عجیب بات ہے‘ ایک طرف پوری دنیا میں عوام کو اچھی زندگی کیلئے اپنا لائف سٹائل بہتر بنانے کی تاکید کی جاتی ہے‘ دوسری طرف عالمی سطح پر ٹیکنالوجی کو ہر شعبے میں اپنا کر سارے کا سارا لائف سٹائل خود ہی تباہ کیا جا رہا ہے۔ ہر چیز میں کمپیوٹر‘ موبائل فون‘ انٹرنیٹ اور مصنوعی ذہانت پر مبنی ٹیکنالوجی کے استعمال نے انسانی عمل دخل کو محدود کرنا شروع کر دیا ہے۔ بلکہ یہ کہنا زیادہ درست ہو گا کہ ٹیکنالوجی انسان کو سہل پسند‘ سست اور کاہل بنا رہی ہے۔ اس کی ایک مثال ایسی جدید گاڑیوں کی ایجاد ہے جن میں بیٹھنے کے لئے انسان کو ہاتھ سے دروازہ کھولنے کے لئے ذرا سا زور بھی نہیں لگانا پڑے گا بلکہ صرف ہینڈل کو چھونے سے دروازے خود بخود کھل جائے گا‘ بالکل اسی طرح جیسے کسی شاپنگ سٹور میں داخلے کے وقت دروازے از خود کھل جاتے ہیں۔ گاڑیوں میں سہولیات کی ابتدا گاڑی کے شیشوں کو ہاتھ والے ہینڈل سے اوپر نیچے کرنے کی بجائے بٹنوں پر منتقلی سے ہوئی۔ ہاتھ سے شیشے اوپر نیچے کرنے سے بازو اور کندھوں کی جو تھوڑی بہت ورزش ہو جاتی تھی انسان اس سے بھی رہ گیا۔ آہستہ آہستہ پاور سٹیئرنگ آ گیا‘ جس میں ہینڈل موڑنے کے لئے بھی زور لگانا کم ہو گیا۔ اب گاڑیوں میں ایسے سسٹم آ چکے ہیں کہ آپ آواز یا ہاتھ کے اشارے سے مختلف امور سرانجام دے سکتے ہیں مثلاً والیم کم زیادہ کرنا‘ گاڑی سٹارٹ یا بند کرنا‘ انڈیکیٹر دینا وغیرہ۔ دیکھا جائے تو یہ ساری چیزیں بنیادی طور پر ایک جسمانی مفلوج شخص کے لئے بنائی جانی چاہئیں جو ہاتھ پائوں ہلانے کی سکت نہ رکھتا ہو اور صرف آواز اور اشاروں سے ہی کام چلانے پر مجبور ہو۔ مگر کیا کریں کہ یہاں ٹیکنالوجی اچھے اچھوں کو مفلوج بنانے پر تُلی ہوئی ہے۔ پہلے گھروں میں ایک لینڈ لائن فون ہوتا تھا۔ فون کی بیل بجتی تھی تو چار پانچ قدم اٹھ کر فون سنا کرتے تھے۔ بعض اوقات فون تک پہنچنے سے پہلے ہی گھنٹی بند ہو جاتی تھی۔ جیسے ہی واپس آ کر بیٹھتے فون پھر بجنے لگتا‘ جس پر دوبارہ فون کی طرف جانا پڑتا تھا۔ اس سے بھی سارا دن زیادہ نہ سہی تھوڑی بہت ورزش اور چلنا پھرنا ہو جاتا تھا۔ مگر اب موبائل فون کے آنے کے بعد ہم ان چار پانچ قدموں سے بھی محروم ہو گئے ہیں۔ سارا سارا دن کرسی پر بیٹھے فون کرنا اور شام کو گھر جا کر صوفوں اور بستروں میں دھنس کر موبائل پر انگلیاں مارنا لوگوں کا عام وتیرہ بن چکا ہے۔ میں ٹیکنالوجی کا بہت معتقد ہوں لیکن ٹیکنالوجی کو بے مقصد انداز میں اپنانا کہاں کی دانشمندی ہے؟ بعض ایسی جگہوں پر تو ٹھیک ہے کہ جہاں عوام کو سہولت ملے اور انہیں بار بار چکر لگانے سے نجات مل سکے مثلاً آپ ایکسائز کے محکمے کو لے لیں جہاں ہزاروں کی تعداد میں سائلین روزانہ چکر لگاتے ہیں۔ کام صرف اتنا ہوتا ہے کہ یا تو گاڑی کی رجسٹریشن کروانی ہے‘ ٹوکن ٹیکس ادا کرنا ہے یا پھر گاڑی ٹرانسفر کا مسئلہ ہے۔ لوگوں کی بڑی تعداد جب ایک دم شہر میں موجود چند ایکسائز دفاتر کا رخ کر لیتی ہے تو یکایک رش بڑھ جاتا ہے جس کی وجہ سے لوگ ایجنٹوں کے ہاتھ چڑھ جاتے ہیں‘ جو ایک معمولی سے کام کے ان سے اچھے خاصے پیسے بٹور لیتے ہیں۔ اس لحاظ سے ایک اچھا اقدام یہ ہوا ہے کہ گاڑیوں کے ٹوکن ٹیکس کی ادائیگی اور رجسٹریشن وغیرہ کے لئے اب ان دفاتر میں جانے کی ضرورت نہیں رہی‘ اور پنجاب آئی ٹی بورڈ نے محکمہ ایکسائز کے لئے ایسا آن لائن پورٹل اور موبائل ایپ بنا دی ہے جس سے آپ گھر بیٹھے اپنی گاڑی کا نہ صرف ٹوکن ٹیکس ادا کر سکتے ہیں بلکہ دیگر کئی سہولیات اور خدمات سے بھی مستفید ہو سکتے ہیں۔ پنجاب میں ایسے جدید عوامی خدمت کے مراکز بھی کام کر رہے ہیں جہاں ایک ہی چھت تلے بیس پچیس سہولیات میسر ہیں‘ جن میں ڈومیسائل کے حصول سے لے کر ڈرائیونگ لائسنس تک شامل ہیں۔
اسی طرح ایسی ٹیکنالوجی بھی بہت زیادہ مفید ہوتی ہے جو سنگین عوامی ایشوز کا حل نکال سکتی ہو۔ ایسی ہی ایک خبر کے مطابق چینی پولیس گمشدہ معمر افراد کی تلاش کے لئے اب مصنوعی ذہانت کا نظام استعمال کرے گی۔ چین میں ہر سال پانچ لاکھ معمر افراد کسی نہ کسی وجہ سے شہروں میں کھو جاتے ہیں‘ جن کی تلاش کے لئے پولیس کو بہت زیادہ تگ و دو کرنا پڑتی ہے تاہم اب چینی پولیس مصنوعی ذہانت کے نظام اور افراد کے دستیاب ڈیٹا کو استعمال کر کے معمر افراد کو چند منٹ میں تلاش کر لیا کرے گی۔ اس نظام پر اس لئے کام کیا گیا کہ روزانہ اوسطاً 1370 بوڑھے افراد کا کہیں کھو جانا اور گھر واپس نہ آنا چینی حکومت اور پولیس کے لئے ایک درد سر بن چکا تھا۔ بہت سے معمر افراد ذہنی توازن میں گڑبڑ کے باعث آئے روز گھر سے نکل جاتے ہیں اور واپس نہیں پہنچ پاتے۔ اہل خانہ پولیس کے پاس جاتے ہیں لیکن مربوط نظام نہ ہونے کے باعث انہیں تلاش کرنا آسان نہیں ہوتا۔ مصنوعی ذہانت کے استعمال سے گمشدہ معمر افراد کی شناخت انتہائی آسان ہو جائے گی اور انہیں کسی بھی پبلک مقام پر کیمروں کے ذریعے ڈھونڈا جا سکے گا۔ چین میں ایک سٹارٹ اپ سینس ٹائم اس مسئلے پر تیزی سے کام کر رہا ہے اور اس سال جنوری میں وہ اس معاملے پر تحقیق کے لئے دو ارب ڈالر کی مزید فنڈنگ حاصل کرنے میں بھی کامیاب ہوا ہے۔ سینس ٹائم شہر میں ٹریفک کے لئے لگے کیمروں‘ اے ٹی ایم اور دیگر جگہوں پر موجود کیمروں کے ذریعے ایسے چہروں کو ٹیگ کرنے کے لئے ایک سافٹ ویئر تیار کر چکی ہے اور اس کا کامیابی سے تجربہ بھی کیا جا چکا ہے۔ اسے آئندہ چند ہفتوں میں باقاعدہ لانچ کر دیا جائے گا۔
یہ تو وہ سہولیات ہیں جو عوام کو پہلے سے بھی جدید انداز میں ملنی چاہئیں۔ اس سے ریاست پر کام‘ مالی اور انفراسٹرکچر سے متعلق بوجھ کم ہوتا ہے اور اس کی کارکردگی نہ صرف بہتر ہوتی ہے بلکہ مانیٹر بھی کی جا سکتی ہے۔ ماضی میں جب چھوٹے چھوٹے کاموں مثلاً بجلی کے بلوں وغیرہ کو جمع کرانے کے لئے بینکوں میں جانا پڑتا تھا اور جب یہ سب آن لائن نہیں ہوا تھا تو اس میں بہت زیادہ وقت ضائع ہوتا تھا کیونکہ مختلف سرکاری دفاتر میں کاموں کے لئے وقت نکال کر جانا ہر شخص کے لئے ممکن نہیں ہوتا تھا۔ کسی کی جاب ٹائمنگ اسے اجازت نہیں دیتی تو کسی کا ایسے دفاتر سے فاصلہ بہت زیادہ ہوتا ہے؛ تاہم ٹیکنالوجی جیسی بھی ہو اسے خود پر حاوی نہ ہونے دینا ہی سب سے بڑا چیلنج ہے۔ یہ چیلنج نئی نسل کے لئے اور بھی زیادہ اہم ہے کیونکہ نئی نسل کے لئے روزگار کا تعلق بھی زیادہ تر ٹیکنالوجی کے شعبے سے ہی ہے۔ تو جن بچوں اور نوجوانوں نے سارا دن ٹیکنالوجی کے دائرے میں ہی گزارنا ہو وہ کیسے اس کے مضر اثرات سے محفوظ رہ پائیں گے؟ کچھ ایسی تحریکیں بھی ہونی چاہئیں جن میں نئی نسل کو ٹیکنالوجی کے مضر اثرات اور ان کی بہتر صحت کے بارے میں آگاہ کیا جائے۔ ان تحریکوں میں والدین اور اساتذہ کو شامل کیا جانا چاہیے کیونکہ بچے والدین اور اساتذہ کے پاس ہی دن کا بڑا حصہ گزارتے ہیں۔ بچوں کو یہ باور کروایا جانا چاہیے کہ یہ ٹیکنالوجی ہمارے لئے بنی ہے نہ کہ ہم اس کے لئے۔ یہ ٹھیک ہے کہ ٹیکنالوجی کے اس سیلاب اور نت نئی ایجادات کو روکنا شاید ممکن نہ ہو لیکن ایک بہتر لائف سٹائل بہرحال ہمیشہ ہر انسان کی ضرورت رہے گا۔ انسان فطرت سے جتنا دُور ہو گا اس کا جسم اتنا ہی تنائو کا شکار رہے گا۔ عقل مند وہ ہے جو ٹیکنالوجی کو استعمال کر کے جو وقت بچائے وہ وقت صحت مندانہ سرگرمیوں اور جسمانی ورزش وغیرہ کے لئے صرف کرے۔ آئندہ بیس برسوں میں ٹیکنالوجی دنیا کی ہیئت مکمل طور پر تبدیل کرنے والی ہے۔ موبائل فونز میں پروجیکٹر آ رہے ہیں جن کی مدد سے آپ کہیں بھی بیٹھے سامنے دیوار پر سینما سکرین کا مزا لے سکیں گے۔ قلم اور پنسل کا استعمال تو پہلے ہی بہت کم ہو چکا لیکن آگے چل کر صرف سوچ کی مدد سے بھی انسان لکھنے کے قابل ہو جائے گا اور اسے کی بورڈ یا موبائل کی سکرین پر انگلیاں مارنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کرنا پڑے گی۔ ذرا سوچئے یہ سب آنے کے بعد بچے کھچے لائف سٹائل کی بربادی میں کون سی کسر باقی رہ جائے گی۔