ایک تو یہ بڑا مسئلہ ہے کہ اپنے لوگوں کے سامنے جدید ممالک کی مثال دی جائے تو کہا جاتا ہے کہ جدید ممالک سے پاکستان کا موازنہ نہیں بنتا۔ اگر یہ کہیں کہ امریکہ‘ کینیڈا‘ برطانیہ وغیرہ میں لوگ بہت زیادہ ٹیکس دیتے ہیں تو بتایا جاتا ہے کہ وہاں کی حکومتیں سہولتیں بھی تو اسی حساب سے دیتی ہیں‘ ہم ٹیکس دیتے ہیں لیکن ہمیں تو سہولتیں نہیں ملتیں۔ یوں معاملہ وہیں آ کر پھنس جاتا ہے کہ پہلے انڈا آیا تھا یا مرغی۔ عوام چاہتے ہیں کہ حکومت پہلے امریکہ‘ کینیڈا‘ فرانس جیسی ریاست تعمیر کرے‘ علاج‘ تعلیم‘ رہائش وغیرہ کی سہولیات مفت فراہم کی جائیں‘ ہر چھوٹے بڑے شہر گائوں میں جدید انفراسٹرکچر قائم ہو جائے‘ سیوریج‘ پانی‘ بجلی‘ غربت‘ روزگار‘ سفر کے تمام مسائل حل کئے جائیں‘ اس کے بعد ان سے ٹیکس مانگا جائے۔ دوسری جانب حکومت چاہتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ عوام ٹیکس دیں تاکہ جو ٹیکس اکٹھا ہو اس سے واپس عوام کو وہ ساری سہولیات دی جا سکیں جو ان کا جائز حق ہے۔
اب مسئلہ یہ ہے کہ پہل کون کرے گا۔ دونوں ہی اپنی اپنی جگہ ٹھیک دکھائی دیتے ہیں۔ حکومت بھی سچی ہے‘ وہ کہتی ہے: خزانہ خالی ہے‘ پچھلی حکومت لوٹ مار کر کے ملک کو کنگال کر گئی‘ بیرونی قرضے بھی دینے ہیں اور ملک بھی چلانا ہے۔ وہ ٹیکس اکٹھا کرنے کی کوشش کرتی ہے تو لوگ اپنا پیسہ دبا کر بیٹھ جاتے ہیں۔ جس کسی نے اپنے ملازم یا رشتے دار کے نام پر پراپرٹی اور مال بنایا ہوتا ہے وہ خاموش ہو جاتا ہے۔ ایف بی آر کہہ کہہ کر تھک جاتا ہے کہ اپنے اثاثے ڈکلیئر کرو لیکن لوگ اس ڈر سے کہ اس طرح تو ان پر ٹیکس دینا پڑے گا اور ان پیسوں کا حساب مانگ لیا جائے گا کہ کہاں سے آئے تو پھر ان کا لائف سٹائل کیسے چلے گا۔ یہ تو چلیں اشرافیہ کی بات تھی جو عام لوگ ہیں وہ بھی ٹیکس دینا تو دور کی بات چھوٹی چھوٹی پابندیاں بھی قبول کرنے کو تیار نہیں ہوتے۔ میں نے آپ کو ہیلمٹ پر پابندی کی مثال دی تھی۔ آج بھی اگر کوئی ٹریفک وارڈن بغیر ہیلمٹ کسی شخص کو روکتا ہے تو وہ آگے سے لاکھ بہانے شروع کر دیتا ہے۔ میں جلدی میں نکلا تھا بھول گیا‘ میں وکیل ہوں پیچھے ہٹ جائو‘ میں صحافی ہوں مجھے روکا کیسے؟ جب اس طرح کے رویے ہوں گے تو پھر حکومت کیا کرے گی؟ اس کا یہ مطلب نہیں کہ حکومت درست ہے اور سارا قصور عوام کا ہے اور نہ یہ کہ حکومت غلط اور عوام حق پر ہیں۔ جس طرح تالی دو ہاتھ سے بجتی ہے ملک بھی عوام اور حکمران دونوں کے تعاون سے آگے بڑھتے ہیں۔ اس بحث میں پڑے بغیر کہ حکومت کی سمت یا اقدامات کتنے درست یا غلط ہیں ہم اپنا جائزہ لیتے ہیں کہ ہمارا رویہ کیا ہے اور جنہیں سب کچھ باہر مل رہا ہے وہ کیسے رہتے ہیں۔ ہم ملک کو امریکہ‘ برطانیہ جیسے ملکوں کے شہریوں جیسے حقوق حاصل کرنا چاہتے ہیں لیکن ہم وہاں کے شہریوں کی عادات اور اطوار اپنانے کو تیار نہیں۔ میں پھر کہہ رہا ہوں ہم میں سے ساٹھ ستر فیصد آبادی اس زندگی سے بہت جلد اکتا جائے گی‘ جس طرح کی جدید ممالک میں لوگ گزار رہے ہیں۔ انہیں اگر سہولیات حاصل ہیں تو اس کے لئے وہ بہت کچھ ادا بھی کر رہے ہیں۔ اس میں صرف ٹیکس ہی شامل نہیں بلکہ اور بھی بہت سی چیزیں ہیں جن میں اخلاقیات‘ وطن سے پیار‘ غیر مذاہب‘ غیر ممالک اور اقلیتوں کا احترم اور انہیں حقوق دینا حتیٰ کہ جانوروں سے پیار اور ان کا خیال رکھنا۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہمیں تصویر کا صرف ایک رخ دکھائی دیتا ہے ہم دوسرا رخ دیکھتے ہیں نہ ہی دیکھنا چاہتے ہیں۔ وہاں اگر عوام کو مفت تعلیم‘ علاج وغیرہ میسر ہے تو اس کے لئے وہ بہت سی قربانیاں بھی دے رہے ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ وہاں اس طرح نہیں ہوتا کہ ایک بندہ کمانے والا اور آٹھ آٹھ کھانے والے۔ وہاں آپ گھریلو خاتون ہیں‘ طالب علم ہیں‘ معذور ہیں حتیٰ کہ ریٹائرڈ ہیں تب بھی آپ کو ہر حال میں کام کرنا پڑے گا۔ وہاں ایک مہینہ تو دور کی بات ایک دن بھی بغیر کام کئے گزارا نہیں ہوتا۔ مثال کے طور پر کینیڈا میں طالب علموں کو ہفتے میں بیس گھنٹے کام کرنے کی اجازت ہے۔ اب وہاں یہ نہیں ہو سکتا کہ کسی امیر باپ کا بچہ کہے نہیں میں تو کام نہیں کروں گا بلکہ ان بیس گھنٹوں میں سیروتفریح کروں گا۔ وہ ایسا نہیں کرے گا تو اپنے اخراجات نہیں چلا پائے گا۔ پھر وہاں ہر کام کے لئے قطار اور انتظار کرنا پڑتا ہے حتیٰ کہ بال کٹوانے اور ایمرجنسی میں ڈاکٹر کو دکھانے تک کے لئے بھی پیشگی ٹائم لینا پڑتا ہے۔ یہاں آپ رات کے بارہ بجے بھی جا کر کٹنگ کرا لیتے ہیں۔ ذرا سوچیں پاکستان میں یہ پابندی لگ جائے تو آپ کا کیا حال ہو گا۔ یہاں آپ سوئمنگ کے لئے کسی سرکاری یا نجی پول میں جاتے ہیں تو وہاں کاغذوں میں تو لکھا ہے کہ آپ جسم کی الرجی سے متعلق ڈاکٹر سے کلیئرنس سرٹیفکیٹ لائیں لیکن عملی طور پر کہیں بھی یہ سرٹیفکیٹ نہیں مانگتا۔ مانگتا بھی ہے تو لوگ کسی بھی ڈاکٹر سے لکھوا کر دے دیتے ہیں۔ یہاں آپ گاڑی یا بائیک کا ایک مرتبہ لائسنس بنوا لیتے ہیں تو ساری زندگی اس کی تجدید صرف پیسوں کی ادائیگی اور تصویر کھنچوانے سے ہو جاتی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں ایسا نہیں ہوتا۔ وہاں آپ کو ہر چھ ماہ یا ایک سال بعد اپنی نظر اور فٹنس کا ٹیسٹ کروانا ہوتا ہے۔ اگر آپ کی نظر ایک حد سے کمزور ہو گئی ہے تو پھر آپ گاڑی نہیں چلا سکتے۔ آپ کے لائسنس پر یہ بھی لکھا ہوتا ہے کہ اگر آپ کو ایک نمبر کی عینک لگی ہے اور دوران ڈرائیونگ آپ نے وہ عینک نہیں لگائی ہوئی تو آپ کا لائسنس کینسل اور بھاری جرمانہ عائد ہو جائے گا۔ آپ سڑک پر راہ چلتے کچرا‘ تھوک یا کچھ پھینکتے ہیں تو اس کا جرمانہ بھی اچھا خاصا ہے۔ وہاں یہ کوئی نہیں دیکھتا کہ کیمرے لگے ہیں یا نہیں لوگ بس قانون کے احترام کے عادی ہو چکے ہیں۔ آپ ذرا سوچیں کہ ابھی تو شاپنگ بیگز کی پابندی لگی ہے تو یہاں بھونچال آ گیا ہے‘ اگر سڑک پر کچرا پھینکنے وغیرہ کے جرمانے شروع ہو گئے تو کیا ہو گا؟ لوگ کہیں گے کہ یہ تو بڑی ظالم حکومت ہے‘ عوام سے بہانے بہانے سے پیسے ہتھیانا چاہتی ہے جبکہ یہی کام امریکی کینیڈین یا برطانوی حکومت کرے تو وہاں کی ہم یہاں آ کر مثالیں دیتے ہیں۔ اسی طرح جدید ممالک حتیٰ کہ دبئی جیسی ریاستوں میں بھی آپ گاڑی گھر میں نہیں دھو سکتے۔ بالخصوص گھر کے باہر تو بالکل نہیں۔ صرف منظور شدہ سروس سٹیشنز سے دھلوانے کی اجازت ہوتی ہے اور اگر گاڑی گندی ہو تو بھی جرمانہ ادا کرنا ہوتا ہے۔ پانی پورے کرہ ارض سے کم یاب ہو رہا ہے۔ ہم بھی اسی زمین پر رہتے ہیں لیکن ہمارے ہاں ابھی تک لوگ گاڑیاں دھونے‘ نہانے اور وضو کرنے میں روزانہ سینکڑوں لیٹر پانی ضائع کرتے ہیں۔ لاہور میں گھر کے باہر گاڑی دھونے پر جرمانہ ہے لیکن اگر اس پر عمل درآمد کرنے کی کوشش کی گئی تو کہا جائے گا حکومت بڑی ظالم ہے یہ عوام کو نچوڑ رہی ہے۔ میرا مقصد حکومت کا مقدمہ لڑنا نہیں بلکہ عوام کو یہ باور کرانا ہے کہ آپ کے سر پر اگر پی ٹی آئی کی جگہ انگریز یا کوئی چینی سربراہ آ جائے تو وہ بھی پہلے آپ کو ایک ہجوم سے قوم بنائے گا‘ بلکہ یہ حکومت تو شاید اس کا عشر عشیر بھی نہیں کر رہی کہ جو کچھ چین کے سربراہوں یا دیگر ترقی یافتہ ممالک کی حکومتوں نے کیا۔ اس کے بعد ہم میں سے بہت سے لوگ جو جدید اور ترقی یافتہ ملک بننے کے خواب دیکھتے ہیں وہ اس سے باز آ جائیں گے کیونکہ دنیا میں فری لنچ کا تصور کہیں بھی نہیں۔ یہ لنگر ونگر صرف یہاں ہی چلتے ہیں۔ آپ جتنے زیادہ لنگر خانے کھولیں گے آپ دیکھیں گے ان میں آنے اور کھانے والوں کی تعداد میں اضافہ ہی ہوتا جائے گا بلکہ ایک لنگر میں کھانا کھانے والے دوسرے لنگر سے بھی کھانا سمیٹنے کی کوشش کریں گے۔ بھوکے کو مچھلی دینے سے کہیں بہتر ہے کہ اسے مچھلی پکڑنا سکھا دیا جائے۔ بالکل اسی طرح جس طرح ہمارے نبی اکرمؐ نے ایک سائل کو کہا تھا کہ وہ اپنے گھر کا کچھ سامان فروخت کرے‘ ایک کلہاڑا خریدے اور جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر بیچے۔ اس شخص نے ایسا ہی کیا اور یوں اس کا ٹھیک گزارا ہونے لگا۔ سوال پھر وہی ہے کیا ہم کلہاڑا پکڑنے کو تیار ہیں یا پھر صرف خواب ہی دیکھتے رہنا چاہتے ہیں؟