کچھ ٹیکنالوجی کے سیلاب اور کچھ فاسٹ فوڈ قسم کے لائف سٹائل سے معاشرے میں دوستی کا تصور ناپیدا ہوتا جا رہا ہے۔ اب دل بہلانے کے لیے لوگ سوشل میڈیا پر دوست بناتے ہیں حتیٰ کہ ایک ایسے شخص کے بھی سوشل میڈیا پر سینکڑوں دوست لسٹ میں موجود ہوتے ہیں جو ان سے زندگی میں کبھی ملا بھی نہ ہو گا اور نہ ہی مل پائے گا۔ جو اس کے دکھ سکھ میں اس کے گھر آ کر کبھی شریک ہوئے‘ نہ اسے علم کہ وہ کس حال میں ہیں۔ بدقسمتی سے اب سارے حالات فیس بک کی وال تک محدود ہو چکے ہیں۔ بیماری‘ خوشی‘ غمی‘ نقصان‘ فائدہ‘ کامیابی‘ ناکامی سب کچھ۔ ایسی پوسٹس پر اسی حساب سے لائیکس یا کمنٹس مل جاتے ہیں اور یوں دل کی تسلی کے لیے ایک سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ اسے ہم ٹیکنالوجی کی زبان میں ورچوئل دوستی بھی کہہ سکتے ہیں کہ جس میں آپ اپنے دوست سے کبھی مل نہیں پاتے لیکن پھر بھی اس کے بیسٹ فرینڈ بنے رہتے ہیں۔ یہ دوستی اس دوستی سے کتنی مختلف ہے جو ٹیکنالوجی کے آنے سے قبل معاشرے میں عام تھی‘ یہ ہم سب جانتے ہیں۔ کسی دل جلے نے ایک تصویر شیئر کی جس میں تین دوست اکٹھے بیٹھے ہیں لیکن تینوں کے ہاتھ میں موبائل فون ہے اور تینوں اس میں مگن ہیں۔ نیچے لکھا تھا: آج یہ بات بھی غلط ثابت ہو گئی کہ ٹیکنالوجی نے ہمیں ایک دوسرے کے قریب کر دیا ہے۔
انٹرنیٹ کی دوستیاں اور غمیاں زیادہ تر انٹرنیٹ تک ہی محدود رہتی ہیں۔ وہ محبت‘ وہ مل بیٹھنا اور دل کے راز ایک دوسرے کے سامنے بیٹھ کر شیئر کرنے کا اپنا ہی مزا تھا۔ اب لوگ مگر انٹرنیٹ پر ہی سارا کام نمٹانا چاہتے ہیں۔ حتیٰ کہ کسی دوست کا کوئی عزیز فوت ہو جائے اور دوست کا گھر دس منٹ کے فاصلے پر ہی کیوں نہ ہو‘ تب بھی انٹرنیٹ کے ذریعے افسوس کرنے کو کافی سمجھا جاتا ہے۔ کیا اس سے واقعی انسان کی تسلی و تشفی ہو جاتی ہے؟ کیا اس سے انسان خود کو نامکمل تصور نہیں کرتا؟ جس طرح سب کچھ سب کاروبار انٹرنیٹ پر منتقل ہو گئے ہیں‘ شاید دوستی‘ غمی بھی اب صرف انٹرنیٹ پر ہی باقی رہ گئی ہے۔ چلیں دور دراز یا بیرون ملک دوست عزیز ایسا کریں تو اور بات‘ لیکن ایک ہی شہر میں رہنے والے بھی یہی ریت اپنا لیں تو کچھ عجیب سا لگتا ہے۔ پرانے لوگوں اور اپنی بات کو تو چھوڑیں‘ نئی نسل کے بارے میں سوچیں کہ کیا وہ دوستی کا وہ ذائقہ چکھ پائے گی جو اس کے بڑوں نے چکھا تھا۔ نہ اب پہلے جیسے حالات ہیں‘ سکیورٹی کے نہ معیشت کے۔ بچے گھروں سے باہر نکل سکتے ہیں نہ آزادانہ گھوم پھر سکتے ہیں۔ ماں باپ کہاں کہاں ساتھ جائیں گے؟ نئی نسل کی دوستیاں بھی نرالی ہیں۔ آج کل کے بچے نیٹ ورک ویڈیو گیمنگ کے ذریعے دوستیاں بنانے میں لگے ہیں۔ آئرلینڈ‘ فن لینڈ‘ امریکہ اور پاکستان میں بیٹھے چار مختلف بچے ایک دوسرے کو دوست مان کر روزانہ کئی کئی گھنٹے ویڈیو گیمیں کھیلتے گزارتے ہیں۔ یہ ہے ہماری نئی نسل کا دوستی کا تصور۔ اس طرح کے بچے روزانہ کئی دوست بناتے ہیں‘ اگلے ہی دن نئے دوست بنا لیتے ہیں اور پرانوں کو بھول جاتے ہیں۔ یہ سلسلہ یونہی چلتا رہتا ہے۔ دوستی کا جو تصور ہم نے بچپن میں دیکھا تھا‘ وہ ان میں کہیں دور دور تک دکھائی نہیں دیتا۔ مشینوں سے الجھے رہنا اور انہیں ہی اپنا دوست سمجھنا آج کی نسل کی سب سے بڑی غلطی ہے۔ آپ دس گھنٹے مسلسل ٹی وی دیکھتے رہیں لیکن دس منٹ کسی اچھے دوست کی صحبت میں بیٹھ جائیں‘ آپ کو فرق معلوم ہو جائے گا۔ آج کی نسل کو دوستی کے تصور سے آگاہ رکھنا بھی ایک چیلنج بن چکا ہے کیونکہ جب تک بچے اچھے دوست اور برے دوست کی پہچان نہیں کر پائیں گے‘ وہ کیسے زندگی میں آگے بڑھ سکیں گے؟ کوئی ان کی نظر میں دوست ہو سکتا ہے لیکن وہ ممکن ہے پیٹھ میں چھرا گھونپنے کا ماہر ہو‘ تو یہ ساری چیزیں انہیں کس طرح معلوم ہوں گی۔ وہ شعور ان میں کیسے پیدا ہو گا اور وہ میچورٹی ان میں کیسے آئے گی جس کے ذریعے وہ اچھے اور برے کی پہچان کر پائیں۔
اس کے لیے سب سے زیادہ ضروری یہ ہے کہ نئی نسل کو آپ خود زیادہ سے زیادہ وقت دیں‘ کیونکہ جب اپنے بچوں کو وقت ہی نہیں دیں گے تو آپ انہیں کسی بات کے لیے قائل کیسے کریں گے؟ بچوں کو دین اسلام کے دوستی کے تصور سے آگاہ کیجئے۔ انہیں بتائیے کہ دوست صرف وہ نہیں ہوتا جو صرف آپ کی خوشی میں شریک ہونا جانتا ہو بلکہ دوست وہ ہوتا ہے جو آپ کے غم میں بھی برابر کا شریک ہو۔ جو لالچ سے پاک ہو‘ جو آپ کے دکھ کو اپنا دکھ سمجھتا ہو اور جو آپ کے لیے جان بھی دینے کو تیار ہو۔
کسی نے امام جعفر صادقؒ سے پوچھا‘ دوست کیسا ہونا چاہیے؟ امام جعفر بولے‘ پانچ قسم کے آدمیوں سے دوستی نہ رکھئے‘ جھوٹا آدمی جو تمہیں سراب کی طرح دھوکا دے‘ بے وقوف جو تمہیں کوئی فائدہ نہ دے‘ کنجوس سے کہ جب تہیں اس کی مدد کی ضرورت ہو تو وہ تم سے علیحدہ ہو جائے‘ بزدل سے کہ جب تم خطرے میں ہو تو وہ تمہیں تنہا چھوڑ دے اور پانچواں بدطینت مکار شخص جو ایک روٹی کے ٹکڑے کی خاطر تمہیں فروخت کر دے۔
یہ حقیقت ہے کہ جس آدمی کا کوئی دوست نہیں اس کی زندگی بے کیف ہے۔ ساتھی درختوں کی طرح ہوتے ہیں جن میں سے کچھ تو پھل دار اور سایہ دار ہوتے ہیں اور کچھ صرف کانٹے دار جھاڑیاں۔ اسی طرح کچھ دوست اس دنیا اور آخرت‘ دونوں میں باعث رحمت ہوتے ہیں۔ کچھ صرف دنیا کے لیے فائدہ مند ہوتے ہیں اور کچھ لوگوں کا نہ تو دنیا میں کوئی فائدہ ہے اور نہ آخرت میں۔ کسی دانشور نے کہا تھا: دوستی کے لیے ہم خیال ہونا ہی نہیں ہم حال ہونا بھی ضروری ہے۔ مولانا رومی فرماتے ہیں: دوستوں کو اپنے دوست کی تکلیف جان کے برابر عزیز ہوتی ہے اور دوست سے جو تکلیف پہنچے وہ گراں نہیں ہوتی۔ دوست کی مثال سونے کی سی ہے اور آزمائش کے مثل ہے کہ خالص سونا آگ ہی میں خوش رنگ اور بے کھوٹ رہتا ہے۔
ابو سینا ؒ کہتے ہیں‘ ایک عقل مند سے پوچھا گیا ''بھائی بہتر ہے یا دوست؟‘‘
اس نے جواب دیا ''بھائی‘ اگر وہ دوست ہو‘‘۔
حضرت علیؓ نے فرمایا: بدکار سے دوستی نہ کرنا‘ وہ معمولی قیمت پر تمہیں بیچ دے گا۔
بچوں کو شیخ سعدی کی حکایتیں سنائیں۔ شیخ کہتے ہیں‘ وہ دوست قابل اعتماد نہیں جو تیسرے دشمنوں سے دوستی کرے۔ وہ شخص انتہائی کمینہ‘ ناشکرا اور حق نا شناس ہے جو معمولی سے تغیرِ حال سے پرانے دوست سے الگ ہو جائے اور برسوں کی نوازش کو بھول جائے۔ ایک اور جگہ کہتے ہیں: دوست تو زنداں میں بھی کام آتے ہیں اور دسترخوان پر دشمن بھی دوست نظر آتے ہیں۔
حضرت علیؓ فرماتے ہیں: اگر کوئی قابل شخص دوستی کے لائق نہ ملے تو کسی نااہل سے دوستی مت کرو۔ فیثا غورث نے کیا خوب کہا تھا: جس راز کو دشمن سے چھپانا چاہتے ہو اس کو دوست پر بھی ظاہر نہ کرو۔ ابن معروف ؒ کہتے ہیں: دشمن سے ایک بار‘ دوست سے ہزار مرتبہ ڈرو کیونکہ دوست اگر دشمن ہو جائے تو اسے گزند پہنچانے کے ہزاروں طریقے معلوم ہوتے ہیں۔ ہربرٹ سپنسر اسی بارے میں کہتا ہے: دوست کو اپنے حال سے اتنا ہی واقف کرو کہ اگر دشمن بھی ہو جائے تو نقصان نہ پہنچا سکے۔ ارسطو نے کہا: ہر نئی چیز اچھی ہوتی ہے لیکن دوستی جتنی پرانی ہو اتنی ہی عمدہ اور مضبوط معلوم ہوتی ہے۔ ایک بزرگ فرماتے ہیں: جب تم کسی دوست کا حال دریافت کرو اور وہ کہے کہ میں فلاں چیز کا محتاج ہوں اور تم اس سے تغافل کرو اور اس کی ضرورت پوری نہ کرو تو اس کا حال دریافت کرنا اس کے ساتھ تمسخر کے برابر ہو گا۔
دوستی کے بارے میں ایسی بے شمار حکایات اور ارشادات ہیں‘ جو سونے کے پانی سے لکھنے کے لائق ہیں؛ تاہم ہم انہیں سونے کے پانی سے لکھیں نہ لکھیں لیکن نئی نسل‘ اپنے بچوں کو ضرور ان سے آگاہ کرتے رہیں۔ بچپن سے ہی اگر انمول باتیں انہیں ازبر ہو جائیں تو ان کی زندگی سنور جائے گی اور آسان بھی ہو جائے گی کیونکہ تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں‘ بادشاہ ہوں یا ملک‘ انہیں کسی دشمن نے اتنا نقصان نہیں پہنچایا جتنا دوستوں نے۔