"ACH" (space) message & send to 7575

بوتل لایا ہے‘ شاپنگ بیگ کیوں بھول گیا؟

کسی شخص نے اپنے بچے کو کولڈ ڈرنک کی بوتل لینے بھیجا۔ بچہ بوتل لے آیا۔ باپ نے پوچھا: خالی ہاتھ واپس کیوں آئے ہو؟ بچہ معصومیت سے بولا: خالی ہاتھ کب آیا ہوں‘ یہ دیکھیں‘ لایا تو ہوں بوتل۔ باپ غصے میں بولا: ابے وہ تو ٹھیک ہے پر شاپر کہاں ہے؟ چل جلدی واپس جا اور شاپر لے کر آ۔
ہمارے ہاں لوگ ابھی تک شاپنگ بیگز کا مقصد بھی نہیں جان سکے۔ یہاں لوگ ایک روپے کی ٹافی کے ساتھ ایک شاپر نہ لے لیں تو انہیں رات کو نیند نہیں آتی۔ پلاسٹک بیگز سے ماحول کو اتنا سنگین مسئلہ لاحق نہ ہوتا اگر ان کا استعمال مناسب مقدار میں کیا جاتا۔ یہاں تو آپ دکان پر جائیں اور ایک ماچس بھی خریدیں تو دکان دار پہلے اسے پلاسٹک بیگ میں ڈالے گا پھر آپ سے پیسے لے گا۔ دکاندار کو بھی پلاسٹک بیگ دینے کی اتنی ہی عادت پڑی ہوئی ہے جتنی خریدار کو لینے کی۔ خریدار بھی سمجھتا ہے‘ اگر اس نے چاکلیٹ یا صابن خرید ہی لیا ہے تو اس کا قانونی‘ پیدائشی‘ جمہوری اور آئینی حق بنتا ہے کہ اسے دس روپے کی چاکلیٹ یا صابن پلاسٹک بیگ میں ڈال کر عزت و احترام سے پیش کیا جائے۔ بعض گاہک تو ایسے بادشاہ ہوتے ہیں کہ ایک سے زیادہ شاپروں میں چیزیں نہ ڈالی جائیں تو ناراض ہو جاتے ہیں۔ بیکریوں اور بڑے جنرل سٹورز پر تو یہ وتیرہ عام ہے۔ آپ نے اگر انڈے‘ دہی‘ رس‘ ڈبل روٹی اور مکھن خریدا ہے تو بیکری والے رس اور ڈبل روٹی ایک شاپر میں پیک کریں گے‘ ایک میں انڈے اور بسکٹ ڈالیں گے اور ایک میں دہی اور مکھن پیک کریں گے۔ مجھے سمجھ نہیں آتی اگر یہ سب چیزیں تین کی بجائے ایک شاپر میں آ جائیں تو کیا یہ آپس میں لڑ پڑیں گی۔ ڈبل روٹی انڈوں کا سر پھاڑ دے گی؟ دہی اور بسکٹ ایک دوسرے کے بال نوچیں گے یا پھر رس اور مکھن اور دوسرے کی ٹانگیں توڑ ڈالیں گے؟ اصل چیز احتیاط ہے اگر آپ ایک بڑے شاپر میں بھی یہ ساری چیزیں ڈال کر احتیاط سے لے جائیں گے تو نہ انڈے ٹوٹیں گے اور نہ ہی دہی ناراض ہو گی۔ انڈوں نے اگر ٹوٹنا ہے تو بے دھیانی سے لے جانے پر الگ شاپر میں بھی ٹوٹ جانا ہے۔ الگ شاپنگ بیگ میں کوئی کنکریٹ کی دیواریں تو ہوتی نہیں جو انڈوں کو بچا لیں گی۔ جہاں تک بڑے جنرل سٹورز یا شاپنگ مالز کی بات ہے وہاں پر چلیں یہ تو ہو سکتا ہے کہ آپ نے کھانے پینے کی اشیا ایک شاپر میں کر دیں اور دیگر اشیا دوسرے شاپر میں لیکن وہاں بھی آپ دیکھیں کہ اگر ایک شخص پورے مہینے کی گروسری خریدتا ہے اور مثال کے طور پر دس پندرہ ہزار روپے کی خریداری کرتا ہے تو اب تو رواج بن گیا ہے کہ اس جنرل سٹور کے کیش کائونٹر سے ایک لڑکا گروسری کا یہ جہیز آپ کی گاڑی تک چھوڑنے باہر ضرور جائے گا۔ گروسری کرنے والے ایسے لوگ سینہ پھلا کر دس پندرہ شاپر بیگ سے لدے اس لڑکے کے آگے آگے یوں چلیں گے گویا تازہ تازہ کشمیر فتح کر کے اور بھارتی فوج کو ناکوں چنے چبوا کر لوٹے ہوں۔ بعض نودولتیے تو اس موقع کو بھی ضائع نہیں جانے دیتے اور فوراً ڈھیروں شاپنگ بیگز کے ساتھ سیلفی بنوانے سے بھی باز نہیں آتے۔ گھر پہنچ کر یہ درجنوں شاپر یوں پھیلا کر رکھ دئیے جاتے ہیں جیسے غنیمت کا مال ہاتھ لگا ہو۔ چند ہی منٹ بعد جب تمام چیزیں الماریوں اور فریجوں میں اپنی اپنی جگہوں پر پہنچ جاتی ہیں تو یہ سارے شاپر یوں سنبھال کر رکھ دئیے جاتے ہیں جیسے ان درجنوں شاپروں کو حاصل کر کے بہت بڑی بچت یا سرمایہ کاری کر لی گئی ہو‘ حالانکہ ان سے شاپنگ بیگز کی پوری پوری قیمت اس خریداری میں وصول کی جا چکی ہوتی ہے جس کی ادائیگی وہ کر کے آتے ہیں۔
بالآخر ہمارے ملک میں بھی شاپنگ بیگز کے خلاف کارروائی شروع ہو گئی ہے۔ ماحولیاتی آلودگی پر قابو پانے کے لئے یہ اہم قدم ہے جس کا بہت شدت سے انتظار کیا جا رہا تھا؛ تاہم ماحول کو صرف پلاسٹک بیگ ہی نہیں بلکہ پلاسٹک سے بنی ہر قسم کی اشیا نقصان پہنچا رہی ہیں۔ ان میں بوتل پینے والے سٹرا‘ کھانے کی پیکنگ کے ڈبے اور ہزاروں دیگر اقسام شامل ہیں۔ ماحول کو ٹریفک اور کارخانوں کے دھوئیں سے بھی بہت نقصان ہو رہا ہے۔ آپ صرف فیروزپور روڈ پر قینچی سٹیشن کے سامنے پڑے دو چھوٹے چھوٹے گڑھے ہی دیکھ لیں تو آپ کو بات سمجھ آ جائے گی۔ ان گڑھوں اور یہاں ابلتے گٹروں کی وجہ سے آئے روز کلمہ چوک سے قینچی تک پانچ کلومیٹر لمبی گاڑیوں کی قطار آئے روز لگ جاتی ہے جس سے لاکھوں لیٹر پٹرول ضائع ہو کر ماحول اور لوگوں کی جیبوں کو تباہ کر دیتا ہے۔ پلاسٹک بیگز پر پابندی ضرور لگائیں لیکن براہ کرم یہ دو گڑھے بھی بھروا دیں تاکہ ماحول اور لوگوں کے وقت کا ضیاع نہ ہو۔ یہ مسئلہ سابق حکومت میں بھی موجود تھا اور آج بھی ہے۔ میڈیا ٹریفک پر ذمہ داری ڈالتا ہے‘ ٹریفک والے ضلعی انتظامیہ پر ڈالتے ہیں اور انتظامیہ نہ جانے کیا سوچ رہی ہے۔ دوسری بات یہ کہ پلاسٹک کے تھیلوں اور دیگر پلاسٹک کی اشیا کا مسئلہ صرف پاکستان کو ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کو درپیش ہے۔ کینیڈا نے دو ہزار اکیس تک ملک کو پلاسٹک سے پاک کرنے کا تہیہ کر رکھا ہے۔ امریکہ جیسا ترقی یافتہ ملک بھی اس مصیبت سے پوری طرح چھٹکارہ نہیں پا سکا۔ امریکہ کی باون ریاستوں میں سے نیویارک سمیت صرف چند ریاستوں میں پلاسٹک کے تھیلوں کا استعمال ممنوع ہے۔ ایشیا میں چین ایسا ملک ہے جس نے پلاسٹک بیگز سے نجات میں ستر فیصد کامیابی حاصل کر لی ہے۔ ایشیا کے دیگر ممالک جہاں یہ ممنوع ہو چکا ہے یا وہاں کوشش جاری ہے ان میں بنگلہ دیش‘ ہانگ کانگ‘ بھارت‘ انڈونیشیا‘ ملائیشیا اور تائیوان شامل ہیں۔ یورپ کو دیکھیں تو وہاں انیس سو چورانوے سے اس بارے میں ایک تحریک چل رہی ہے۔ برطانیہ‘ اٹلی‘ سکاٹ لینڈ اور جرمنی میں ملک گیر سطح پر پلاسٹک کے تھیلوں کا استعمال ممنوع ہے یا پھر پلاسٹک کے تھیلوں پر بھاری ٹیکسز عائد کئے گئے ہیں۔ جنوبی امریکہ میں ارجنٹائن‘ برازیل‘ چلّی اور کمبوڈیا میں جزوی طور پر پابندی ہے۔ آسٹریلیا کے بھی کچھ حصوں میں اس کا استعمال ممنوع ہے۔
اب مسئلہ صرف پلاسٹک بیگز تک محدود نہیں رہا۔ میز کرسیوں سے لے کر کولڈ ڈرنک کی بوتلوں اور گاڑیوں کے ڈیش بورڈز سے لے کر انجکشنز اور ان کی پیکنگ تک سب کچھ پلاسٹک سے بن رہا ہے۔ اس ناچیز کی رائے میں یکدم پابندی کی بجائے کم از کم چھ ماہ آگاہی مہم چلائی جانی چاہیے اور ساتھ ہی متبادل کپڑے وغیرہ کے تھیلے مارکیٹوں میں عام کئے جانے چاہئیں۔ ان چھ ماہ کے دوران شہریوں کو اس بات کا پابند بنایا جائے کہ وہ دکانوں سے معمولی اشیا لیتے وقت بلاوجہ شاپنگ بیگ طلب نہ کیا کریں اور اگر کوئی دکاندار خود زبردستی چیز شاپر میں ڈال کر دے رہا ہے تو آپ اسے روک دیں اور اپنی چیز پکڑ کر نکل آئیں۔ یہ ایک دو چیزوں کے معاملے میں تو ہو سکتا ہے لیکن چیزیں اگر ایک سے زیادہ اور نازک ہیں اور انہیں موٹرسائیکل وغیرہ پر لے جانے کا مسئلہ ہے تو پھر اس کا ایک واحد اور آسان ترین حل یہ ہے کہ شہریوں کو انتہائی سستے داموں لیکن کپڑے سے بنے معیاری خوبصورت شاپنگ بیگز مہیا کئے جائیں اور انہیں باور کرایا جائے کہ وہ اگر گاڑی میں سفر کرتے ہیں‘ موٹر سائیکل یا پھر پیدل تو ہر وقت شاپنگ بیگ تہہ کرکے اپنے ساتھ رکھیں۔ کپڑے یا فائبر کے ایک درمیانے شاپنگ بیگ کا وزن تیس گرام تک ہوتا ہے اور اسے تہہ کرکے جیب میں رکھا جائے تو یہ ایک رومال سے زیادہ جگہ نہیں لیتا۔ ہم اگر سارا دن ڈیڑھ دو سو گرام وزنی موبائل فون جیبوں میں اٹھا کر پھر سکتے ہیں‘ تین کلو کا لیپ ٹاپ ہر جگہ لے جاتے ہیں اور ہمارے بچے بیس بیس کلو کا سکول بیگ اٹھا سکتے ہیں تو پھر ہم تیس گرام کا شاپنگ بیگ ساتھ کیوں نہیں رکھ سکتے۔ جہاں بھی خریداری کریں‘ چیزیں اس میں ڈالیں اور ساتھ لے آئیں۔ اس سے پلاسٹک کا استعمال اور طلب بھی کم ہو جائے گی اور ہمارا کام بھی چلتا رہے گا۔ یقین کیجئے ہم نے اپنے ساتھ ایک عدد غیرروایتی شاپنگ بیگ رکھنے کی عادت اپنا لی اور ہر چیز کے ساتھ دکاندار سے پلاسٹک بیگ مانگنے سے باز آ گئے تو پلاسٹک کے شاپنگ بیگز کا یہ جن خودبخود بوتل میں واپس چلا جائے گا۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں