رہی ہے۔ اب میڈیکل کالج میں داخلے کے لئے میٹرک کے نمبروں کو شامل نہیں کیا جاتا‘ اور صرف انٹر کے نمبر اور اینٹری ٹیسٹ کو ہی شامل کیا جاتا ہے۔ نئی پالیسی کے تحت ایف ایس سی میں 70 فیصد نمبر حاصل کرنے والا ہی اینٹری ٹیسٹ پاس کرنے کا اہل شمار کیا جائے گا، جبکہ 60 فیصد سے کم رکھنے والا طالب علم سرکاری و نجی میڈیکل کالج میں داخلے کے لئے پاس نہیں کیا جائے گا۔ اس لحاظ سے اب میٹرک نہیں بلکہ انٹرمیڈیٹ امتحان طلبا کے امتحانی کیریئر کا ٹرننگ پوائنٹ بن چکا ہے۔ ایک بچہ جس نے میٹرک میں پورے گیارہ سو نمبر ہی کیوں نہ حاصل کئے ہوں اگر انٹرمیڈیٹ کے امتحان میں کمزور رہ جاتا ہے تو وہ آگے مطلوبہ کالج میں داخلے کا اہل نہیں رہے گا۔ انٹرمیڈیٹ میں نمبر کم آنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ بچے سکول کے ماحول سے کالج کے قدرے آزاد ماحول میں داخل ہو رہے ہوتے ہیں۔ وہ ساری خواہشیں اور امنگیں جو انہوں نے سکول بالخصوص میٹرک کے دو برسوں میں پالی ہوتی ہیں‘ انہیں پورا کرنے کا موقع مل رہا ہوتا ہے۔ شہر کی ایسی جگہیں جہاں وہ صرف اپنے والدین کے ساتھ جاتے تھے اب کالج سے نکل کر خود بھی وہاں پہنچ سکتے ہیں۔ پھر سکولوں میں یونیفارم پہننے والے بچے جب کالجوں میں رنگ برنگے لباس پہننے میں آزاد ہو جاتے ہیں تو ان کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں رہتا۔ ان کا بیشتر وقت کالج کے نصاب کو سمجھنے اور امتحانات کی تیاری کے بجائے سجنے سنورنے میں گزر جاتا ہے۔ رہی سہی کسر موبائل فون نے نکال دی ہے۔ دس پندرہ برس قبل تک تو کالجوں میں ٹائم ضائع کرنے کے لئے زیادہ چیزیں نہیں ہوتی تھیں‘ لیکن اب ہر کسی نے کتاب تو کھولی ہوتی ہے لیکن کتاب کے اندر موبائل فون ہوتا ہے اور اس فون پر سوشل میڈیا پوری آب و تاب کے ساتھ چمک رہا ہوتا ہے۔ میٹرک اور انٹر میں سب سے بڑا فرق یہ ہوتا ہے کہ میٹرک کے بعد سرکاری کالجز میں داخلہ لینے کے لئے اتنی مشکل پیش نہیں آتی۔ پنجاب میں سات سو تیس کے قریب سرکاری کالجز موجود ہیں جن میں ساٹھ ستر فیصد طلبا سما جاتے ہیں‘ لیکن انٹر کے بعد ان کے سامنے صورتحال یکسر مختلف ہوتی ہے۔ اس کی ایک مثال سرکاری انجینئرنگ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں داخلے کے لئے گزشتہ دنوں ہونے والے انٹری ٹیسٹ کا انعقاد ہے جس میں پورے پنجاب سے ایک ہی دن میں 46 ہزار طلبہ شریک ہوئے جبکہ پنجاب میں سرکاری انجینئرنگ یونیورسٹیوں کے لئے کل دستیاب سیٹیں صرف 25 سو ہیں۔ اسی طرح گزشتہ سال ڈاکٹر بننے کی خواہش رکھنے والے 42 ہزار طلبا و طالبات اینٹری ٹیسٹ کے مرحلے سے گزرے لیکن سترہ میڈیکل کالجوں میں ساڑھے تین ہزار اور ڈینٹل کالجز میں صرف 216 سیٹیں دستیاب تھیں۔ جو انتالیس ہزار طلبہ سرکاری کالجز میں داخلہ نہیں لے پاتے ان میں سے کچھ نجی کالجز میں چلے جاتے ہیں اور باقی بی فارمیسی وغیرہ کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ اب البتہ یہ رجحان بدل رہا ہے۔ پنجاب آئی ٹی بورڈ کے وضع کردہ ویب پورٹل پر اس سال پنجاب کے سرکاری کالجوں میں انٹرمیڈیٹ داخلوں کے لئے جو درخواستیں موصول ہو رہی ہیں ان میں صاف دیکھا جا سکتا ہے کہ طالبعلموں میں کمپیوٹر سائنس میں داخلے کا رجحان دیگر مضامین کی نسبت بڑھ رہا ہے۔ پورٹل پر موجود معلومات کے مطابق تیس فیصد طلبا و طالبات کمپیوٹر سائنس میں داخلے کے خواہشمند ہیں جبکہ ‘ تئیس فیصد پری میڈیکل‘ سترہ فیصد ایف اے‘ سولہ فیصد پری انجینئرنگ ‘دس فیصد آئی کام دس فیصد ڈی کام اور ڈیڑھ فیصد جنرل سائنس میں مہارت دکھانے کے خواہشمند ہیں۔ اس کی ایک وجہ دنیا میں ٹیکنالوجی کا بڑھتا ہوا استعمال ہے۔ انفوٹینمنٹ کا موضوع بھی تیزی سے توجہ حاصل کر رہا ہے۔ یہ بنیادی طور پر آرٹس کا مضمون ہے لیکن ٹیکنالوجی اور انفارمیشن کے ملاپ نے اسے ایک نیا رنگ دے دیا ہے۔ ہر کوئی زیادہ سے زیادہ نالج حاصل کرنا اور دکھانا چاہتا ہے۔ کتب بینی کم ہو رہی ہے اور اس کی جگہ ویڈیوز کی شکل میں ویڈیو بلاگ لے رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آئی سی ایس کرنے والوں کی تعداد میں ہر سال تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ اس سے آئی ٹی کی سرکاری یونیورسٹیوں کا میرٹ بھی سخت ہوتا جا رہا ہے؛ چنانچہ ایسے طلبا و طالبات جو انٹر کے بعد انفارمیشن ٹیکنالوجی‘ انجینئرنگ یا میڈیکل کالجوں میں داخلوں کے خواہشمند ہیں انہیں انٹرمیڈیٹ میں میٹرک کی نسبت چار گنا زیادہ محنت کرنا ہو گی‘ انٹر میں مارکنگ سخت ہوتی ہے اور مطلوبہ کالجوں میں داخلوں کی سیٹیں بھی انتہائی کم ہوتی ہیں۔ رہی بات سیروتفریح‘ بنائوسنگھار اور جوانی کی امنگیں پوری کرنے کی‘ تو اس کے لئے صرف دو سال صبر کر لیں‘ سیروتفریح کیلئے پوری زندگی پڑی ہوتی ہے‘ پڑھنے کے یہی دن ہیں‘ یہ پھر نہیں آئیں گے‘ یہ گزر گئے تو سمجھ لیں‘ پانی سر سے گزر گیا۔