الیکٹرک گاڑیوں کی تیاری کے حوالے سے وفاقی کابینہ نے نیشنل الیکٹرک وہیکل پالیسی کی جو منظوری دی ہے وہ 'دیر آید درست آید‘ والا اقدام ہے۔ اس کی کئی وجوہ ہیں مثلاً یہ کہ پٹرول اور ڈیزل سے چلنے والی گاڑیاں اور بسیں نہ صرف ماحول کو تباہ کر رہی ہیں بلکہ صارفین پر معاشی بوجھ بھی بڑھا رہی ہیں۔ اسی طرح تیل کی قیمت میں بھی مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ خلیجی ممالک میں جنگ چھڑ جائے یا تیل کے کسی کنویں پر حملہ ہو جائے تو خام تیل کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہو جاتا ہے۔ ایک اور سنگین مسئلہ ماحول کو لاحق ہے۔ سموگ‘ جو ملک کا پانچواں موسم بن چکا ہے‘ ٹرانسپورٹ اور فیکٹریوں وغیرہ کا دھواں اس کی بنیادی وجہ ہے۔ اگرچہ سموگ کی مرکزی ذمہ داری بھارت پر عائد ہوتی ہے جہاں پنجاب میں کسان فصلیں جلا کر دہلی سے لے کر لاہور اور لاہور سے لے کر ڈھاکہ تک کی اسی کروڑ کی آبادی کو اس عذاب میں مبتلا کر رہے ہیں؛ تاہم بہت سے دوسرے عوامل بھی مل کر ماحول کو تباہ کرنے میں معاون ثابت ہو رہے ہیں۔
الیکٹرک پالیسی پاکستان میں آٹو سیکٹر میں بہت سی تبدیلیاں لے کر آئے گی۔ اس سے صرف گاڑی مالکان کو ہی فائدہ نہیں ہو گا بلکہ روزگار کے نئے مواقع بھی پیدا ہوں گے اور آٹو پارٹس کی صنعت کو ایک نئی جہت ملے گی۔ کابینہ کی جانب سے 2030 تک پاکستان میں 30 فیصد الیکٹرک گاڑیاں چلانے کا ہدف طے کیا گیا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق دنیا میں 20 فیصد آلودگی ٹرانسپورٹ کے باعث ہے جبکہ پاکستان میں 40 فیصد آلودگی ٹرانسپورٹ کی وجہ سے پھیل رہی ہے۔ پاکستان میں الیکٹرک کار، رکشہ، وین اور ٹرک کے آنے سے تیل کی درآمدات 2 ارب ڈالر تک کم ہوں گی، جس کی وجہ سے زرمبادلہ کی بھاری بچت ہو گی جبکہ اس فیصلے سے ملک میں آلودگی اور سموگ جیسے مسائل میں بھی کمی آئے گی کیونکہ الیکٹرک گاڑیاں تیل اور گیس سے چلنے والی گاڑیوں کے مقابلے میں 70 فیصد کم آلودگی کا باعث بنتی ہیں۔ پہلے مرحلے میں حکومت کا ہدف 30 فیصد ملکی گاڑیوں کو الیکٹرک وہیکل سے تبدیل کرنا ہے۔ اس حوالے سے گاڑیاں بنانے والی کمپنیاں بھی تیار ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ انہوں نے ابتدائی کام بھی مکمل کرلیا ہے اور گاڑیاں مارکیٹ میں لانے کے لیے وہ حکومتی فیصلے کی منتظر ہیں۔
الیکٹرک وہیکل پالیسی بہت سی دلچسپ خصوصیات کی حامل ہے مثلاً یہ کہ آئندہ چار سالوں میں ایک لاکھ گاڑیوں کو برقی ٹیکنالوجی پر لایا جائے گا جبکہ اسی دوران پانچ لاکھ موٹر سائیکلیں اور رکشے بجلی پر چلیں گے۔ الیکٹرک وہیکلز کے پرزوں اور بیٹریوں کی درآمد پر ایک فیصد کسٹم ڈیوٹی عاید ہو گی جبکہ پاکستان میں بننے والی الیکٹرک گاڑیوں، موٹر سائیکلوں اور رکشوں پر ایک فیصد جنرل سیلز ٹیکس لگایا جائے گا۔ پاکستان میں بننے والی الیکٹرک وہیکلز پر کوئی رجسٹریشن فیس اور ٹوکن ٹیکس نہیں ہو گا۔ ان کے لیے خاص رجسٹریشن پلیٹس متعارف کروائی جائیں گی۔ دو سال کے لیے استعمال شدہ الیکٹرک گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں پر 15 فیصد کسٹم ڈیوٹی ہو گی۔ 30 فیصد گاڑیوں کو الیکٹرک ٹیکنالوجی پر لانے سے تیل کے امپورٹ بل میں دو ارب ڈالر کی بچت ہو گی۔ الیکٹرک گاڑیاں بنانے کے لیے سپیشل اکنامک زونز بن گئے تو روزگار کے مواقع بھی نکلیں گے۔ چونکہ الیکٹرک گاڑیوں میں بیٹری کا مرکزی کردار ہوتا ہے، اس لیے قسطوں پر الیکٹرک بیٹری فروخت کرنے کی تجویز بھی موجود ہے۔ اس منصوبے کے تحت لوگ گاڑیوں کی بیٹری چارج کرنے کے لیے چارجنگ یونٹس کا استعمال کر سکیں گے یا اپنی بیٹری کو چارج کرنے یا کرانے کے بجائے پہلے سے چارج شدہ متبادل بیٹری حاصل کر سکیں گے۔ ایک خبر کے مطابق الیکٹرک کاروں میں ڈلنے والی لیتھیم آئن بیٹری بنانے والی ایک کورین کمپنی نے پاکستان کے شہر لاہور میں اپنا پلانٹ لگانے میں دلچسپی ظاہر کر دی ہے۔
جدید ممالک کئی برس قبل اس پالیسی کو اپنا چکے ہیں اور وہاں الیکٹرک گاڑیاں تیزی سے فروخت ہو رہی ہیں جبکہ تیل سے چلنے والی گاڑیوں کی مانگ میں کمی آ چکی ہے۔ ناروے میں گزشتہ برس کے ابتدائی چھ ماہ میں فروخت ہونے والی نئی گاڑیوں میں نصف مکمل الیکٹرک گاڑیاں تھیں۔ ناروے میں گزشتہ برس جنوری تا جون فروخت ہونے والی 48.4 فیصد گاڑیوں میں مکمل الیکٹرک انجن تھے جبکہ سال 2017 میں ایسی گاڑیوں کی صرف 31.2 فیصد فروخت ہوئی تھی۔ اسی دوران پٹرول سے چلنے والی گاڑیوں کی فروخت میں 30 فیصد کمی آئی ہے، جبکہ ہائبرڈ گاڑیوں کی فروخت 20 فیصد سے گر کر 11 فیصد پر آ گئی۔ اس پیش رفت کا مطلب ہے کہ ناروے الیکٹرک گاڑیوں کی فروخت کے معاملے میں دنیا کے دیگر ممالک میں سب سے آگے نکل گیا ہے جبکہ دوسرے نمبر پر آئس لینڈ ہے جہاں ایسی گاڑیاں 30 فیصد فروخت ہوئی ہیں۔ جس طرح کی پالیسی آج ہماری حکومت نے الیکٹرک گاڑیوں کے حوالے سے اپنائی ہے بالکل اسی طرح ناروے میں تین سال قبل سیاستدانوں نے آئندہ دس سالوں کے دوران ناروے میں تمام دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں پر پابندی لگانے اور الیکٹرک گاڑیوں کے لیے ٹیکس میں چھوٹ کے ساتھ ساتھ مراعات دینے کا عہد کیا تھا‘ جس کے بعد ناروے میں الیکٹرک گاڑیوں کے مالکان کو ٹول ٹیکس میں ڈسکاؤنٹ دی گئی۔ ان پالیسیوں کی وجہ سے ہائبرڈ یعنی الیکٹرک اور فیول جلانے والی گاڑیوں کے مقابلے میں اُن کمپنیوں کی سیل میں اضافہ ہوا‘ جو مکمل الیکٹرک گاڑیاں بناتی ہیں۔ ناروے میں گزشتہ برس فروخت ہونے والی تمام گاڑیوں میں 46 فیصد الیکٹرک گاڑیاں تھیں جو ناروے کو دنیا میں الیکٹرک گاڑیوں کو اپنانے والا سب سے بڑا ملک بناتی ہے۔ دیگر ممالک میں آئس لینڈ 17 فیصد کے ساتھ دوسرے اور سویڈن آٹھ فیصد کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے جبکہ اس مدت کے دوران امریکہ میں 2.4 فیصد الیکٹرک گاڑیاں فروخت ہوئیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق 2018 الیکٹرک گاڑیوں کی فروخت کے حوالے سے 'ریکارڈ سال‘ تھا، جس کے دوران دنیا بھر میں ایسی گاڑیوں کی فروخت میں 68 فیصد اضافہ دیکھا گیا۔ اس حوالے سے چین سب سے بڑی مارکیٹ رہی ہے جہاں 2018 میں دس لاکھ الیکٹرک گاڑیاں فروخت ہوئیں۔ اسی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے امریکی حکومت نے 48 نئی شاہراہیں بنانے کا اعلان کیا۔ اس اعلان میں اہم نکتہ یہ ہے کہ ان شاہراہوں پر بجلی سے چلنے والی گاڑیوں کو چارج کرنے کے لئے خصوصی پوائنٹس بھی بنائے جانے تھے۔ چارجنگ پوائنٹس منصوبے کو نیشنل الیکٹرک وہیکل چارجنگ کاریڈور کا نام دیا گیا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ وہ سفر کیلئے عام شاہراہیں ہی ہوں گی مگر ان میں خصوصیت یہ ہو گی کہ ان میں الیکٹرک گاڑیوں کے سفر کیلئے خصوصی سہولیات فراہم کی جائیں گی اور ان شاہراہوں پر گاڑیوں کو چارج کرنے کیلئے خصوصی پوائنٹس بھی بنائے جائیں گے۔ ان شاہراہوں پر سفر کرنے والوں کو ہر پچاس میل کے فاصلے پر چارجنگ پوائنٹ دستیاب ہو گا‘ جہاں وہ اپنی گاڑیوں کو ری چارج کرا سکیں گے۔ امریکہ میں اب تک ایسے بیس ہزار سے زائد چارجنگ سٹیشنز بن چکے ہیں۔
پاکستان میں الیکٹرک گاڑیوں کی حکومتی پالیسی کو خاصی پذیرائی حاصل ہوئی ہے؛ تاہم کامیابی کے لئے ضروری ہے کہ ان گاڑیوں کو ری چارج کرنے کے لئے ایک مربوط نظام موجود ہو جو مختلف شہروں کے درمیان طویل سفر کے دوران شہریوں کو چارجنگ کی سہولیات فراہم کر سکے۔ اس وقت الیکٹرک گاڑیاں ایک چارج میں ایک سو سے لے کر تقریباً تین سو کلومیٹر کا سفر طے کرتی ہیں؛ تاہم اس فاصلے کو مزید بڑھانے کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں ابتدائی مرحلے میں تین ہزار سی این جی سٹیشنز کو الیکٹرک وہیکل چارجنگ یونٹس بنانے کی تجویز دی گئی ہے۔ اس سے روزگار کے مواقع بھی برقرار رہیں گے اور صنعت کا پہیہ بھی چلتا رہے گا۔ وہی جگہیں جو سی این جی کیلئے استعمال ہو رہی ہیں تھوڑی سی لاگت سے انہیں الیکٹرک چارجنگ پوائنٹس میں تبدیل کر دیا جائے گا۔ اسی طرح دفاتر اور کار پارکنگ ایریاز میں بھی ایسے سٹیشن بنائے جانے چاہئیں تاکہ گھر‘ دفتر یا دیگر پبلک مقامات پر آنے والے افراد جتنی دیر گاڑی کھڑی کریں وہ ری چارج ہو سکے اور انہیں صرف مخصوص چارجنگ سٹیشنز پر اکتفا نہ کرنا پڑے۔ ویسے بھی چارجنگ کے لئے پٹرول ڈالنے کی نسبت کہیں زیادہ وقت درکار ہوتا ہے۔ ایک گاڑی کو چارج کرنے میں تیس منٹ سے لے کر بارہ گھنٹے لگ سکتے ہیں اور اس کا انحصار اس کے بیٹری سائز پر ہوتا ہے؛ چنانچہ جتنے زیادہ سٹیشنز بنائے جائیں گے اور جتنی کم قیمت پر تیز ترین چارجنگ دستیاب ہو گی‘ اتنی ہی یہ پالیسی کامیاب ثابت ہو گی۔