مسئلہ یہ نہیں کہ پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے‘ سوال یہ ہے کہ پاکستان کب تک ترقی پذیر ملک رہے گا۔ گزشتہ ستر برس کے دوران درجنوں حکومتوں آئیں اور چلی گئیں‘ ان میں فوج ادوار بھی شامل تھے اور ''جمہوری‘‘ بھی۔ اس دوران میں اور کچھ تبدیل ہوا یا نہیں لیکن یہ جملہ بدستور اپنی جگہ قائم و دائم ہے کہ پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے۔ کبھی کبھی تو ایسا لگتا ہے کہ ہم نے اس لفظ کے ساتھ بھی سمجھوتہ کر لیا ہے۔ جس طرح ہمارے ہاں ایک لڑکی نئے گھر میں بیاہ کر جاتی ہے اور اسے کہا جاتا ہے کہ اس گھر سے تمہاری میت ہی واپس آنی چاہیے۔ وہاں تمہارے ساتھ جو بھی بدسلوکی ہوتی رہے تم نے صبر کرنا ہے اور اپنا وقت پورا کرنا ہے۔ اسی طرح ہم بھی شاید اپنا وقت پورا کر رہے ہیں۔ حکومتیں آتی ہیں‘ وقت پورا کرتی ہیں اور چلی جاتی ہیں۔ ملک کو ترقی یافتہ بنانے کے دعوے کئے جاتے ہیں۔ کچھ اقدامات بھی ہوتے ہیں لیکن اگلی حکومت آ کر نئے سرے سے اکھاڑ پچھاڑ شروع کر دیتی ہے۔ پرانی تختیوں کی جگہ نئی تختیاں لگا لیتی ہے اور یوں یہ سلسلہ ستر بہتر برس سے جاری و ساری ہے۔
ان ستر برسوں کے دوران پاکستان تو ہمارے سامنے ہے لیکن ذرا چین کو بھی دیکھ لیں جو ہمارے دو سال بعد اسی مہینے میں یکم اکتوبر 1949ء کو آزاد ہوا تھا۔ ہم آج تک ترقی پذیر کے المیے میں پھنسے ہوئے ہیں اور چین کو دیکھ لیں پوری دنیا کی معیشت جس کے تابع ہو چکی ہے‘ حتیٰ کہ امریکہ جیسا ملک اس کا اچھا خاصا مقروض ہے۔ یہ چین کے حکمرانوں اور چینی عوام دونوں کی مشترکہ جدوجہد کا نتیجہ ہے جس کے ذریعے آج چین دنیا میں سوئی دھاگے سے لے کر خلائی جہاز تک بنانے میں پیش پیش ہے۔ ہماری ناکامی اور چین کی کامیابی میں ایک بنیادی وجہ کام کی ہے۔ ہم ناکام اس لئے ہیں کہ کام نہیں کرتے جبکہ چین نے اپنی ساری آبادی کو کام پر لگا دیا۔ آپ کو شاید یہ سن کر حیرت ہو کہ چین میں اسی پچاسی سالہ خاتون بھی کام کرتی ہے چاہے گھر میں ہی کرتی ہو یا گھر کے قریب کسی کارخانے میں جاتی ہو‘ لیکن وہ گھر میں پڑی زندگی کے دن پورے نہیں کرتی۔ ہمارے ہاں تو لوگ جیسے ہی پچاس کے عشرے تک پہنچتے ہیں انہیں اپنے سامنے بڑھاپے کی کھائی دکھائی دینے لگتی ہے۔ اعضا اور دماغی خلیے کمزور پڑ جاتے ہیں اور یہ سوچ سوچ کر کہ میں ساٹھ برس کی عمر میں جا کر ناکارہ ہو جائوں گا‘ وقت سے پہلے ہی طرح طرح کی بیماریوں میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ چین اور جاپان جیسے ملکوں میں بھی لوگوں کو ریٹائرمنٹ کا خوف رہتا ہے لیکن اس لئے نہیں کہ وہ معاشی طور پر کمزور ہو جائیں گے بلکہ اس لئے کہ ان کے لئے گھر بیٹھنا کسی عذاب یا سزا سے کم نہیں۔ چین اور جاپان جیسے ممالک میں زندگی کے دن بغیر ہاتھ پائوں ہلائے پورے کرنا گویا ایک جرم ہے۔ اسی لئے جیسے ہی ریٹائرمنٹ کا وقت قریب آتا ہے لوگ مختلف نجی کمپنیوں میں ملازمت کی پیشگی درخواستیں دینا شروع کر دیتے ہیں اور ضروری نہیں کہ وہ با معاوضہ ہوں بلکہ وہ بلا معاوضہ بھی کام کرنے کو تیار رہتے ہیں‘ کیونکہ اس سے ان کی ذہنی اور جسمانی صحت بہتر رہتی ہے بلکہ اس کے ساتھ وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ اپنے ملک کی ترقی میں کوئی نہ کوئی حصہ ضرور ڈال رہے ہیں۔
اب آپ پاکستان واپس تشریف لے آئیں۔ ہم ایک اور جملہ بہت سنتے آئے ہیں کہ پاکستان بے بہا قدرتی وسائل سے مالا مال ملک ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ قدرتی وسائل بھی آخر کسی نہ کسی خاص مقدار میں موجود ہوتے ہیں۔ ایک نہ ایک دن انہیں بھی ختم ہونا ہے‘ پھر بھی ہم اپنے زورِ بازو کو قدرتی وسائل میں شمار نہیں کرتے اور روزانہ کسی معجزے کے انتظار میں رہتے ہیں کہ شاید کسی جگہ سے تیل نکل آئے‘ معدنیات کا ذخیرہ ہمیں مالا مال کر دے اور ہم اپنی معیشت کو سنوار سکیں۔ ہمارے پاس جو سب سے بڑا قدرت کا انعام ہے وہ نوجوان ہیں۔ پاکستان میں نوجوانوں کی اوسط میڈین عمر تئیس اعشاریہ آٹھ برس ہے۔ پاکستان کی چونسٹھ فیصد آبادی پینتیس برس سے کم عمر کی ہے۔ یہ اتنی بڑی نعمت ہے جس کا ہمیں اندازہ ہی نہیں۔ آپ یہ سوچیں کہ کسی گھر میں اگر دس میں سے چھ سات لوگوں کی عمر تئیس برس ہو تو اس گھر کے معاشی حالات زیادہ بہتر ہونے کے امکانات زیادہ ہیں یا کہ ایسے گھر کے جس میں صرف ایک شخص تئیس برس کا ہے اور باقی پچاس ساٹھ برس کے۔ جوانی میں انسان کا کام کرنے کا جذبہ اور توانائی‘ دونوں عروج پر ہوتے ہیں اسی لئے آپ دیکھیں گے کہ دنیا کے جتنے بھی کامیاب لوگ سامنے آئے انہوں نے بائیس سے چوبیس برس کے درمیان غیرمعمولی کامیابیاں سمیٹیں۔ ہمارے مقابلے میں بھارت میں یہ عمر ستائیس برس سے بھی زیادہ ہے۔ برطانیہ میں یہ عمر چالیس سال‘ چین میں 37 سال‘ جاپان میں سینتالیس سال‘ کینیڈا میں بیالیس سال اور امریکہ میں اڑتیس سال ہے۔ میڈین عمر کا مطلب ہے کہ اس ملک کی آدھی آبادی اس عمر سے کم اور آدھی اس سے زیادہ ہے۔ یہ عمر جتنی کم ہو گی اتنا ہی اس ملک میں نوجوانوں کی تعداد زیادہ ہو گی۔ اب اگر کوئی ملک اتنے زیادہ نوجوانوں کے ساتھ بھی خود کو ترقی پذیر سے ترقی یافتہ نہیں بنا سکتا تو یہ بدقسمتی ہی ہو سکتی ہے۔ آپ بنگلہ دیش کو دیکھ لیں جہاں یہ اوسط عمر چھبیس برس ہے اور اس نے چالیس برسوں میں حیران کن ترقی کی ہے۔ اس کی برآمدات بھی چالیس ارب ڈالر سے تجاوز کر چکی ہیں۔ اس کا انفلیشن ریٹ بھی پاکستان سے چار فیصد کم ہے اور اکنامک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق دو ہزار تیس تک بنگلہ دیش دنیا کی چوبیسویں بڑی معیشت بن چکا ہو گا۔ آکسفورڈ انٹرنیٹ انسٹی ٹیوٹ کے مطابق دنیا میں انٹرنیٹ پر کام کرنے والے افراد کے لحاظ سے بنگلہ دیش دوسرے نمبر پر ہے۔ یہ آئی بی ایم جیسی کمپنیوں کے ساتھ مل کر انفارمیشن اور کمیونیکیشن ٹیکنالوجی میں بہت زیادہ سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ پورے ملک کی یونیورسٹیوں کو آئی ٹی کے جدید کورسز اور آلات سے لیس کر دیا گیا ہے۔ نوجوان ورک فورس کو آئی ٹی کے موجودہ اور مستقبل کے چینلنجز کے لئے تیار کیا جا رہا ہے۔ بگ ڈیٹا‘ انٹرنیٹ آف تھنگز‘ مصنوعی ذہانت اور بلاک چین جیسے شعبوں میں حکومتی اور نجی سطح پر بے پناہ سرمایہ کاری کی جا رہی ہے کیونکہ یہ تمام شعبے آئندہ پچاس برس میں دنیا کی معیشت کو نیا رخ دینے والے ہیں اور بنگلہ دیش خود کو ان کے برابر لانا چاہتا ہے۔ اگر دو ہزار تیس تک بنگلہ دیش دنیا کی چوبیسویں بڑی معیشت بن گیا تو یہ ترقی پذیر ممالک کی فہرست سے بھی نکل جائے گا اور پچاس برس بعد ایسے مقام پر کھڑا ہو جائے گا جہاں تک پہنچنے کے لئے ہم ابھی تک ہاتھ پائوں ہی مارے جا رہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ہم سائیکل پر بیٹھے پیڈل تو بہت تیز تیز مار رہے ہیں‘ زور بھی لگا رہے ہیں اور ہمارا سانس بھی چڑھا ہوا ہے لیکن ہماری سائیکل کا چین اترا ہوا ہے اور ہم کھڑی سائیکل پر منزل کے حصول کی کوشش کر رہے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک بننے سے قبل تمام ممالک ترقی پذیر ہی تھے لیکن پھر انہوں نے ایک ارادہ کیا‘ اپنی سمت درست کی‘ اپنے وسائل کو جمع کیا‘ حکمرانوں اور عوام نے مل کر اپنے ملک کو آگے بڑھانے کے لئے ایک ساتھ زور لگایا‘ اس طرح کسی نے پچاس برس کسی نے ساٹھ برس میں اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کر لیا‘ حتیٰ کہ جاپان جیسا ملک‘ جو ایٹم بموں کے حملے سے قبل بھی خاصا مضبوط تھا‘ حملوں کے بعد دوبارہ ایسا اٹھا کہ پوری دنیا میں جاپانی مصنوعات کی بھرمار ہو گئی۔ جاپان نے ثابت کر دیا کہ آپ ترقی پذیر ہو سکتے ہیں‘ تباہ حال ہو سکتے ہیں‘ آپ معاشی طور پر بدحال بھی ہو سکتے ہیں لیکن اگر آپ اپنی سمت درست کر لیں‘ اگر آپ کے حکمران اور آپ کے عوام ایک ہی گاڑی کے پہیے بن جائیں تو پھر ایسی قوم اور ایسے ملک کو بدلنے سے کوئی نہیں روک سکتا لیکن اگر آپ سمجھتے ہیں کہ آپ پر ترقی پذیر ملک کا لیبل مستقل طور پر لگ گیا ہے اور آپ اس سے کبھی آزاد نہیں ہو سکتے تو پھر آپ واقعی ہمیشہ ترقی پذیر ہی رہیں گے کیونکہ جو قومیں امید اور کوشش کرنا چھوڑ دیتی ہیں ان کا مستقبل کبھی روشن نہیں ہو سکتا۔