کراچی میں گزشتہ دنوں ایک خاتون کو سگنل کی خلاف ورزی پر روکا گیا تو وہ الٹا ٹریفک اہلکار پر برس پڑی اور اسے دھمکیاں دیتی ہوئی فرار ہو گئی۔ یہ رویہ کسی ایک فرد کا نہیں بلکہ ننانوے فیصد لوگ یہی کچھ کرتے ہیں۔ جس کو موقع ملتا ہے اور جس کا دائو لگتا ہے وہ قانون توڑنے میں پیچھے نہیں رہتا۔ اس خاتون کو اتنی سمجھ اور شعور نہیں کہ سگنل کی خلاف ورزی خود اس کے اپنے نقصان میں ہے۔ اگر دوسری طرف سے گاڑی گرین سگنل ہونے پر آ کر اس خاتون سے ٹکرا جاتی تو نقصان کس کا ہوتا۔ گاڑی اور ہڈیاں تڑوا کر جو بات بعد میں سمجھ آنی ہے وہ پہلے کیوں نہ سمجھ لی جائے۔ خدانخواستہ اگر اس کا اپنا کوئی رشتہ دار سڑک پار کرتے ہوئے سگنل توڑتے ہوئے اس کی گاڑی تلے آ جاتا تو وہ کس کو ذمہ دار ٹھہراتی۔ پاکستان شاید وہ واحد ملک ہے جہاں کھلا اشارہ ملنے کے باوجود انتہائی احتیاط کے ساتھ دائیں بائیں دیکھ کر چلنا پڑتا ہے کیونکہ لوگ سگنل کو برائے نام ہی اہمیت دیتے ہیں۔ وہ ان چھوٹی موٹی چیزوں کی پروا نہیں کرتے اور آہستہ آہستہ بڑے قانون توڑنے کے عادی ہو جاتے ہیں۔ جب ایسی گاڑی میں والدین کے ساتھ ان کے بچے بھی موجود ہوتے ہیں تو ان (بچوں) کے لاشعور میں یہی چیز پختہ ہو جاتی ہے اور وہ بھی بڑے ہو کر یہی کچھ کرتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اپر کلاس ہو مڈل یا لوئر کلاس‘ سبھی لوگ چھوٹے چھوٹے قانون توڑنے میں فخر محسوس کرتے ہیں لیکن یہی لوگ جب بیرون ملک کی سرزمین پر اترتے ہیں تو بندے کے پُتر بن جاتے ہیں۔ گھر سے سارے قوانین رٹ کر نکلتے ہیں کہ دبئی میں اترتے ہی یہ نہیں کرنا وہ نہیں کرنا۔ سڑک پر کاغذ یا سگریٹ نہیں پھینکنا۔ قطار کا خیال کرنا ہے۔ گاڑی درست جگہ پارک کرنی ہے‘ اونچی آواز میں ڈیک نہیں لگانا‘ لوگوں کے آرام و سکون کا خیال کرنا ہے۔ پیدل لوگوں کو زیادہ اہمیت دینی ہے۔ اگر کوئی سڑک پر پیدل سڑک پار کر رہا ہو تو اسے دیکھ کر پاگلوں کی طرح ہارن نہیں بجانے لگ جانا بلکہ گاڑی روک کر اسے پہلے گزرنے کا موقع دینا ہے۔ یہ ساری چیزیں باہر جا کر از بر بھی ہو جاتی ہیں اور ان پر عمل درآمد بھی شروع ہو جاتا ہے‘ لیکن جب یہی لوگ واپس پاکستان آئیں گے تو وہی کچھ شروع کر دیں گے جو جانے سے پہلے کرتے تھے۔
اب سوال یہ ہے کہ اگر یہ چھوٹی چیزیں ہیں اور ان پر عمل کرنا ضروری نہیں تو پھر چھوٹی چھوٹی قانونی خلاف ورزیاں ختم کر دینی چاہئیں۔ سگنلز ختم کرکے لوگوں کو ایک دوسرے سے گتھم گتھا ہونے کا شوق پورا کرنے دینا چاہیے تاکہ اچھی طرح یہ ایک دوسرے سے ٹکریں مار کر ان کے سر پھاڑ لیں۔ موٹر سائیکل سواروں کا اپنا مسئلہ ہے۔ سینئر کالم نگار اظہار الحق صاحب نے ایک مرتبہ 'دنیا‘ میں ٹڈی دَل کے نام سے کالم لکھا تھا جس میں انہوں نے موٹر سائیکل سواروں کی بے قاعدگیوں پر گہری چوٹ کی تھی۔ مسئلہ موٹر سائیکل رکھنے کا نہیں۔ نہ ہی یہ کہ اس میں کسی کی تضحیک مقصود تھی۔ انہوں نے بھی لکھا تھا کہ جیسے ہی کوئی اشارہ بند ہوتا ہے تو دائیں بائیں سے موٹر سائیکل سوار کٹیں مارتے آگے جانے کی کوشش کرتے ہیں اور اس کوشش میں اکثر کسی گاڑی کا شیشہ توڑ دیتے ہیں۔ آگے اشارہ بند ہوتا ہے لیکن وہ زیادہ سے زیادہ آگے کھڑے ہونا چاہتے ہیں تاکہ جیسے ہی اشارہ کھلے وہ سب سے پہلے وہاں سے نکل سکیں۔ جب اشارہ کھلتا ہے تو واقعی ایسا منظر ہوتا ہے جیسے موٹر سائیکلوں کی عالمی ریس ہو رہی ہو۔ یوں دائیں بائیں سے لہرا لہرا کر بائیکس نکلتی ہیں جیسے سبھی کو ایمرجنسی ہے یا کسی نے ریس کا عالمی مقابلہ جیت لینا ہے۔ گزشتہ دنوں سندھ میں ٹڈی دَل کا حملہ ہوا تو موٹر سائیکلوں کے حوالے سے یہ تحریر یاد آ گئی۔ بارہا محکمہ ٹریفک نے موٹر سائیکل سواروں کی تربیت کے لئے مہم چلائی لیکن بے سود۔ جیل روڈ اور دیگر سڑکوں پر دو لائنوں کے درمیان میں رکاوٹیں رکھ کر موٹر سائیکلوں کو انتہائی بائیں لین میں چلانے کی کوشش بھی کی گئی لیکن اس کا بھی کوئی فائدہ نہ ہوا۔ جس نے اپنی مرضی کرنی ہے اس کے آگے ٹینک بھی کھڑے کر دیں گے تو اس کی کوشش ہو گی کہ وہ سلطان گولڈن کی طرح چھلانگ لگا کر دوسری جانب چلا جائے۔
میں نے یہ موضوع اس لئے چھیڑا ہے کہ گزشتہ کئی برسوں سے ملک میں تبدیلی کی بحث اور لہر دونوں برابر چل رہی ہیں۔ مصیبت یہ ہے کہ عوام حکمرانوں کو تبدیل ہوتے دیکھنا چاہتے ہیں اور ان کے ذریعے ملک کو ترقی یافتہ دیکھنے کے خواہش مند ہیں جبکہ حکمران چاہتے ہیں عوام خود کو بدلیں‘ وہ کرپشن چھوڑیں‘ نظم و ضبط کا مظاہرہ کریں‘ ٹیکس دیں وغیرہ وغیرہ۔ اب جب ہم سڑکوں پر عوام کی جانب سے قانون کی دھجیاں اڑتے دیکھتے ہیں‘ جب ہر کسی کو ایک دوسرے کو روندنے کی پڑی ہوئی ہے تو پھر تبدیلی کہاں اور کیسے آئے گی؟ ہمیں یہ تو دکھائی دیتا ہے کہ فلاں وزیر کے ساتھ دس گاڑیاں پروٹوکول کی جا رہی ہیں لیکن ہمیں اپنی حرکتیں نظر نہیں آتیں۔ میں شرطیہ کہتا ہوں ہمارے حکمران سائیکلوں پر آ جائیں تب بھی اس قوم کا مزاج نہیں بدل سکتا۔ یہاں جس کاجتنا بس چلتا ہے وہ اتنا ہی بڑا ٹوکہ لے کر بیٹھا ہوا ہے۔ لوگوں کی عادتیں اتنی جلدی چھٹنے والی نہیں ہیں۔ سوشل میڈیا پر کسی بھی واقعے کے کمنٹس پڑھ لیں آپ کو آدھے لوگ ایسے مل جائیں گے جو اچھی چیز سے بھی اپنا مطلب نکال کر بہتان تراشی کر رہے ہوں گے۔ عادتیں اتنی جلدی چھوٹنے والی نہیں۔ یہ ڈنڈے کی قوم بن چکی ہے۔ سگنل پر بھی اگر کوئی وارڈن کھڑا ہے تو لوگ رک جائیں گے ورنہ وارڈن کا چہرہ ایک سیکنڈ اُدھر ہوا اور اِدھر سے دو چار موٹر سائیکل یہ جا وہ جا۔ اس ملک میں اگر صحیح تبدیلی آنی ہے تو اس کے پیچھے ڈنڈا بھی آئے گا۔ اس کے بغیر کام نہیں چلنا۔ کوئی بھی یہاں خود سے ٹھیک ہونے کو تیار نہیں۔ مراعات سب کو چاہئیں‘ مہنگائی اور غربت بھی سب ختم ہوتے دیکھنا چاہتے ہیں لیکن اس کی قیمت ادا کرنے کو کوئی تیار نہیں۔ پاکستان میں آٹھ گھنٹے کی نوکری میں ہر کوئی تین چار گھنٹے کام کرتا ہے۔ اس میں بھی کام کا معیار کیا ہوتا ہے یہ خدا ہی جانتا ہے۔ باقی وقت کھانے پینے موبائل سے کھیلنے اور دوستوں سے گپیں لگانے میں نکل جاتا ہے۔ جاپان میں صبح نو بجے دفتر لگتا ہے تو آٹھ بجے لوگ دفتر میں ہوتے ہیں اور چھ بجے چھٹی ہو تو بھی رات آٹھ بجے سے پہلے کوئی نہیں نکلتا چاہے کام ختم ہی کیوں نہ ہو گیا ہو۔ وہاں اتنی چھٹیاں بھی نہیں ہوتیں۔ جدید ممالک میں اگر ہفتے میں دو چھٹیاں ہوتی ہیں تو وہ لوگ پانچ دن ٹِکا کر کام بھی کرتے ہیں۔ پھر ان پانچ دنوں میں وہ ساری توجہ اپنے کام پر مرکوز رکھتے ہیں اور دو چھٹیوں میں ڈٹ کر انجوائے کرتے ہیں۔ ایسا انجوائے کہ اگلے پانچ دن وہ فریش ہو کر کام کریں۔ یہاں یہ پانچ دن بھی بھاری پڑ رہے ہوتے ہیں۔ ذرا سی بارش ہو جائے تو سموسے چاٹ کھانے کا پروگرام بن جاتا ہے۔ بات بات پر چھٹی کے ساتھ چھٹیاں ملائی جاتی ہیں۔ گزشتہ دو تین برسوں سے تو عیدین پر دس دس چھٹیاں بھی اکٹھی ہو گئیں۔ اس کے باوجود لوگوں کا چھٹی سے دل نہیں بھرتا۔ جدید ممالک میں الٹ حساب ہے۔ وہ کام کرنے کے بہانے ڈھونڈتے ہیں۔ سکول کی سطح سے ہی طالب علم کو سکھایا جاتا ہے کہ اس نے کمیونٹی کے لئے کچھ نہ کچھ وقت نکالنا ہے۔ پودوں کی دیکھ بھال‘ گھر کی چھوٹی موٹی مرمتیں اور سکولوں کی صفائی یہ سب جاپان جیسے ملکوں میں تو ہر کسی کے لئے لازمی ہے۔ کام کرنے کی اس لگن نے ہی ان ممالک کو آج صف اول پر لا کھڑا کیا ہے۔ دوسری طرف ہم لوگ ہیں جو کام سے جی چرانے اور قانون کی خلاف ورزیوں کے عادی ہو چکے ہیں۔ ہر کوئی کم وقت میں بہت کچھ سمیٹنا چاہتا ہے۔ ہر کسی کو جلدی ہے چاہے وہ موٹر سائیکل سوار ہے یا کوئی اور۔ اس ہڑبونگ کی وجہ سے ہم نہ اپنا کام ٹھیک سے کر پا رہے ہیں نہ ہی اس ملک کو ہمارا کوئی فائدہ ہو رہا ہے۔ اس لئے تبدیلی چاہئے تو اس چیز کو ٹھیک کریں جو آپ کے اختیار میں ہے اور جو آپ کے اختیار میں نہیں اس کے لئے پریشان ہونا اور دل جلانا چھوڑ دیں۔آپ ٹھیک ہو گئے تو سمجھ لیں باقی چیزیں بھی ٹھیک ہو جائیں گی۔